امریکیوں عربوں اور ملک کے مال دار طبقات کی مدد سے اقتدار میں آنے والی نوازحکومت بھی ان طبقوں کے مفادات کی تکمیل کی راہ پر اتنا آگے بڑھ چکی ہے کہ اب اس کیلئے واپسی ممکن نہیں۔ ہر ظالمانہ ٹیکس اور نرخوں میں اضافہ حکومت ایک ہی وجہ سے کرتی ہے ’’ہم آئی ایم ایف سے وعدہ کرچکے ہیں‘‘۔ وعدے اور ہمدردی کے دعوے تو حکومت عام آدمی سے بھی کرچکی تھی جن کی توقعات کو اقتدار میں آنے سے پہلے آسمان تک پہنچادیا گیا تھا۔ عوام حیران ہیں کہ لوڈشیڈنگ تو کم نہ ہوئی بجلی کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں۔ دنیا بھر میں پیٹرول سستا ہورہا ہے ہمارے ہاں اس کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ اس حکومت کے آنے کے بعدروپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے گری ہے اور یہ سارا بوجھ صرف اور صرف عوام پر ڈالا گیا ہے۔ جس حکومت کی بنیاد جعلی الیکشن ہیں اس کی ترجیحات غریبوں کا منشور کہاں ممکن ہے۔ حالیہ الیکشن میں دھاندلی اب کوئی شک شبہہ کی بات نہیں ہے جس نے حالیہ انتخابات کو فیصلہ کن پیمانے پر متنازع اور مشکوک بنادیا ہے۔ اور ثابت کردیا ہے کہ جمہوریت میں عوام کو نمائندگی ملی ہے اور نہ کبھی مل سکتی ہے۔ عوام دشمن تاثر کو زائل کرنے کیلئے حکومت جو عوامی ترقیاتی پالیسیاں اور نوجوانوں کیلئے قرضہ اسکیم جاری کررہی ہے وہ محض بہلاوا ہیں۔ اصلاحات دراصل سرمایہ داروں اور سامراجی اداروں کے منافعوں میں اضافے اور مزید لوٹ مار کی پالیسیاں ہیں جو لاگو کی جارہی ہیں۔
اللہ کی اس زمین پر اللہ کی رحمتیں بے کراں اور بے حد و حساب ہیں۔ سائنس کی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت49ارب انسانوں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں مہیا کی جاسکتی ہیں پھر وہ کیا رکاوٹ ہے جس کی بناء پر7ارب انسانوں کا پورا نہیں پڑرہاہے اور انسانوں کی اکثریت محرومی کا شکار ہے۔ دواساز کمپنیاں ہر انسان کو علاج کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کی استطاعت رکھتی ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہر سال کروڑوں لوگ قابل علاج بیماریوں میں تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر انسان کیلئے ضرورت سے زائد خوراک فراہم کرسکتی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا قحط کا شکار ہے۔ وجہ سرمایہ دارانہ سودی نظام ہے جو لامحدودقدرتی وسائل اور انسانوں کے درمیان وسیع طور پر حائل ہے۔
سرمایہ داری اور اس سے ہم آہنگ جمہوری نظام میں دنیا بھر میں غریب ذلت اور محرومی کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں جبکہ امیروں کی دولت میں بے محابا اضافہ ہورہا ہے۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ امریکہ کے ایک فیصد امیر ترین افراد اور دیگر شہریوں کے درمیان آمدنی کا فرق بلندترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ ایک فیصد لوگ پچاس فیصد دولت کے مالک ہیں جبکہ پچاس فیصد آبادی کے پاس ملکی دولت کادس فیصدسے بھی کم ہے۔ امریکیوں کی وسیع اکثریت کیلئے صحت جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی ناممکن ہوتی جارہی ہے۔ اس صدی کے پہلے عشرے میں سات فیصد شرح نمو بھی بھارت میں غربت سے تباہ حال کروڑوں شہریوں کا معیار زندگی تبدیل نہیں کرسکا۔ 2014ء کے انتخابات کیلئے مغربی طاقتوں اور ٹاٹا سے امبانی گروپ تک بھارتی کارپوریٹ سرمایہ داروں کا انتخاب نریندر مودی ہے۔ نریندر مودی بدترین مزدور دشمن ہے جو ہڑتالوں کو جبر اور بربریت سے کچلنے کی شہرت رکھتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مودی کی ریاست میں ترقی کی رفتار بعض اوقات قومی اوسط سے بڑھ جاتی ہے لیکن اس ترقی کے ثمرات سے غریب محروم ہے۔ گجرات بھارت کی ان پانچ ریاستوں میں شامل ہے جہاں بھوک سب سے زیادہ ہے اور عالمی سطح پر اس کی حالت ہیٹی جیسی ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں جمہوریت اپنی بہترین حالت میں موجود ہے انتخابات معینہ مدت میں ہوتے ہیں الیکشن کمیشن مضبوط ہے اور الیکشن فیئر اینڈ فری ہوتے ہیں۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام جمہوریت جسے نافذ کرنے کا آلہ ہے دولت کی تقسیم پر نہیں دولت کی پیداوار پر یقین رکھتی ہے۔ اسلئے اپنی اعلی ترین صورت میں بھی یہ نظام غریبوں سے سوتیلی ماں سے بدتر سلوک کرتا ہے۔ پھر پاکستان میں یہ نظام کیسے مشفق باپ کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
نوازحکومت اس نظام پر یقین بھی رکھتی ہے اور اس نظام میں ملک کی فلاح بھی ڈھونڈرہی ہے۔ عوام کو دی جانے والی سبسڈی یا رعایتی نرخوں کا خاتمہ اس نظام کی ترجیح اول ہے لہذا بجلی تیل اور دیگر ضروریات سے حکومتی سبسڈی کا خاتمہ کیا جارہا ہے جبکہ غریبوں کی آمدنی میں اضافے کیلئے کوئی اسکیم بروئے کار نہیں۔ افراط زر اور مہنگائی عام آدمی کی جمع پونجی کو نگل رہی ہے۔ اسٹیل مل، پی آئی اے اور ریلوے سمیت 65 ریاستی اداروں کو کوڑیوں کے مول بیچنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ سرمایہ داری اور جمہوریت کے وہ ثمرات جنہوں نے ساری انسانیت کو عظیم سانحات اور عظیم تر پریشانیوں میں مبتلا کردیا ہے ہم ان کا تجربہ کرنے جارہے ہیں۔ اس نظام نے اسانیت کے مقدر میں اندھیرے لکھ دئے ہیں۔ وہ چراغ جن کے جلنے سے راہ میں روشنی ہوگی صرف اور صرف اسلام کا نظام خلافت ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت اسی نظام کی طلبگار ہے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment