Tuesday, October 20, 2015

اللہ امریکہ کی حفاظت کرے


4 اکتوبر 2015، امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے میں منعقدہ کنونشن میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی جوناتھن کارپینٹر نے کہا: ’’پاکستان کی حکومت، اسکے تمام سول فوجی اور انٹیلی جنس ادارے اس وقت اپنی سرحدوں میں انتہاپسندی کے خلاف بھرپور جنگ لڑرہے ہیں۔ وہاں (شمالی وزیرستان) میں مسلسل جاری جنگ کراچی اور دیگر مقامات پر ہونے والی کوششیں جن کا مقصد عسکریت پسندی کا خاتمہ ہے پاکستان کی بقاء کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ہم اپنی حد تک مدد فراہم کرتے رہیں گے۔ جہاں بھی ہم کرسکتے ہیں اور اس کی سرحدوں میں موجود تمام عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے ہم پاکستان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔‘‘ اسکے علاوہ جوناتھن کارپنٹر نے یہ بھی کہا کہ ’’وہ موضوعات جو دونوں ممالک کے لیے اہم ہیں ان پر توجہ مرکوز کی گئی۔ جن میں ناقابل یقین حد تک اہم امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ہے اور پاکستان کے ساتھ معاملات میں تعاون نے امریکہ کو محفوظ بنادیا ہے۔‘‘
جوناتھن کارپنٹربرائے افغانستان اور پاکستان معاون نمائندہ خصوصی ہے۔ گزشتہ مہینے 14 ستمبر 2015 انہوں نے کہا تھا۔ قومی ایکشن پلان کی حکمت عملی پر عملدرآمد اور پیش رفت سے امریکہ کو ناصرف دلچسپی ہے بلکہ امریکہ اسکے لیے پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران کولیشن سپورٹ فنڈ کی ادائیگیاں جاری ہیں۔‘‘
سوال یہ ہے کہ شمالی وزیرستان تا کراچی آپریشن پاکستان اپنی بقاء کے لیے لڑرہا ہے یہ پاکستان کی اپنی جنگ ہے تو امریکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی صورت میں اس جنگ کے اخراجات کی ادائیگی کیوں کررہاہے؟ یہ رقم کبھی روک لی جاتی ہے۔ اب اس میں تخفیف کے اشارے دیے جارہے ہیں۔ امریکہ کے ٹیکس دہندگان پاکستان میں قیام امن اور اس کی حفاظت کے لیے ٹکس ادا نہیں کرتے پھر کیوں حکومت امریکہ اپنے عوام کے خون پسینے کی کمائی پاکستان کے دفاع پر خرچ کررہی ہے۔یہ رقوم امریکی کانگریس کی اجازت سے جاری ہوتی ہیں۔ امریکن سیکرٹری خارجہ کو سرٹیفکٹ جاری کرنا پڑتا ہے کہ وہ عسکریت پسند جو امریکہ کے دشمن ہیں امریکہ کے خلاف لڑرہے ہیں پاکستان ان کے خلاف بھرپور جنگ کررہاہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس آپریشن نے امریکہ کو کس طرح محفوظ بنادیا ہے؟ اس آپریشن کا امریکہ کی سلامتی سے کیا لینا دینا ہے؟
شمالی وزیرستان تا کراچی آپریشن ضرب عضب کا آغاز جون 2014 سے کیا گیا۔ 8 جون 2014 کو کراچی میں جناح انٹرنیشنل آیئرپورٹ پر دس دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ کل اکتیس افراد بشمول دس دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی اور اسے اپنے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کے قتل کا بدلہ قرار دیا جو ایک امریکی ڈرون حملے میں نومبر 2013 کو شمالی وزیرستان میں مارا گیا۔ 15 جون 2014کو افواج پاکستان نے شمالی وزیرستان میں عسکری کاروائی شروع کی۔ چند دن بعد امریکہ نے نہ صرف کولیشن سپورٹ فنڈ کی رکی ہوئی رقم جاری کردی بلکہ تاحال اس مد میں پاکستان کو ادائیگی کررہاہے۔
آپریشن ضرب عضب کی ابتداء سے ہی اس آپریشن کو امریکہ کی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ خطے میں امریکہ کی باقاعدہ آمد افغانستان پر حملے سے ہوئی۔ اس جنگ پر دس کھرب ڈالر کی لاگت آئی۔ یہ تاریخ کی طویل ترین جنگ بن گئی۔ جنگ کا آغاز طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ان کے روپوش القاعدہ مہمانوں کے تعاقب سے ہوا۔ اس جنگ میں امریکہ کو پاکستان، ایران، بھارت اور کچھ وسطی ایشیاء کے ممالک کی مدد اور حمایت حاصل تھی۔ ان ممالک میں پاکستان کا کردار سب سے زیادہ اہم تھا اور ہے۔ افغانستان پر قابض امریکی افواج کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت اور جہاد پشتون قبائل نے کیا۔ حتی کہ یہ امریکہ اور پشتون مزاحمت کاروں کے مابین جنگ کی صورت اختیار کرگئی جو پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں لڑی گئی۔ پشتون قبائل پاک افغان سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف بستے ہیں اس طرح کہ اگر ایک خاندان میں دس افراد ہیں تو کچھ ڈیورنڈ لائن کے اس طرف اور کچھ اس طرف۔ یوں جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کے قبائلی علاقوں سے افغانستان کے پشتون قبائل کو امداد اور دراندازی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یوں یہ صرف افغان جنگ نہیں بلکہ یہ افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کی مشترکہ جنگ تھی جو وہ افغانستان پر امریکی قبضہ کے خلاف لڑرہے تھے۔
امریکہ نے حکمت عملی یہ اختیار کی کہ اس جنگ کو ایک جنگ نہیں بلکہ دو الگ الگ جنگیں قرار دیا۔ ایک جنگ پشتون قبائل کے خلاف امریکہ نے افغانستان میں خود لڑی۔ لیکن پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پشتون قبائل کے خلاف جنگ امریکہ نے بذات خود نہیں لڑی بلکہ پرویز مشرف اور بعد میں آنے والی پاکستان حکومتوں پر زور دیا کہ دوسری جنگ امریکہ کی حمایت میں پاکستان ان پشتون قبائل کے خلاف لڑے جو پاکستان کی حدود میں واقع ہیں۔
اب سوال یہ تھا کہ پاکستان کس جواز کے تحت ان قبائل کے خلاف جنگ لڑے کیونکہ یہ قبائل پاکستان کے محب وطن تھے اور ریاست پاکستان کو ان سے کبھی نقصان نہیں پہنچا۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کی عوام اس جنگ میں امریکہ کے زبردست مخالف تھے۔ امریکی منصوبے کا انحصار اس بات پر تھا کہ پاکستانی فوج ڈیورنڈ لائن کے اس طرف پشتون قبائل کے خلاف برسر پیکار ہو۔ پاکستانی افواج کے لیے ایسا کرنا اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک کہ اس قدم کو پاکستان کے عوام کی تائید حاصل نہ ہو اور ان کے دل میں افغان مجاہدین یعنی طالبان سے بدگمانی اور نفرت پیدا نہ ہو۔
اس مقصد کے حصول کے لیے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں قبائل کے کمزور نیٹ ورکس میں داخل ہوئیں۔ انہوں نے ان قبائل میں موجود ناسمجھ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حربوں سے ناواقف لوگوں کو بھڑکایا اور ان کا رخ قابض امریکی افواج کے بجائے پاکستان کے مسلمانوں کی طرف موڑ دیا۔ دوئم تحریک طالبان پاکستان جیسی امریکن پلانٹڈ تنظیموں کو آگے لایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا جیسے یہ افغان طالبان ہی کا کوئی حصہ ہے جو پاکستان کے عوام کو برباد کرنے اور ان سے انتقام لینے پر تلا ہوا ہے۔ سوئم امریکن انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پرئیویٹ ملٹری بلیک واٹر، زی، ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک اور نہ جانے کون کون سی ایجنسیاں اور ان کے کارندے پاکستان بھر میں دھماکے خودکش حملے اور فرقہ ورانہ فساد کرانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ ان وحشیانہ حملوں کا الزام تحریک طالبان پاکستان قبول کرتی رہی۔ اس طرح کے حملے امریکی ایجنسیوں کا معروف اور مخصوص طریقہ کار ہے جو وہ ساری دنیا میں اختیار کرتی ہیں۔ ان حملوں کی افادیت اور امریکی مقاصد سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیابی پر روشنی ڈالتے ہوئے یکم دسمبر 2009ء کو امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہا تھا: ’’ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد ان کی جنگ نہیں ہے۔ لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے تو یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ پاکستان کے لوگ ہیں جو انتہا پسندی کے ہاتھوں سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔‘‘
 برسوں سے امریکی پاکستان میں فساد کی آگ کو ہلکے ہلکے سلگائے رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ اس فساد اور دہشت گردی کو دور کرنے کی آڑ میں امریکہ اور پشتون قبائل کے درمیان افغان جنگ کی کوکھ سے پاک فوج اور پشتون قبائل کے درمیان ایک نئی جنگ کے آثار اور جواز مہیا کیے گئے۔ جس کا مقصد افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں تعینات کرنا اور اس کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقوں سے افغانستان کے پشتون قبائل کو ملنے والی امداد اور مجاہدین کی آمدورفت کو کنٹرول کرنا تھا۔ یوں ایک افغان جنگ کو دو الگ الگ جنگوں میں تبدی ل کرنے میں امریکہ کامیاب ہوا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں نعر ہ گونجا تھا ’’اللہ امریکہ کی حفاظت کرے‘‘۔ افغان محاذ جنگ پر یہ اسی نعرے کی سمت پیش رفت تھی۔
(جاری ہے)
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment