Thursday, July 23, 2015

جس کا نہ ہو کوئی ہدف


الطاف حسین اب ایک بیزار کردینے والا تماشہ ہے جسے دیکھتے دیکھتے آنکھیں تھک گئی ہیں۔ ان کی سیاست تشدد کے پاگل پن میں مبتلا ہوکر بالآخر اس بے معنویت کے رحم وکرم پر ہے جس سے بھوک ہڑتال جیسے ڈرامے جنم لیتے ہیں۔ جنہیں یہ شک ہے کہ ’’اس نے بنایا ہی نہیں روزِ مکافات‘‘ وہ الطاف حسین کو دیکھ لیں۔ دنیا میں ہی حسابِ جزا اور سزا پر یقین آجائے گا۔
اب کوئی اس میں کیا دلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کری
الطاف حسین خود اپنے ہاتھوں رسوا ہیں۔ جذبات و احساسات، عقل اور اثر پذیری، ان تینوں محرکات کے تحت ان کے زیادہ تر افعال تشدد کے تابع رہے ہیں۔ جن لوگوں میں خود کوئی صلاحیت یا قابلیت نہیں ہوتی۔ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے وہ ایسی بات کرتے ہیں جو ثابت شدہ حقائق اور مسلمہ روش کے منافی ہو۔ دنیا کی سب سے بڑی صداقت محبت ہے۔ ہر اصلاح کرنے والے ریفارمر اور لیڈر نے لوگوں کو محبت کا درس دیا ہے۔ لیکن الطاف حسین نے اپنی ابتدائی تقاریر ہی نفرت کی بنیاد پر استوار کیں۔ ان کی وہ مشہور تقاریر جن میں انہوں نے اپنی برادری کو ٹیلی ویژن سیٹ بیچنے اور اسلحہ خریدنے کا مشورہ دیا محض توجہ حاصل کرنے کے لیے نہیں تھیں جیسا کہ سمجھا گیا بلکہ وہ ان کے طرز فکر اور خیالات کی ترجمان تھیں۔ جنہوں نے مختلف قومیتوں سے نفرت اور لسانی اور قومی عصبیت کا وہ شیطانی چکر سندھ کے شہروں خصوصاً کراچی پر مسلط کیا کہ شہر نفرت اور دہشت گردی کی آگ میں جل اٹھا۔ مزید ستم یہ رہا کہ ان کی ذات میں مذہب کی غیر موجودگی کا عنصر بھی بہت قوی ہے۔ یوں وہ حق و باطل اور خیر وشر میں تفریق کے قابل نہ رہے اور اپنی جبلتوں کے اسیر ہوتے چلے گئے۔ وہ جبلت جس کا خمیر نفرت اور تشدد ہے۔ ان کی جماعت تشدد، ظلم، دہشت گردی، قتل اور خونریزی کی مرتکب ہوکر ہر ضابطہ اور قانون سے محروم ہوتی چلی گئی اور بالآخر خدا کی گرفت میں آگئی۔ جس سے بچنے کے لیے وہ بھوک ہڑتال جیسے حربے آزما رہے ہیں۔
کون تصور کرسکتا تھا کہ عمران فاروق قتل کیس یوں انہیں شکار کرے گا۔ لندن پولیس کبھی الطاف حسین کی سرگرمیوں پر توجہ نہ دیتی اگر عمران فاروق کا قتل نہ ہوا ہوتا۔ الطاف حسین کے گھر پرچھاپہ، بھاری رقم کی برآمدگی، منی لانڈرنگ، قتل میں ملوث دو افراد کی کولمبو سے کراچی آمد اور پھر خفیہ اطلاع پر کراچی میں گرفتاری۔ واقعات کا وہ سلسلہ ہے جو عمران فاروق کے قتل کے بعد رونما ہوا۔ سب کچھ سراسر غیر متوقع۔ یقین آجاتاہے ’’کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلارہاہے‘‘۔ واقعات کا یہ سلسلہ صرف لندن تک محدود نہ رہا۔ کراچی میں بھی ان کی جماعت اس کی زد میں آگئی۔ وہ نائن زیرو جہاں روشنی کی کرن بھی بلااجازت داخل نہ ہوسکتی تھی، جہاں ہر دیوار ہر کمرے کے پیچھے بلاؤں کے ڈیرے، طفیلیوں اور سانپوں کے مسکن تھے، بھیڑیوں کی قطاروں کے سوا کوئی زندہ گواہی نہ تھی۔ وہ بھی اُس آپریشن کا ہدف بن گیا اور پے درپے چھاپوں کی زد پر آگیا جس کی تائید اور حمایت خود الطاف حسین نے کی تھی۔ وہ رابطہ کمیٹی جس کے ارکان پر جوتے پڑنے کی آواز الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر ٹیلیفون پر سماعت کرتے تھے اور اس کے باوجود وہ رابطہ کمیٹی الطاف حسین سے بدظن نہ ہوتی تھی اور ان کے سامنے ہاتھ باندھے گھگیاتی رہتی تھی، کس کے حاشیہ خیال میں تھا کہ الطاف حسین سے اس درجہ بیزار ہوجائے گی جیسا کہ وہ بیوی جس سے اس کے شوہر نے پوچھا کہ ’’تم مجھ سے کتنی محبت کرتی ہو؟‘‘ بیوی بولی ’’بہت‘‘ شوہر نے کہا ’’پھر بھی کتنی؟‘‘ بیوی بولی ’’اگر آپ پلنگ پر لیٹے ہوں تو میں کرسی پر بیٹھی ہوں اور اگر آپ کرسی پر بیٹھے ہوں تو میں زمین پر بیٹھوں گی‘‘ شوہر نے کہا ’’اگر میں زمین پر بیٹھ جاؤں؟‘‘ بیوی بولی ’’تو میں زمین کھود کر اس میں بیٹھ جاؤں گی‘‘ شوہر نے پوچھا ’’ اگر میں زمین کھود کر بیٹھ جاؤں تو ؟‘‘ یہاں تک پہنچتے پہنچتے اطاعت شعار بیوی بیزار ہوگئی، بولی ’’میں اوپر سے مٹی ڈال دوں گی‘‘۔ رابطہ کمیٹی بھی الطاف حسین کی حرکتوں سے ایک عرصے سے اندر اور باہر کچھ ایسے ہی بیزاری کی کیفیت میں تھی کہ الطاف حسین کے مرن برت کے اعلان پر وہ سرگرمی نہ دکھا سکی جس کی الطاف حسین توقع کررہے تھے۔ حساس اداروں سے رابطوں کی بھی اطلاعات تھیں۔ لہذا اس سے پہلے کہ رابطہ کمیٹی مٹی ڈالتی۔ الطاف حسین نے خلفشارمیں مبتلا ہوکر رابطہ کمیٹی توڑنے اور نائن زیرو بند کرنے کا اعلان کردیا۔ لیکن پھر چند گھنٹوں بعد اس طرح تائب ہوگئے جیسے جوش صاحب توبہ سے۔
توبہ کی، پھر توبہ کی، ہر بار توبہ توڑدی
میری ا س توبہ پہ توبہ ، توبہ توبہ کر اٹھی
امید تو نہیں کہ معاملہ بھوک ہڑتال تک پہنچے گا لیکن الطاف حسین بھوک ہڑتال کا اعلان کرکے اپنے اور اپنی جماعت کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں۔ اگر نوبت بھوک ہڑتال تک پہنچ گئی تو ان کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے کیونکہ کھانے پینے کا مکمل ناغہ کرکے کوئی انسان دس دن سے زیادہ اور صرف جوس وغیرہ پر انحصار کرکے پینتیس دن سے زیادہ ہوش و حواس میں نہیں رہ سکتا۔ اس کے بعد جسم کا اندرونی نظام خطرناک حد تک بگڑنے لگتا ہے۔ دماغ خاص طور پر متاثر ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے جسم میں بہت زیادہ چربی ہو جیسا کہ الطاف حسین یہ صورتحال ان کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ الطاف حسین کے باب میں دماغ کا تو مسئلہ نہیں البتہ چربی کا زیاں مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ یہ جو الطاف حسین کسی کو کچھ نہیں گردانتے یہ ان کے جثے کا اور جثے میں چربی کا کمال ہے۔ جہاں تک پارٹی کا تعلق ہے تو بھوک ہڑتال کے فیصلے کے بعد ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ اور رابطہ کمیٹی بہت زیادہ دباؤ میں ہے۔ جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری میں زیادہ تر ملزمان کا تعلق متحدہ سے ہونے اور بعد میں متحدہ کے ان سے لاتعلقی اختیار کرنے پر ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ افراتفری کا شکار ہے۔ عام کارکنان تو درکنار قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین بھی جماعت سے لاتعلق ہوکر ادھر ادھر ہوگئے ہیں۔ سکیورٹی اور دفاعی اداروں کے خلاف یہ الطاف حسین کی تقاریر کا حسن اعجاز ہے کہ آج ایم کیو ایم پاکستان کی سب سے زیادہ تنہا جماعت ہے۔
ایم کیو ایم کے قیام کے ابتدائی دنوں میں الطاف حسین کارکنان کو نظریاتی درس دیا کرتے تھے۔ جن میں یہ واضح کیا جاتا تھا کہ اگر انہیں زندہ رہنا ہے تو کسی نہ کسی چیز پر عقیدہ ضرور رکھنا ہوگا۔ ایم کیو ایم سے وابستگی اور کراچی میں رہنے کی صورت میں یہ عقیدہ الطاف حسین ہے۔ ورلڈ مہاجر کانفرنس کا مقصد بھی دنیا بھر سے اردو بولنے والوں کو نہیں بلکہ عقیدہ الطاف حسین کی تائید کرنے والوں کو جمع کرنا ہے۔ اب چونکہ الطاف حسین اور ان کی مددگار بھارتی خفیہ ایجنسی را یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اردو بولنے والوں پر بے پناہ تشدد کیا جارہاہے تو ورلڈ مہاجر کانفرنس کے شرکاء کو بھی اس خیال کی تائید کرنا ہوگی۔ تائید نہ کرنے والوں کو جون ایلیا کا حشر یادرکھنا چاہئے۔
نائن زیرو سے قمر منصور کی گرفتاری پر الطاف حسین بہت ناراض ہیں۔ گرفتاری کے بعد قمر منصور کو رینجرز کے گھیرے میں ہم نے بھی دیکھا ہے۔ پہلے ایم کیو ایم کے کارکنان گرفتار ہوتے تھے تو تصویروں اور ناموں سے بدمعاش دکھتے تھے۔ اب تو ایسے مسکین اور حرماں نصیب نظرآتے ہیں جیسے کسی بے ضرر کلر ک کو دفتر سے اٹھالائے ہوں۔ الطاف حسین آپریشن کا رخ تبدیل کرنے اور سکیورٹی اداروں کو دباؤ میں لانے کے لیے ہر حربہ آزمارہے ہیں جن میں تازہ تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان ہے۔ لیکن ہر حربہ وہ تیر نیم کش ثابت ہورہاہے جو ہدف سے محروم ہو ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment