قبر میں دفن ایک عورت محسوس کرتی ہے کہ کوئی اس کی قبر کھود رہا ہے۔ سوچتی ہے کہ میرے خاوند کے سوا اور کون ہوسکتا ہے۔ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ اسے یاد آتا ہے کہ میرے شوہر نے تو کل ہی دوسری شادی کرلی ہے۔ پھر خیال آیا ممکن ہے کوئی قریبی عزیز ہو قبر پر پھول لگانے آیا ہو۔ پھر سوچتی ہے کہ ایسا عزیز کون ہے جو مرنے کے بعد بھی مجھ سے اس درجہ محبت کرتا ہے۔ اسے خیال آتا ہے ہوسکتا ہے کوئی دشمن ہو جو مرنے کے بعد میری لاش کی بے حرمتی کرنا چاہتا ہے لیکن پھر وہ اس خیال کو بھی جھٹک دیتی ہے۔ تمام اندازے ردکردینے کے بعد وہ خود ہی پکارتی ہے ’’میری قبر کون کھود رہا ہے‘‘۔ آواز آتی ہے میڈم میں آپ کا کتا ہوں آپ کے آرام میں خلل ڈالنے پر معافی چاہتا ہوں۔ عورت سوچتی ہے انسان کتنا بے وفا اور کتا کتنا وفادار ہے۔ مرنے کے بعد بھی میری قبر پر آیا ہے۔ عورت یہ سوچ ہی رہی تھی کہ کتے کی آواز آتی ہے میڈم میں اس علاقے میں روزانہ دوڑتا ہوں۔ اس دوران مجھے بھوک لگتی ہے میں آپ کی قبر پر دراصل اپنی ہڈی چھپانے آیا ہوں تاکہ بھوک محسوس ہو تو ہڈی نکال کر کھاسکوں۔
کراچی میں سردی کم ہی پڑتی ہے لیکن آٹھ دس دن سے جاڑا بہار پر ہے۔ بستر چھوڑنے کو دل نہیں کرتا مگر روزگار کے آزار فجر بعد ہی موٹرسائیکل پر سوار کرادیتے ہیں۔ ہر چار طرف سے سردی ہو کھلی سڑک ہو ہیلمٹ اور جیکٹ نہ لینا بھی آپ فخر سمجھتے ہوں تب کام بن جاتا ہے۔ فراغت میسر آجاتی ہے۔ بیماری ڈیرہ ڈال دیتی ہے۔ فراغت میسر ہو تو ہمارے نزدیک اس کا ایک ہی استعمال ہے۔ بزم اقبالؔ۔ اقبال کی ایک فارسی نظم انقلاب کے دوران اہل ایران کے لئے بہت اہم تھی۔ وہ خیال میں کوندے کی طرح لپک گئی۔
ترجمہ:
ایک تنگ و تاریک کمرے کی تنہائی میں مجھ پر سیاست کی ایک رمز آشکار ہوئی جب اونٹ کی آنکھیں اور منہ باندھ دیے جاتے ہیں اور اس کی گردن پر ایک وزنی پٹا ڈال دیا جاتا ہے تو پھر اونٹ اپنے ہی گرد گھومنے لگتا ہے۔ لیکن سمجھتا ہے کہ وہ دیگر اونٹوں کے ساتھ ایک نیا راستہ طے کررہا ہے۔ اسی رح جب قوم کی آنکھیں بند کردی جاتی ہیں تو وہ ایک مقام پر آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ آگے جارہی ہے راستہ طے کررہی ہے لیکن اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ ایک ہی مقام پر کھڑی اپنے ہی گرد گھوم رہی ہے۔
جمہوریت ہو تو ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ یہ سیاستدان ہیں متذبذب نااہل اور غیر سنجیدہ جو قوم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے غلط راہ پر چلا رہے ہیں اور آمریت ہو تو جنرلوں کو آنکھوں کی پٹی قرار دیا جاتا ہے۔ یوں جمہوریت ہویا آمریت اچھی حکومت خواب ہی رہتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو وہ ہے۔ جو غالب نے بیان کی ہے۔
رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو میخانہ خالی ہے
آج کہا جا رہا ہے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ چکے ہیں بیرونی سرمایہ کار پاکستان کی طرف رجوع کررہے ہیں۔ بجلی کے بحران کے حل کے لئے پہلے ہی دن سے عظیم پیش رفت جاری ہے لیکن دوسال کا حاصل یہ کہ یک بہ یک پورا ملک تاریکی میں ڈوب جاتا ہے بھوک عوام کے گھروں سے نکلنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ جام و سبو بھرے ہیں مگر میخانہ خالی ہے۔ غالب کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ اہل ہمت کا نہ ہونا ہے۔ اہل ہمت ہوں بھی تو اس نظام کے داخلی تضادات کسی بھی حکومت کو دل جمعی سے اپنے منصوبوں کو بروئے کار نہیں لانے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی سطح پر یہ بحث جاری ہے کہ اس پیچیدہ اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اس نظام کے تحت حکمرانی کے چیلنج پر کیسے پورا اترا جائے۔اچھی حکمرانی عمومی بات نہیں ہے بلکہ یہ مربوط عوامل کا نتیجہ ہے۔ جس کے لئے ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔ سوشل ازم سرمایہ داریت اور اس سے وابستہ جمہوریت انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مغرب میں عوام کو مراعات اور سہولتیں دینے کا فلاحی ریاست کا تصور اور جمہوری آزادیاں محدود سے محدود تر ہوتی جارہی ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں عوام سے مراعات واپس لیکر ان کے بوجھ میں اضافہ رکرہی ہیں۔ فوجی آمریتوں میں بھی یہی سرمایہ دارانہ نظام کام کرتا ہے۔ پاکستان میں اسلام کے دلدادہ جنرل ضیاء الحق ہوں یا سیکولرازم میں پناہ ڈھونڈتے پرویز مشرف۔ پیپلز پارٹی ہو یا نوازشریف کی مسلم لیگ۔ تضادات کے باوجود سب نے اسی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہی کام کیا ہے اور ناکام رہے ہیں۔ انسان کی آئندہ سرنوشت میں یہ انداز حکمرانی اور نظام انسانیت پر ایک تباہ کن ضرب لگانے کے سوا کوئی اور کردار ادا کرتا نظر نہیں آتا۔
کئی صدیوں سے مغرب سیاسی نظام کا سرچشمہ ہے۔ سولہویں صدی کو ہم مغرب اور ایک لحاظ سے تاریخ انسانی کے نئے دور کا آغاز سمجھیں تو آج چار صدیاں گزرنے کے بعد اس نظام میں خستگی اور داخلی کمزوری کے آثار واضح ہیں۔ سیاسی نظام قابل حکومتیں فراہم نہیں کررہا ہے۔ نااہلی بجٹ خسارہ اور نفس پرستی قانون سازی میں اہم کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ہر جگہ جمہوریت غیر حقیقت پسندانہ عوامی توقعات میں اضافہ کررہی ہے جس سے پیدا متناقص مطالبات ریاست اور حکومت کو افراتفری کا شکار کررہے ہیں۔ حکومتیں دیر پا منصوبہ بندی کے بغیر بے قاعدگی اور محض الیکشن میں کامیابی کی بنیاد پر چلائی جارہی ہیں۔ بیشتر جمہوری ممالک میں سیاسی رہنما عوامی مطالبات کو نظام پر گنجائش سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنے مفادات کے حصول کے لئے جائز اور ناجائز طریقے سے حکومت سے ناراض کرتے چلے جاتے ہیں جس سے حکومتیں جمود اور تعطل کا شکار ہوجاتی ہیں۔
بات اقبال سے چلی تھی۔ اقبال نے کہا تھا: ’’جہاں کہیں روشنی ہے وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہے یا آپ کی تلاش میں ہے باقی سب گمراہی ہے‘‘۔ کمیونزم کو روس میں پناہ نہ ملی سرمایہ دارانہ نظام مغرب میں قابل نفرت صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس مسئلہ کا حل صرف اور صرف اسلامی نظام حکومت ہے۔ اعلی طرز حکمرانی اور اقتدار کے لئے دنیا کو بالآخر اسلام کی طرف آنا ہی ہوگا۔ ورنہ لوگوں کی ایک قلیل تعداد کے جام و سبو تو بھرے ہونگے لیکن عوام کا میخانہ خالی ہی رہے گا۔
٭٭٭٭
0 comments:
Post a Comment