
ہلکی سی ترمیم کے ساتھ غالب کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:
وہ جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
ان کی صحت کتنی ہی خراب کیوں نہ ہوآواز خانہ خراب کی سی ہی رہتی ہے ۔بھاری اور چنگھاڑتی ہوئی۔ ابتداََاسے وہسکی کی زیادتی پر محمول کیا گیالیکن پھریہ ان کا معمول بن گئی۔ اس بلا نوش شرابی کی گھرکیاں تو چلتی ہی رہتی تھیں لیکن پیر کے روز یہ اس وقت ناقابل برد اشت ہو گئیں جب گالم گلوچ میں بدل گئیں۔الطاف حسین نے پا کستان کے خلاف یہ زبان کیوں استعمال کی اس کی کوئی معقول تو کیا نا معقول وجہ بھی ہماری سمجھ میں نہیں آرہی ہے سوائے اس کے کہ یہ ان کی سرشت میں داخل ہے۔پارٹی کا آغاز ہی انھوں نے مزار قائد پر پاکستان کا پرچم جلا کر کیا تھا۔نو برس پہلے دہلی میں کھڑے ہو کر انھوں نے کہا تھا پاکستان کی تخلیق تاریخ کی سب سے بڑی غلطی ہے۔کچھ ایساہی خیال الطاف حسین کی پیدائش کے بارے میں اہل وطن کا ہے۔
مغلظات بکنے کے بعد الطاف حسین اگلے ہی روز جس تندہی سے توبہ تائب ہوتے ہیں اس کی وجہ پریشانی یا پشیمانی نہیں یہ بھی ان کی عادت کا حصہ ہے۔اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔پیر کی بکواس کے بعد اگلے ہی روز ان کی طرف سے معافی آگئی۔اس معافی کے بعدانھیں کچھ جمع تفریق کی غلطی کا احساس ہوا۔جس کی تلافی انھوں نے امریکہ اور ساؤتھ افریقہ کے خطاب میں کردی۔
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کرلی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
جو اہل وطن الطاف حسین کی بد زبانی سے مسلسل خون کھولائے جارہے ہیں ان سے عرض ہے’’ذلیل کی گالی ہنس کے ٹالی۔‘‘
گالم گلوچ کا جو باب الطاف حسین نے کھول رکھا ہے یہ اس کا انیسواں یا بیسواں اظہار ہے اور انیسواں یا بیسواں نوٹس ہے جو وفاقی حکو مت نے لیاہے۔ابتداََعندیہ دیاگیا کہ الطاف حسین کے خلاف حکومت برطانیہ سے احتجاج کیا جائے گا۔تاہم اب یہ طے کیاگیا ہے کہ ایسا نہیں کیا جائے گا۔یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے ۔پہلے ہی احساس ہوجانا چاہیے تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ۔2013میں گارڈین نے لکھاتھا’’کراچی دنیا کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں امریکہ نے برطانیہ کو فری ہینڈدے رکھا ہے۔کراچی میں واقع امریکی قونصل خانہ شہر سے خفیہ اطلا عات حاصل کرنے کا کام نہیں کرتا۔یہ کام برطانیہ کرتا ہے۔بین الاقوامی سیاست بازی میں ایم کیو ایم کی برطانیہ کے لیے وہی اہمیت ہے جوپہاڑپر چڑھتے وقت اس جگہ کی ہوتی ہے جو پاؤں رکھنے کے لیے کوہ پیما کو ملتی ہے۔‘‘امریکہ،برطانیہ اور ان کا اسٹر ٹیجک حلیف بھارت الطاف حسین کے وہ آشنا ہیں جن کی وفاداری تک وہ محدود ہیں۔اب اس میں پاکستان کی محبت کی گنجائش اور ضرورت نہیں۔ امریکا اور برطانیہ کوپاکستان کے سب سے بڑے اور انتہائی اہمیت کے حامل شہر کراچی میں اثر رسوخ درکار ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے پاس ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس،منی لانڈرنگ اور بھارتی خفیہ ایجنسی را سے الطاف حسین کے روابط کے ٹھوس ثبو ت موجودہیں۔یہ وہ مجرم ہے جو پاکستان کی پارلیمنٹ میں وفاقی اور صوبائی وزرا اور کراچی میں تر بیت یافتہ عسکری ونگز اور جرائم پیشہ افراد کے گروہ رکھتا ہے اور برطانیہ کاشہری ہے اور برطانیہ کے مکمل کنٹرول میں ہے۔وہ کیسے اس اہم مہرے کو اپنے ہاتھوں ضائع کرسکتے ہیں۔
ایم کیو ایم کو الطاف حسین کے بغیر دیوار کے سائے میں کھڑے رکھنے کی جو کوشش ڈاکٹر فاروق ستار کر رہے ہیں اس کی حقیقت ابھی سے آشکار ہورہی ہے۔یہ ایک اعلی منصوبہ بندی کا حامل ڈرامہ ہے جو پوری مہارت سے اسٹیج کیا جا رہا ہے۔انھوں نے الطاف حسین کے بیان سے لا تعلقی کا اظہار کیا،لندن سے آزادی کا اعلان کیا لیکن فوج کے خلاف گالیوں اور ہذیان کے خلاف مذمت سے گریز کرتے رہے۔اپنی طویل تقریر میں وہ بار بار الطاف بھائی،بانی تحریک اورقائد تحریک کے الفاظ ادا کرتے رہے۔تاکہ ایم کیو ایم کے سپورٹرز اسے مائنس الطاف مہم نہ سمجھیں بلکہ ایم کیو ایم کو بچانے کے لیے مجبوری میں اُٹھایا گیا ایک قدم سمجھیں ۔ایم کیو ایم حقیقی اور مصطفی کمال کی صورت میں ہماری اسٹبلشمنٹ مائنس الطاف کوششوں کا حشر دیکھ چکی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم سب کی ضرورت ہے۔امریکہ اور برطانیہ کی بھی اور ہماری اسٹبلشمنٹ کی بھی۔یہ ہماری اسٹبلشمنٹ ہی تھی جس نے صدر ضیاء الحق کے دور میں ایم کیو ایم کو اہل کراچی پر مسلط کیا۔ضیاء الحق اسلامی ذہن رکھتے تھے اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذکے لیے بھی کوشاں تھے لیکن انھوں نے ایک ایسی جماعت کو پھلنے پھولنے کاموقع دیاجو اسلام کی تعلیمات کے صریح خلاف عصبیت اور تعصب کی علمبردار تھی۔اہل کراچی پاکستان کی انٹیلی جینشیاتھے۔ظلم کے خلاف ہر آواز یہیں سے اٹھتی تھی۔ایم کیو ایم کے بعد اب کراچی اس طرح کی انٹیلی جنشیا نہیں رہا۔اب اس کو غنڈہ گردی پرلگادیا گیا ہے۔کئی دہائیوں سے اس ظلم کے سبب جب کراچی جہنم بن چکا ہے اب اسٹبلشمنٹ مسیحا بن کر اہل کراچی کو ایم کیو ایم کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے میدان میں آگئی ہے۔ لیکن اس سے قطعاََیہ مراد نہیں ہے کہ اسٹبلشمنٹ ایم کیو کا خا تمہ چاہتی ہے۔انھیں علم ہے کہ الطاف حسین کی صحت خراب ہے۔وہ بہت زیادہ شراب پینے لگے ہیں۔وہ شدید ذہنی دباؤ میں حوش وحواس کھو بیٹھتے ہیں۔لہذا الطاف حسین کی زندگی میں ہی ان کا متبادل لایا جائے جو ان کے سپورٹرز کے لیے قابل قبول ہو۔مائنس الطاف فارمولا ماضی میں بھی ناکام رہا اور آج بھی ناکام ہے۔ایک ایسا سیٹ اپ تیا ر کیا جائے جو الطاف حسین سے محاذآرائی کیے بغیرایم کیو ایم کو سنبھال لے۔فاروق ستار کی قیادت میں نئی ایم کیو ایم ان ہی کوششوں کا ثمرہ ہے۔
اس وقت الطاف حسین کی دو حیثیتیں ہیں یاتو وہ قائد تحریک ہیں یا پاکستان کو توڑنے کی کوشش اور دعائیں کرنے والے غدار ہیں۔جس شخص نے پاکستان۔۔۔کے نعرے لگائے اور لگوائے ہوں،پاکستان کو ناسور،دنیا کے لیے عذاب اور دہشت گردی کی آماجگاہ کہا ہو وہ پاکستان میں کسی جماعت یا تحریک کا قائد کیسے ہو سکتا ہے۔اس کی جماعت کیوں کر پاکستان میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔کیوں کر ایک ایسے شخص کوکراچی کا میئر بنا دیاگیاجو الطاف حسین جیسے غدار وطن کواپنا قائد تسلیم کرتاہے لیکن جیسا کہ عرض کیاگیا ایم کیو ایم کازندہ رکھنا ضروری ہے ۔ایم کیو ایم سب کی ضرورت ہے اس لیے کراچی کے لوگوں کو بظاہر یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ انھیں ایم کیو ایم کے ظلم سے نجات دلائی جارہی ہے،ایم کیو ایم کے دفاتر مسمار کیے جا رہے ہیں،ان کے دہشت گردوں کو گرفتار کیا جارہا ہے لیکن دوسری طرف ایک بار پھر کراچی اور حیدرآباد کو ایم کیو ایم کے میئرز کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کو اس طرح عدالت میں پیش کیا جارہا ہے کہ ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوتی ہیں،کسی کا پاؤں زخمی ہے اور وہ لنگڑارہا ہے۔ اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والوں پر ان دہشت گردوں سے مظلومیت اور ہمدردی کا تاثر پیدا ہو۔ایم کیو ایم کی اسٹریٹ پاور کمزور ہو لیکن اس کی ووٹ پاور بدستور موجود رہے۔ظلم کو ظلم کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کرکے اسکو باقی رکھنے کا اہتمام کیا جارہاہے ۔حالا نکہ وہ جا نتے ہیں ظلم ظلم سے نہیں انصاف سے ختم ہوتا ہے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment