Wednesday, July 8, 2015

Naked Empire


ہمارا سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ ہم نے دو قومی نظریہ زندہ رکھا ہوا ہے۔ ا س ملک میں دو قومیں بستی ہیں۔ حکمران اشرافیہ اور غربت کی چکی میں پستے ہوئے عوام۔ میگنا کارٹامیں برطانیہ کے امراء نے بادشاہ سے یہ بات منوائی تھی کہ وہ اپنے اقتدار میں طبقہ امراء کو بھی شامل کرے گا۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں بھی خواہ وہ جمہوریت ہو یا آمریت کم نگاہ، بے بصر اور اخلاقی دیوالیے کا شکار طبقہ امراء کی شرکت لازم ہے۔
 جمہوریت کے باب میں ہماری وارفتگی کا حال یہ ہے کہ۔۔۔ تم تھی ہی نہیں ۔۔۔ ہم تھے ہی نہیں۔۔۔ تم ہو ہی نہیں۔۔۔ ہم ہیں ہی نہیں۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت دراصل حکمران طبقے کے لوٹ مار کرنے، قومی دولت سمیٹنے، باہر بھیجنے، بیرون ملک کاروبار کرنے اور جائیدادیں بنانے کا نام ہے۔ عوام کا کام یہ ہے کہ اس ملک کے حاکموں کے لیے برباد ہوتی رہے، بے کل ہوتی رہے۔
اس نے پھولوں پہ مرے نام کا آرام کیا
میں نے کانٹوں پہ کہیں رات گزاری اس کی
لاہور میں وزیراعظم نوازشریف اور خادم اعلی کی سکیورٹی پر براہ راست اور بلاواسطہ دس ہزار سے زیادہ سرکاری ملازم ڈیوٹی دیتے ہیں جنہیں قومی خزانے سے تنخواہ دی جاتی ہے۔ ان کے ٹی اے، ڈی اے، بجلی کے بل، ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے اخراجات، ٹی بریک، برنچ، کھابے، عرب بادشاہوں کے محلوں سے بھی زیادہ قیمتی کرسیاں، صوفے، باتھ رومز میں لگے غیر ملکی سامان، سونے کے شاور، خوشبوئیں، شیمپو، اسکرب اور دوسرے سامان تعیشات پر نظر ڈالیے اور دوسری طرف یہ حقیقت ملاحظہ فرمائیے کہ اس ملک کی نصف آبادی کو خوراک کا تحفظ حاصل نہیں۔ انہیں اس بات کا پتہ نہیں ہوتا کہ آج کھانا کھایا ہے تو کل کچھ کھانے کو موجود ہوگا یا نہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں کے بیس فیصد غریب ترین لوگوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کا اپنی زندگی میں خوشحالی دیکھنے کا چانس محض 1.9 فیصد ہے،یعنی کوئی چانس نہیں۔ یہ دو طبقات دراصل دو ایسی قومیں ہیں جن کا ایک دوسرے کے مرنے جینے، خوشی غم سے کوئی تعلق نہیں۔ تعلق ہے تو بس اتنا کہ حکمرانوں کی دولت میں بے بہا اضافہ عوام کی غربت اور ذلت کے جاری رہے بغیر ممکن نہیں۔
اہل کراچی پر پچھلے دنوں کیسی قیامت گزری۔ گھروں اور اسپتالوں میں ملاکر تین ساڑھے تین ہزار افراد گرمی، لو اور حبس کی نظر ہوگئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اتنی بڑی قیامت گزرجانے پر لوگوں کو کچھ سہولت دی جاتی لیکن ان شریف حکمرانوں اور عوام کی ہمدرد قیادت کے پاس عوام کو دینے کے لیے معاشی اور سماجی بربادی کے اقتصادی پروگراموں کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر بجلی کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے نیپرا نے کراچی کے گھریلو صارفین کے بجلی کے نرخوں میں دو روپے سے لیکر ساڑھے چار روپے فی یونٹ تک اضافہ کردیا۔ اس کا سبب یہ ہے حکومت نے اہل کراچی کو دی گئی سبسڈی یا زرتلافی واپس لے لی ہے۔ وزارت پانی و بجلی کا کہنا ہے کراچی کے بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ کراچی کے بجلی کے نرخوں کو پورے ملک کے برابر کردیا گیا ہے۔
31 قبل مسیح میں Octavian نے ااینتھونی کو شکست دے کر رومن امپائر پر قبضہ کیا۔ اس کے پینتالیس سالہ دور اقتدار میں روم ایک ایسی سلطنت بن گیا جسے مورخین Naked Empire یعنی برہنہ سلطنت کا نام دیا۔ اس دوران ریاستی ادارے جو عوام کی خوشحالی کے لیے قائم کیے گئے تھے عوام کے دشمن بن گئے۔ اس ملک میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ نیپرا ا س کی مثال ہے۔ 1997ء میں نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ بجلی کے عام صارفین کے مفادات کا تحفظ کیا جائے لیکن نیپرا عام صارفین کے بجائے نجی اداروں  کے مفادات کا محافظ بن گیا۔ نوبل انعام یافتہ اقتصادی ماہر جارج سٹنگلر ا س ظلم کو ’’ادارہ جاتی حاکمیت - Regulatory Capture‘‘ قراردیتے ہیں۔ جس میں ادارے اپنے قیام کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں رہتے بلکہ طاقتور افراد اور مراعات یافتہ طبقے کے محافظ بن جاتے ہیں۔ نیپرا کے اولین فرائض میں یہ شامل تھا کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت کا تعین کچھ اس طرح کیا جائے گا کہ پیداواری نجی کمپنیوں کا منافع 18فیصد سے تجاوز نہ کرے۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج میں گزشتہ سال 24 کمپنیاں رجسٹرڈ تھیں۔ ان کمپنیوں کا حاصل ہونے والا منافع 42 فیصد سے زیادہ ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق 50 فیصد۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ نیپرا نے ایک مرتبہ بھی بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کا آڈٹ نہیں کیا۔ نیپرا کی اس بدعنوانی، ظلم اور نجی کمپنیوں کو نوازنے کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ادائیگیوں کے باجود گردش قرضے کا انبار ہر مرتبہ بڑھ جاتا ہے اور دوسری طرف عام صارفین کی جیبوں پر اس طرح ڈاکہ ڈالا جارہا ہے کہ بجلی کے بل دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ بجائے اس کے کہ نیپرا بجلی کی کمپنیوں کے منافع کو 18 فیصد کی سطح پر لاتا اہل کراچی کے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا۔ یہ ظلم اور نا انصافی کی انتہا ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ عام صارفین کے مفادات کا تحفظ کرے لیکن حکومت بیس کروڑ عوام کے مفادات کے بجائے بجلی کمپنیوں کی محافظ بن گئی ہے۔
جہاں تک حکومت کے سبسڈی یا اہل کراچی کو دی گئی سہولت واپس لینے کا تعلق ہے تو نوازشریف حکومت پر ہی موقوف نہیں ہے۔ پاکستان میں فوجی آمریت ہو یا جمہوری، ضیاء الحق ہو یا پرویزمشرف، زرداری ہو یا نوازشریف یا پھر مستقبل میں عمران خان سب ایک ہی نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ سودی نظام کے تحت۔ اس نظام کے علمبردار عالمی ادارے ورلڈ بنک، آئی ایم ایف ضرورت مند ممالک کو بھاری شرح سود پر قرض دیتے ہیں جب وہ ممالک عدم ادائیگی کی بناء پر قرضوں کی دلدل میں دھنسنے لگتے ہیں تو انہیں نجکاری یا پرائیویٹائزیشن پرمجبور کیا جاتا ہے، قومی ادارے ملکی یا غیر ملکی سرمایہ داروں کو اونے پونے فروخت کیے جاتے ہیں۔ حکومتی وسائل اورآمدنی محدود ہونے لگتی ہے۔ پھر قرضوں کی ادائیگی کے لیے حکومت پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ عوام کو دی گئی سہولتیں واپس لے کر اس رقم سے ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کے قرض ادا کریں۔ بے محابہ سود کی بناء پر قرضوں کی ادائیگی کے باوجود قرض پھر بھی نہیں اترتے۔ یوں دنیا بھر میں یہ نظام عوام سے سہولیات چھین رہا ہے۔ ایسا صرف پاکستان جیسے غریب اور کمزور ممالک میں نہیں بلکہ پورے یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام عام لوگوں سے سہولتیں چھین رہا ہے۔ یونان جس کی ایک مثال ہے۔ یونان کو پہلے عالمی سودی اداروں نے اس حد تک مقروض کردیا کہ یونان کا ریاستی قرضہ GDP کے 177 فیصد سے تجاوز کرچکا ہے۔ یعنی  اگر اہل یونان 177سال سے زائد عرصے تک نہ کچھ کھائیں، نہ خرچ کریں اور اپنی پوری سالانہ آمدنی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی سرمایہ دار اداروں کے سپرد کردیں تب بھی ان کا قرض ادا نہ ہوسکے گا۔ تنخواہوں، پینشن علاج اور دیگر شعبوں میں بقدر سانس لینے کے لیے مزید قرضوں کے لیے ان عالمی اداروں کی طرف سے آسٹیریٹی کی شرط لگادی گئی۔ آسٹیریٹی کا مطلب عوامی سہولیات پر ہونے والے ریاستی اخراجات میں کٹوتی ہے۔ اس کا مقصد لوگوں سے سہولتیں واپس لے کر ریاستی قرضوں کی ادائیگی کے لیے پیسہ جمع کرنا ہے۔ اہل یونان نے حالیہ ریفرنڈم میں اس خیال کو مسترد کردیا ہے۔اٹلی، پرتگال، اسپین، برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں کم و بیش یہی صورتحال ہے۔
اس نظام کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں سرمایہ داروں کی دولت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ غریب بد سے بدتر صورتحال سے دوچار ہیں۔ دنیا بھر میں امیر اور غریب کی خلیج تیزی سے وسیع ہورہی ہے۔ میکسیکو کے کارلوس سلم ہوں یا بل گیٹس، ان دو خاندانوں کا یہ حال ہے کہ اگر وہ روزانہ دس لاکھ ڈالر خرچ کریں پھر بھی 218 برس میں بھی ان کی دولت ختم نہیں ہوگی۔ ہمارے حکمران انہی عالمی سودخور اداروں کے ایجنٹ ہیں اور انہی اداروں کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں خواہ وہ آئی ایم ایف ہو، ورلڈ بنک یا کوئی اور سرمایہ دارانہ ادارہ۔ حقیقت یہ ہے کہ کمیونزم ہو یا سرمایہ دارانہ نظام دونوں انسانیت کا مداوا کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ نظام دنیا بھر میں دم توڑ رہا ہے انسانیت کے دکھوں کا مداوا صرف اسلام کے پاس ہے۔ دنیاکو بالآخر اسلام کی طرف رجوع کرنا ہی پڑے گا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment