
پریشان کن حالات میں وہ لوگوں کو احتجاج کرنے یا حکومت اور فورسز سے محاذ آرائی کر نے اور تحریکیں شروع کرنے کا درس نہیں دیتے بلکہ اللہ رب العزت سے تعلق جوڑنے،اپنی باطنی صلاحیتوں کو اجا گر کرنے اورزہد اور مجاہدے سے گزارتے ہیں۔دینی مدارس سے وابستہ کرکے وہ نئی نسل کو اسلامی علوم کی تحصیل پر آمادہ کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت جس کے مراکز سے مولانا طارق جمیل جڑے ہیں،مختلف مدت کے پرو گراموں،مساجد میں دن رات سکونت اور گھر گھر ،گلی گلی ،محلے محلے گشت سے ایسی جماعتیں پیدا کرتی ہے جو ہر قسم کی دنیوی یا مادی منفعت سے بالاتر ہوکر ساری دنیا میں دین کی تبلیغ کا کام کرتی ہیں۔مزدور ہوں یادفتری ملازمین،تاجر ہوں یا صنعت کار،سیاسی جماعتیں ہوں یا کھیلوں سے وابستہ افراد،فلموں کے اداکار ہوں یا ٹی وی چینلز سے وابستہ لوگ مولانا طارق جمیل سب کے گرد احاطہ کیے ہوئے ہیں۔بھارتی اداکار عامرخاں ہوں یا وینا ملک وہ سب سے محبوبیت کا رشتہ رکھتے ہیں۔انھیں گناہ گار سے نہیں گناہ سے نفرت ہے۔
مغرب نے مسلمانوں کے خلاف اتنے محاذ ، خندقیں اور اجتماعی قبریں نہیں کھودی ہونگی جتنی مسلم سر زمین پر فرقہ واریت کے فتنے نے لعنت اور مصائب کے گڑھے کھودے ہیں۔مولانااطاعت کی بات کرتے ہیں عبادت پر زور دیتے ہیں،فکر مند اور غمزدہ دل کے ساتھ معاشرتی برائیوں کا مرثیہ پڑھتے ہیں،جنت کی منظرکشی اس خوبی سے کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سماعت میں گونجنے لگتے ہیں: اللھم لا عیش الاعیش الآخرۃ اے اللہ زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے
تاریخ پر گہری نظر اور ولولے سے لبریز حکایات بیان کرتے ہیں،اپنی حیرت انگیز یادداشت کے کرشمے دکھاتے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا تذکرہ ایسے لگاؤ،عقیدت اور والہانہ پن سے کرتے ہیں کہ زندگی سراپا فراق اور سراپا الم ہوکر بے چین اور اشک بار ہوجاتی ہے لیکن جس موضوع کا وہ اشارے کنائے میں ذکر نہیں کرتے،مسلمانوں کے طویل ماضی سے جن حا لات سے وہ سر سری گزرنا بھی پسند نہیں کرتے وہ فرقہ واریت پر مبنی سوچ ،فکر اور واقعات ہیں۔
مولانا طارق جمیل دعوتی میدان کے شہسوار ہیں۔لوگ ایمانی حقائق کی معرفت کے لیے ان کے گرد ہزاروں کی تعداد میں ہالہ کر لیتے ہیں۔وہ ملکی نظام کو اکھیڑنے کی بات نہیں کرتے،سیاسی نظام کوتبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتے،ملکی قوانین کے اندر رہتے ہیں،دینی جذبات کا غلط استعمال کرکے امن وامان کے مسائل پیدا نہیں کرتے،پوری دنیا میں اسلام کا چہرہ جو کہ ایک ہی مثبت چہرہ ہے پیش کرتے ہیں۔دین کے فروغ اور اشاعت کے لیے ساری دنیا ان کا میدان عمل ہے ۔وہ ہر جگہ جاتے ہیں،ہرجگہ بصد شوق اور اہتمام بلائے جاتے ہیں لیکن ایک نئے حکم کے تحت اب وہ جس جگہ بلائے نہیں جاسکتے،جس جگہ اسلام کا درس نہیں دے سکتے وہ تقوی ایمان اور جہاد کی علمبردار پاک فوج ہے۔جس کے کسی پروگرام ،کسی حصے میں بطور مہمان لیکچر نہیں دے سکتے اور تبلیغ نہیں کر سکتے۔فوج کے جاری کردہ ایک نوٹی فیکیشن کے مطابق ان پر پابندی عائد ہے۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد24دسمبر2014کووزیر اعظم نوازشریف نے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں قوم کے سامنے نیشنل ایکشن پلان پیش کیا۔اس پلان کا بنیادی مقصد ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا تھا۔اس منصوبے کی متعدد شقوں میں سے ایک شق کا ہدف دینی مدارس،مساجد نفرت پر مبنی تقاریر اور نفرت انگیز موادشائع کرنے والے تھے جن کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا عزم کیا گیا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان کے اہداف اور بنیادی ڈھانچہ ایک امریکی ادارے بنام’’پاکستان امریکہ جوائنٹ ور کنگ گروپ آن کاؤ نٹر ٹیرر ازم اینڈ لاء انفورسمنٹ‘‘نے تشکیل دیا تھا۔اس ادارے کاپاکستان پر وسیع اور گہرا اثر ہے۔اس ادارے کو چلانے میں امریکی دفتر خارجہ،امریکی دفتر عد ل اور امریکی ایف بی آئی سب حصہ لیتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان اور دیگر اسالیب کے ذریعے امریکہ پاکستان کے مسلمانوں کی اسلام سے گہری وابستگی کا خاتمہ چاہتا ہے لہذا اس پلان کے بعد انتہائی شدت کے ساتھ جہاد کو دہشت گردی اور اسلامی افکار اور جذبات کو نفرت انگیز تقاریر،نفرت انگیز مواد،انتہا پسندی اور اسلام ازم کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی ،مولانا تقی عثمانی اور مولانا یو سف لد ھیانوی جیسے اکابرین کی متعدد کتا بوں پر پا بندی لگا دی گئی۔ اسلامی مدارس کو مالی امداد سے محروم کیا گیا۔لاؤ ڈاسپیکر ایکٹ کے تحت ہزاروں علماء کرام کو ہراساں اور گرفتار کیا گیا۔یہی نہیں بلکہ جدید تعلیمی اداروں کراچی یونیورسٹی،پنجاب یونیورسٹی،این،ای،ڈی یونیورسٹی،نسٹ اور لمس جیسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنیوالے طلبا اور پروفیسرز اور لیکچرارز کو بھی اسلام کی اشاعت،تبلیغ اور ایسے ہی دوسرے الزامات لگاکر اٹھا لیا گیا۔اس پر ہی بس نہیں کیا گیا تبلیغی جماعت کے پنجا ب یو نیورسٹی کی حدود میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
نیشنل ایکشن پلان کو دو برس ہو نے کو آرہے ہیں۔آج اس کی ناکامی کے چرچے چارسوہیں۔نہ ملک سے بد امنی کا خاتمہ ہوسکا اور نہ ہی دشت گردی کی بڑی وارداتوں کی روک تھام کی جاسکی۔اس پلان کے بعد جس قدر کوششیں اسلامی قوتوں کو کچلنے پر صرف کی گئیں اگر اس کی چوتھائی بھی دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کی جاتیں تو ملک میں بے چینی کی یہ صورتحال نہ ہوتی۔ دہشت گردی کی ہر نئی واردات کے بعدنت نئے قوانین کے ذریعے عوام کے گرد شکنجہ سخت سے سخت کیا جا رہا ہے ۔ اسلا م کے حوالے سے نو بت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اسلام کی ہر آوازکو دبایا جارہا ہے حتی کہ مولانا طارق جمیل جیسی محترم ہستی جوحکمرا نوں کا احتساب نہیں کرتے،اسٹبلشمنٹ کے فیصلوں میں دخل دینا تو کجاان پر تبصرے سے بھی گریز کرتے ہیں،حکومت،طاقت اور دولت کے مراکز کی بد عنوانیوں اور کرپشن کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش نہیں کرتے،صرف اور صرف اسلام کی بات کرتے ہیں آج اسلام کی اس شمع کی روشنی بھی بر داشت کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔اس قسم کے فیصلوں سے حکمرانوں کو کیا حا صل ہوگاسوائے یہ ثابت کرنے کے کہ چمگادڑیں روشنی برداشت نہیں کرسکتیں اور وہ بھی اسلام کی روشنی،بزبان مولانا طارق جمیل !!!! یہ تم کس آواز پر پابندی لگا رہے ہو۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment