Friday, January 9, 2015

نئی لیلی کی دشت قیس میں آمد

ریحام سے عمران کی دوسری شادی کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ اب وہ صرف دن میں سوچا کریں گے۔ مریم نواز ان کے دھرنے کو دھرنی پکارا کرتی تھیں۔ اب عمران کی زندگی میں دھرنے سے زیادہ دھرنی اہم ہوگی۔ عمران خان بظاہر شرمیلے واقع ہوئے ہیں۔ لگتا ہی نہیں کہ ہجر و وصال کی لذتوں اور کوچۂ عشق کی رہ گزر سے ان کا واسطہ رہا ہوگا لیکن دنیائے عشق میں وہ جہاں بھی گئے ان کے افسانۂ محبت دھوم مچاتے چلے گئے۔ وہ جس پر مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں۔ یہ مغل بچے اسد اللہ خان غالب کا معاملہ تھا۔ عمران سے وابسطہ کسی شخصیت کی طرف اشارہ مطلوب نہیں۔ عمران کی سابقہ بیگم جمائمہ باوجود طویل لاتعلقی اور طلاق کے آج بھی ان کی قتیل ہیں۔ عمران کی دوسری شادی پر جب وہ اپنے نام سے ’’خان‘‘ کے خاتمے اور اسمتھ کی طرف رجوع کرنے کا اعلان کررہی تھیں حسرت و یاس کی تصویر دکھ رہی تھیں۔
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہہ کو خواب و خیال کردیا
شوکت تھانوی کے اس شعر پر ان کے والد کی نظر پڑی تو غصے سے آگ ہوگئے۔۔۔ ہمیشہ غیر کی عزت تیری محفل میں ہوتی ہے۔۔۔ تیرے کوچے میں جا کر ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔۔۔ وہ شوکت تھانوی کی والدہ سے غصے میں بولے: ’’یہ آوارہ گرد اس کوچے میں جاتا ہی کیوں ہے جہاں اسے ذلیل و خوار ہونا پڑے‘‘۔ کپتان بھی یہ احتیاط ملحوظ رکھتے ہیں۔ دل لگانے سے پہلے وہ ناز و انداز کے ساتھ محبوب کی ذات خاندان اور اوقات ضرور دیکھ لیتے ہیں ’’بھک نہ دیکھے سالن تے عشق نہ تکے ذات‘‘ ایسے رویے کا ان کے ہاں گزر نہیں۔ تاہم وہ جیسے ہی سالن کے اجزاء کے قیمتی ہونے اور عشق کی ذات کے کوچہ زر میں معتبر ہونے کا یقین کرلیتے ہیں چاہ کو نباہ میں بدل دیتے ہیں۔ ریحام تو ویسے بھی حسن کے معاملے میں قیامت ہیں۔ احمد فراز بھی خلد سے ریحام کو دیکھتے ہونگے تو اپنے یہ اشعار ضرور گنگناتے ہونگے:
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سوہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا  ہے حشر ہیں اسکی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
ساحر لدھیانوی نے کبھی شادی نہیں کی ان کا کہناتھا کہ کچھ لڑکیاں ان تک دیر سے پہنچیں اور کچھ لڑکیوں تک وہ دیر سے پہنچے۔ عمران اس معاملے میں قابل رشک ہیں۔ لڑکیاں ہمیشہ ان کی فین رہیں۔ انہوں نے جمائمہ سے شادی کی تب بھی ذرائع ابلاغ ایسے ہی وحشت میں مبتلا تھے۔ سیاست میں فعال ہونے کے بعد جمائمہ کو مناسب وقت نہ دے سکے تو قربتیں فاصلوں میں بدل گئیں۔ میاں بیوی کے درمیان اختلافات برقرار رہیں تو معاملات جلد بیزاری کی اس سطح تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ایک دوسرے کو گوارا کرنا ناقابل برداشت ہوجاتا ہے ۔ ایک ماہر ازدواجیات نے پوچھا: ’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیوی چالاک ہوجائے‘‘۔ ہزاروں کے مجمع میں ایک صاحب کھڑے ہوگئے ماہر نے پوچھا: ’’آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیوی چالاک ہوجائے‘‘۔  وہ صاحب مایوسی سے بیٹھتے ہوئے بولے ’’میں سمجھا آپ کہہ رہے ہیں بیوی ہلاک ہوجائے‘‘۔ عمران نے معاملات کو اس حد تک پہنچنے سے پہلے ہی ایک شریف الطبع اور اعلی انسان کی طرح خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچا دیا۔ اس طرح کہ طلاق کے بعد بھی جمائمہ ان کی گرویدہ رہیں اور چاہت کا اظہار کرتی رہیں۔ ایک روشنی بجھنے کے بعد کپتان نے تقریباً ایک عشرے کے بعد دوسری شمع روشن کی۔ شادی کے انکشاف کے ساتھ ہی ریحام کی غیر مناسب لباس میں جو ڈانسنگ وڈیو سامنے آئیں۔ ان کے باوجود ریحام سے شادی عمران کی اسلامی تہذیب اور اقدار سے وابستگی کے منافی ہیں۔ اسی بناء پر کہا جارہا ہے کہ سادگی سے شادی کی تقریب کا انعقاد بھی ان کی اسلامی ثقافت سے دلچسپی کے بجائے کنجوسی اور بچت کی عادت کی بناء پر ہے۔ اسلامی طریقے سے شادی کی جائے تو جتنے میں ایک اچھا موبائل فون آتا ہے اس سے کم خرچ میں بیوی مل جاتی ہے۔
عمران کے دو بچے ہیں اور ریحام کے تین۔ اب ان کا گھر ایک چھوٹی سی قوم بن گیا ہے۔ اس چھوٹی سی قوم کو چلا کر وہ بڑے گھر یعنی ملک کو چلانے کی تربیت حاصل کرسکتے ہیں۔ دوران تربیت انہیں احساس ہوگا کہ ملک ہو یا شادی ٹریفک کی طرح ہوتے ہیں چلتے رہیں تو اچھے لگتے ہیں ان میں دھرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ بڑھاپے کی شادی ویسے بھی ملک چلانے کی بہترین تربیت گاہ ہے جس میں رات کو سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی اور ہاتھ بیگم پر رکھ کر سونا پڑتا ہے۔
دوسری شادی پہلی شادی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔ بس سرورق تبدیل ہوجاتا ہے۔ لیکن تشویش کا پہلو یہ ہے کہ دوسری شادی کے وقت کپتان کو سٹھیائے ہوئے دوسال گزر چکے ہیں۔ ان کی عمر باسٹھ برس ہے۔ معترضین لاکھ کہتے رہیں کہ اس عمر میں انسان کو شادی کے بجائے حج عمرے کا سوچنا چاہئے۔ ہمیں کپتان کی اس عمر میں شادی پر کوئی اعتراض نہیں حالانکہ گجراتی میں کہتے ہیں: ’’جوانی کی بیماری، ضعیفی کی مفلسی، جاڑے کی چاندنی اور بڑھاپے کی شادی پر حقہ کا پانی (یعنی لعنت)‘‘۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment