اس صدی کے آغاز میں امریکہ نے مغربی افواج کے ہمراہ افغانستان پر یلغار کی تو وہ وحشت میں دیوانے ہورہے تھے اور افغانستان کی سرزمین کو برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ نیویارک ٹائمز سے ایک اعلی امریکی اہلکار نے حد درجہ رعونت سے کہا تھا: ’’ہم ایک عالمی سلطنت ہیں،ہم جو بھی کریں اس کا جواز تخلیق کر سکتے ہیں۔ ہم تاریخ ساز ہیں۔ آپ صحافی لوگ بس اس بات کا جائزہ لیتے رہیں کہ ہم کیا کرتے ہیں‘‘۔ تب طالبان ایک چھوٹا سا گروہ تھے لیکن آج اسی فیصد افغانستان پر قابض ہیں۔ کھربوں ڈالرز ہزاروں امریکی فوجیوں کے زیاں کے باوجود افغانستان کو پتھروں سے بھی پچھلے زمانوں میں لے جانے والے خون آشام امریکہ کو کیا ملا؟ بہادری اور خیرہ کن طاقت کا رعب تارتار، بدحواسی، آشفتگی اور پریشانی۔ تب صرف افغانستان شورش زدہ تھا آج دہشت گردی دنیا کے کونے کونے میں پنجے پیوست کیے ہوئے ہے۔ امریکہ کی طاقت کے آگے سرجھکائے اور سپرانداز اہل پاکستان اس عفریت کے سب سے زیادہ شکار سب سے زیادہ مجروح اور بدن دریدہ ہیں۔
پشاور سانحہ کے بعد وزیراعظم نوازشریف دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ پاکستان میں ملٹری کورٹس کا قیام عمل میں آگیا ہے۔ دہشت گردوں کو سزائے موت دی جارہی ہے۔ آئین میں ضروری ترامیم بھی کرلی گئی ہیں۔ ان تمام واقعات کے ساتھ ساتھ ایک ’’سلسلہ حیرت‘‘ بھی افغانستان اور امریکہ کے حیرت کدوں سے جاری ہے۔ پاک افغان بے تکلفی اور دوستی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ آپ سے تم اور پھر تو کا عنوان۔ دوستی کا باب نہیں پوری کتاب لکھی جارہی ہے۔ انسداد دہشت گردی کے لئے دونوں ممالک کی فوجی قیادت کے درمیان پہلی مرتبہ قریبی رابطے ہوئے ہیں اور یہ رابطے جنرل راحیل شریف اور افغان آرمی چیف جنرل کریمی کی سطح کے ہیں۔ جنرل کریمی پچھلے ماہ اسلام آباد آئے اور جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی جبکہ پاکستانی آرمی چیف نے دورۂ کابل کے دوران بھی ملاقات کی تھی۔ 24 دسمبر کو دونوں ملکوں کے کورکمانڈرز کی میٹنگ جلال آباد میں ہوئی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ شاید پاکستان کی تاریخ میں ایسا بھی پہلی بار ہوا کہ گزشتہ ماہ افغان صدر اسلام آباد آئے تو اسلام آباد سے سیدھے جی ایچ کیو گئے اور جنرل راحیل سے ملاقات کی۔ افغانستان کی طرف سے مشاعروں کا یہ پے درپے انعقاد یقینا امریکہ کے اشارے پر ہے جو خود بھی ایک مرتبہ پھر پاکستان سے محبت بھرے اشعار کی بیت بازی میں مصروف ہے۔ پچھلے دنوں جنرل راحیل امریکہ کے دورے پر گئے۔ پاکستان کے کسی بھی آرمی چیف کا یہ امریکہ کا طویل ترین دورہ تھا۔ دورہ ایک ہفتے طے تھا مگر پھیل کر دو ہفتے پر محیط ہوگیا۔ برطانیہ میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی ان کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ تقریباً ہر اہم آدمی سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔
امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کا بڑا حصہ واپس بلالیا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ کی افغانستان میں اتنی دلچسپی برقرار ہے کہ نمائندہ حکومت دہشت گردوں کا مقابلہ کرتی رہے۔ وہ افغانستان کو دوبارہ طالبان مجاہدین کے قبضے میں جاتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ اگرچہ نیٹو اور امریکہ افغانستان کو ساڑھے تین لاکھ کی سپاہ کے حوالے کرکے جارہے ہیں جن کی تربیت امریکی اور یورپی فوجی ماہرین نے کی ہے۔ انہیں 13 ہزار امریکی فوجیوں کی مدد بھی حاصل ہوگی۔ لیکن اس قدر کثیرتعداد جدید اسلحہ، تربیت اور تکنیکی مہارت کے باوجود امریکہ کو اس بے مقصد فوج کی اوقات معلوم ہے۔ اسے یقین ہے کہ ایمان اور ایقان کو زندگی پر ترجیح دینے والے طالبان مجاہدین کے سامنے یہ افواج نہیں ٹھہر سکتیں۔ دوسری طرف آپریشن ضرب عضب میں پاک افواج نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا جنرل راحیل نے اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں جس معروضیت کے ساتھ اقدام کئے اور حقانی گروپ کے جس طرح بخیے ادھیڑے ہیں کانگریس اور وائٹ ہاؤس اس کے معترف ہیں۔ پاک فوج کی اس کارکردگی کی بناء پر امریکہ آرزومند ہے کہ پاکستانی سپاہ اس کی غیر موجودگی میں افغان طالبان جنہیں وہ دہشت گرد کہتا ہے سے نجات حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ تعین کرلیا گیا ہے کہ پاکستان کے دشمن دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں اور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملہ کررہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کی قربت کے بعد اب یہ طے ہے کہ دونوں ملکوں کی افواج مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کریں گی۔ ان کاروائیوں کا ہدف بالآخرافغان طالبان ہونگے تاکہ امریکہ کی عدم موجودگی میں وہ دوبارہ اس قابل نہ ہوسکیں کہ افغانستان پر مکمل طور پر اختیار حاصل کرسکیں۔ سانحہ پشاور کے معصوم بچوں کا دکھ امریکہ کا کام آسان کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ امریکہ افغانستان سے رخصت ہورہا ہے اور ہم افغانستان میں داخل۔ افغان باقی کہسار باقی الارض ُ للہ
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment