
وزیراعظم نوازشریف کے باب میں نپولین کے قول کو قدر ے تصرف کے ساتھ اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ: ’’دیگر صفات کے علاوہ حکمرانوں کو خوش نصیب بھی ہونا چاہئے‘‘۔ اسلام آباد میں دھرنوں کے ڈرامے کے آغاز میں نوازشریف حکومت کس قدر سراسیمگی اور بد حواسی کا شکار تھی لیکن یہ قسمت کی دیوی کی کرم نوازی ہے کہ وہ آج بھی ان کا پہلو گرما رہی ہے۔ دھرنے ٹرپل ون بریگیڈ کا ہراول دستہ بنے اور نہ جمہوریت کی دیوی کی عزت پامال کرسکے اور اب جوڈیشل کمیشن نے بھی ان کی حکومت کو جائز قرار دے دیا ہے اور فیصلہ دیا ہے کہ مئی 2013ء کے انتخابات میں بدنظمی اور بد انتظامی تو ہوئی ہے لیکن منظم دھانددلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ عدالتی کمیشن نے عمران خان کے تمام الزامات مسترد کردیے۔
وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب میں عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو عوامی مینڈیٹ کی توثیق قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف سے پوچھا جاسکتا ہے: ’’کون سے نئے دور میں؟‘‘ کیا اس فیصلے کے بعد حکمران طبقے کا لوٹ مار کرنے قومی دولت سمیٹنے بیرون ملک کاروبار کرنے اور جائیدادیں بنانے کا طرز حکومت تبدیل ہوجائے گا۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 129 ممالک میں سے پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جہاں بھوک حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے اور تقریباً پانچ کروڑ افراد کو دو وقت روٹی میسر نہیں کیا اس فیصلے کے بعد ان افراد کو روٹی ملنا شروع ہوجائے گی۔ کون ہے جو ان سوالوں کا جواب اثبات میں دے سکتا ہے؟ یہ المیہ صرف نواز حکومت تک محدود نہیں ہے گزشتہ ادوار حکومت میں بھی صورتحال یہی تھی اور اگر یہ نظام رہا تو آئندہ بھی یہی ہوگی۔ المیہ در المیہ یہ ہے کہ پاکستان تک محدود نہیں عالمی سطح پر بھی جمہوری طرز حکومت اچھی حکمرانی دینے میں ناکام رہا ہے۔ جس کے بعد دنیا بھر میں یہ بحث شدت اختیار کرتی جارہی ہے کہ اس پیچیدہ اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں حکمرانی کے چیلنج پر کیسے پورا اترا جائے۔ اچھی حکمرانی یا گڈگورننس عمومی بات نہیں ہے بلکہ مربوط عوامل کا نتیجہ ہے۔ جس کے لیے ایک درست حکمت عملی اور نئے نظام کی ضرورت ہے۔ سوشل ازم، سرمایہ داریت اور اس سے وابستہ جمہوریت انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس نظام کے تحت فلاحی ریاست کا تصور دم توڑ رہاہے۔ دنیا بھر میں ریاستیں اپنے عوام سے سہولتیں واپس لے رہی ہیں۔ دعوے کچھ بھی کیے جائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں اکثر ممالک میں فلاحی ریاست اور جمہوری آزادیاں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسا عمل سمجھی جارہی ہیں۔ حکومتیں بتدریج جمہوریت کے اصولوں سے انحراف میں ہی ریاست کی بقاء محسوس کررہی ہیں۔ انسان کی آئندہ سرنوشت میں جمہوری انداز حکومت اور نظام انسانیت پر ایک تباہ کن ضرب لگانے کے سوا کوئی اور کردار ادا کرتانہیں آتا۔
کئی صدیوں سے مغرب سیاسی نظام کا سرچشمہ ہے۔ سولہویں صدی کو ہم مغرب اور ایک لحاظ سے تاریخ انسانی کے نئے دور کا آغاز سمجھیں تو آج چار صدیاں گزرنے کے بعد اس نظام کی خستگی اور داخلی کمزوری کے آثار واضح ہیں۔ سیاسی نظام قابل حکومتیں فراہم نہیں کررہا۔ نااہل حکمران بجٹ خسارہ اور نفس پرستی قانون سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہر جگہ جمہوریت غیر حقیقت پسندانہ عوامی توقعات میں اضافہ کررہی ہے۔ جس سے پیدا شدہ متناقص مطالبات ریاست اور حکومت کو افراتفری کا شکار کررہے ہیں۔ حکومتیں دیرپا منصوبہ بندی کے بغیر بے قاعدگی اور محض الیکشن میں کامیابی کی بنیاد پر چلائی جارہی ہیں۔ بیشتر جمہوری ممالک میں سیاسی رہنما عوامی مطالبات کو نظام پر گنجائش سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جائز ناجائز طریقے سے اپنے مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کو حکومت سے ناراض کرتے چلے جاتے ہیں جس سے حکومتیں جمود اور تعطل کا شکار ہوجاتی ہیں جیسا کہ اسلام آباد میں دھرنے کے دنوں میں نظر آیا۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد تمام حلقوں کی جانب سے انتخابی اصلاحات کی ضروت پر زور دیا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے تاکہ آئندہ صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جاسکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے بعد غربت کے اندھیرے ختم ہوجائیں گے؟ پاکستان کے عوام کی اکثریت کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ جواب ہے نہیں۔ جس کی مثال بھارت ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے گزشتہ 67 برس سے وہاں ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ صاف اور شفاف انتخابات ہورہے ہیں۔ لیکن نتیجہ! بھارت دنیا کی سب سے بڑی غربت ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جمہوریت کا فیضان ہے کہ بھارت کے زرمبادلہ کے زخائر ساڑھے تین سو ارب ڈالر کو چھورہے ہیں۔ پہلی مرتبہ بھارت کی شرح نمو چین کومات کررہی ہے۔ لیکن یہ شرمناک حقیقت ہے کہ یہ ترقی بھارت کے لوگوں کی عظیم اکثریت کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں کرسکی۔ بھارت کی آبادی ایک بڑا حصہ اس ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہوسکاہے۔ دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر لیٹرین بھارت کے ریلوے ٹریک ہیں۔ ہندوستان کے تقریباً چالیس کروڑ شہریوں کو ٹائلٹ کی سہولت دستیاب نہیں۔ ایک تہائی کو حاجات ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے تخلیہ میسر نہیں۔ وہ کھلے عام رفع حاجت پر مجبور ہیں۔ ایک ارب بیس کروڑ کی ہندستا ن کی آبادی میں تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ غربت کی سطح سے بھی نیچے غرق ہیں۔ ہرسال دنیا میں آٹھ لاکھ لوگ خودکشیاں کرتے ہیں جن میں سے 17 فیصد یعنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد غربت اور قرضوں کی دلدل سے نکلنے میں ناکامی پر بھارت میں خودکشیاں کرتے ہیں۔ عصمت فروشی وہاں وبائی صورت اختیار کرچکی ہے۔
دنیا بھر کے جمہوری تجربوں نے ثابت کردیا ہے کہ اس نظام میں عوام کے مسائل کا حل کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کرپشن اور قومی دولت لوٹتے حکمرانوں کا حقیقی احتساب ممکن نہیں۔ پاکستان کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ حکمران جب چاہتے ہیں قومی خزانہ لوٹنے کے بعد قانون میں ترامیم کرکے اپنے آپ کو قانونی تحفظ دے دیتے ہیں۔ NROجس کی ایک مثال ہے۔ جمہوریت میں قانون سازی کا اختیار چونکہ انسانوں کے ہاتھ میں ہے اس لیے وہ اکثریت کی بنیاد جو قانون چاہیں منظور کرسکتے ہیں۔ جمہوری نطام میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کے خوف کی وجہ سے حکمرانوں کی توجہ عوام کے مسائل کے حل کے بجائے اراکین اسمبلی کی اکثریت کو خوش رکھنے پر مرکوز رہتی ہے۔ یہ جمہوریت ہی ہے جس میں بڑے صوبے کے عوام اور ان کے مسائل اہم جبکہ چھوٹے صوبے کے لوگ بے وقعت ہیں۔ جمہوریت کے بنیادی اصول کرپشن کو کس طرح فروغ دیتے ہیں پاکستان اس کا ایک مظہر ہے۔
دوسال قبل برٹش کونسل کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت پاکستان میں شریعت کا نفاذ چاہتی ہے حکومتی سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کا شکار پاکستانی عوام کے ساتھ پچھلے آٹھ برسوں میں جمہویت نے جو کچھ کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مسلمان یہ سمجھتے ہیں ان کی ضرورتوں کو کوئی اور نظام اور تہذیب پوری نہیں کرسکتی سوائے اسلام کے۔ جہاں تک عدالتی کمیشن کے فیصلے کا تعلق ہے تو یہ فیصلہ مسلم لیگ ن کی سرخوشی کا باعث ہے یا عمران خان کی ساکھ کے زیاں کا جو نوازشریف کے سرمایہ دارانہ نظام کو عمران خان کے سرمایہ دارانہ نظام سے تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ عوام کے خوشی و غم اور روز و شب کا اس فیصلے سے کوئی نہیں۔ ان کے لیے سب کچھ ویسا ہی ہے۔۔۔
وہی بپھرا ہوا بکھرا ہوا دن
وہی سہمی ہوئی سمٹی ہوئی رات
وطن بدلا مگر بدلے نہ حالات
وہی دنیا وہی اس کے سوالات
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
babaalif@hotmail.com
0 comments:
Post a Comment