Saturday, July 4, 2015

دے کے دستک میں گزرجاؤں گا جھونکے کی طرح

 وزیراعظم نوازشریف کے 12 دن بعد کامل چار گھنٹے کے دورۂ کراچی میں چاشنی بھی ہے، چسکا بھی ہے اور کم مائیگی کا احساس بھی۔ چاشنی اور چسکا زرداری صاحب اور کم مائیگی کا احساس اہل کراچی کے لیے۔ اہل کراچی تو کھڑکی کھولتے ہی رہ گئے اور میاں صاحب جھونکے کی طرح دستک دے کر گزرگئے۔ درد کے ماروں سے یہ بھی نہ پوچھا۔۔۔
اب طبیعت تمہاری کیسی ہے
دل پریشان تو نہیں ہوتا
جناح اسپتال میں مریض اور عملہ انتظار ہی کرتے رہ گئے اور وزیراعظم واپسی کے لیے کراچی ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ شاید لوگوں کو خبر نہیں کہ
’’شریف انسان گھر سے دیر تک باہر نہیں رہتے‘‘
دورے میں وزیراعظم نوازشریف نے اجلاس کی صدارت کی۔ ملاقاتیں کیں اور اہل کراچی کے لیے یہ بیان جاری کیا ’’ہلاکتوں کے ذمہ داروں کو جواب دینا ہوگا۔ کراچی میں غفلت برتنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔ وزیراعلی سندھ فوری تحقیقات کرائیں۔ ملوث افراد اور اداروں کا تعین کیا جائے‘‘۔ یہ مطالبہ میاں صاحب اس شخص سے کررہے تھے جس نے ان کے اجلاس کے فوراً بعد ہی پریس کانفرنس میں میاں صاحب کے خیالات اور احکامات کو مکمل طور پر رد کردیا۔ میاں نوازشریف کے اجلاس کے فوراً بعد ہی وزیراعلی سندھ نے پریس کانفرنس میں کہا: ’’گرمی سے اموات میں کسی ادارے کی غلطی ہے نہ کوتاہی۔ ہلاکتیں قدرتی آفت سے ہوئیں۔‘‘ یہ کسی طربیہ ڈرامے کا مضحکہ خیز منظر نہیں ہے۔ حکمرانی کے حوالے سے ہمارے بخت کا حصہ ہے۔ اٹلی کے پہلے وزیراعظم یاد آجاتے ہیں۔ ایک صدی پہلے انہوں نے کہا تھا۔ اٹلی میں بہت زیادہ بدعنوانی ہے۔ یہ عوام کا قصور نہیں۔۔۔ بے چارے عوام۔ ان پر ہمیشہ بری حکمرانی مسلط رہی ہے۔ وزیراعظم کے اجلاس کی خاص بات اجلاس میں کے الیکٹرک کے نمائندوں کی عدم موجودگی تھی۔ ان کی موجودگی ضروری بھی نہیں تھی کیونکہ وزیراعظم خود کے الیکٹرک کی نمائندگی فرمارہے تھے۔ وزیراعلی سندھ کا کہنا ہے کہ اجلاس میں وزیراعظم کے الیکٹرکی فیور کرتے ہیں۔ سو حساب صاف ہوا۔ جن اداروں کو وزیراعظم نوازشریف کراچی کے المیے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں وزیراعلی سندھ اور پوری سندھ حکومت ان کی طرفدار ہے۔ جس کمپنی کو پورا شہر اور سندھ حکومت قابل گردن زدنی سمجھتی ہے اسے وزیراعظم کی پشت پناہی حاصل ہے۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ رہیں ایک ہزار دوسو سے زائد عام شہریوں کی اموات تو پاکستان میں اس نیلے آسمان اور روشن سورج کے نیچے ہم نے یہی دیکھا ہے کہ یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔ قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ پاکستان میں صرف یہی ایک مسئلہ تو نہیں ہے۔ وزیراعظم کو دیگر معاملات پر بھی توجہ دینی ہے۔ کراچی کا موسم خوشگوار ہورہا ہے سو اے لوگو! تم بھی اسپتال چھوڑو، گھر جاؤ، کچھ دن رو پیٹ کر صبر آہی جائے گا۔
گزشتہ انتخابات میں زرداری صاحب کی کرپشن کے خلاف جو دودھ دھلے عوام کے حقوق کے چیمپئن بن کر سیاسی میدان میں اترے تھے وہ عوام کو لوڈشیڈنگ کے آزار سے نجات کے وعدے پر برسر اقتدار آئے۔ لہذا میاں صاحب کو تمام دستیاب وسائل اور ترجیحات کا رخ اس مسئلہ کی سمت موڑ دینا چاہئے تھا لیکن انہوں نے کیا کیا۔ قومی خزانے سے پانچ کھرب روپیہ نکال کر آئی پی پیز کے ساہوکاروں کے بھرے ہوئے خزانوں میں ڈال دیا اس یقین دہانی کے ساتھ کہ آئندہ گردشی قرضہ بڑھنے نہیں دیاجائے گا۔ لیکن دوسال بعد ہی گردشی قرضے کا لگ بھگ اتنا بڑا پھر سامنے کھڑا ہے۔ دوسرا وعدہ یہ کیا گیا تھا کہ بجلی کی پیداواری صلاحیت کو پوری طرح بروئے کار لایا جائے گا۔ لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر میں ہزاروں اموات بھی پیداواری صلاحیت میں ایک یونٹ اضافے کا باعث نہ بن سکیں۔ یاد رہے کہ بجلی کی کمپنیاں اپنی پوری پیداواری صلاحیت استعمال نہیں کرتیں۔ صرف اتنی ہی بجلی پیدا کرتی ہیں جو ان کے منافع کو سوٹ کرتی ہو۔ شہر اندھیرے میں ڈوبتا ہے ڈوبے، لوگ مرتے ہیں مرے، انہیں غرض نہیں۔ یہ ان کا مسئلہ نہیں۔ ان کمپنیوں کی منافع کی شرح پچاس فیصد ہے۔ کتنی قیمت پر بجلی بن رہی ہے۔ کس قیمت پر غریب عوام کو فروخت کی جارہی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہر سال یہ کمپنیاں اربوں روپے بلا روک ٹوک ملک سے باہر بھیج رہی ہیں۔ نندی پاور پروجیکٹ کی بحالی پر اربوں روپیہ لگادیا گیا لیکن بعد بھی ہمارے مقدر بجلی کے حوالے سے اسی طرح پھوٹے ہوئے ہیں جتنے دو سال قبل۔ کچھ بھی فرق تو نہیں پڑا۔ بجلی کی پیداوار میں کچھ بھی اضافہ تو نہیں ہوا۔ چھ مہینے، ایک سال اور 2017ء ۔۔۔ وہی وعدے
زخم تمہارے بھر جائیں گے تھوڑی دیر لگے گی
بے صبری سے کام لیا تو اور بھی دیر لگے گی
ترجیحات کے معاملے میں میاں صاحب کی دلچسپی کامحورکیا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑے بڑے میگا پروجیکٹس۔ جن میں مال بھی خوب بنے اور شہرت بھی خوب ہو۔ وطن عزیز کے کس گوشے سے صدائیں بلند ہوئیں تھی کہ ان بلند و بالا پروجیکٹس کو شروع کیا جائے۔ اگر یہ منصوبے سامنے نہ آتے تو کیا عوام کا جینا حرام ہوجاتا۔ جو دو کھرب روپیہ ان میگاپروجیکٹس پر خرچ کیا گیا ہے اگرتوانائی کے شعبے میں خرچ کیاجاتا تو عوام کو کچھ نہ کچھ تو ریلیف ملتا۔ ان منصوبوں کو دیکھ کر اس شخص کا خیال آتا ہے جس کے گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہ ہو اور وہ بازار سے مہنگا اور اعلی کوالٹی کا ریفریجریٹر اٹھا کر گھر لے آئے۔
اب آئیے چاشنی اور چسکے کی طرف جس کا ہم نے زرداری صاحب کے حوالے سے ابتداء میں ذکر کیا تھا۔ شنید ہے کہ چار گھنٹے کے مختصر دورے میں وزیراعظم نوازشریف نے وزیراعلی سندھ سے تنہائی میں ملاقات کے لیے وقت نکالنا ضروری سمجھا اور وزیراعلی پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کے لیے نیک تمناؤں کاخصوصی پیغام دیا۔ بتایا جارہا ہے کہ وزیراعظم نے  اپنے پیغام میں زرداری صاحب کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے کسی بھی سیاسی لیڈر کے خلاف کرپشن یا کرمنل قوانین کے تحت کاروائی نہیں کی جائے گی۔ معاملہ اصل میں یہ ہے کہ رینجرز کی کاروائیوں کے نتیجے میں جو بھی دل دہلادینے والے انکشافات ہوتے ہیں یا ملزم پکڑے جاتے ہیں انہیں کیفرکردار تک پہنچادینے کا اختیار یا تو نوازشریف کی مرکزی حکومت کے پاس ہے یا آصف علی زرداری کی صوبائی حکومت کے پاس۔ ریینجرز یا فوج کے پاس مقدمہ چلانے یا سزا دینے کا اختیار نہیں۔ سو، یقین رکھئے حکومت کی توپوں کا رخ کرپشن کے ہر دکھائی دینے والے مظہرکی طرف کتنا ہی ہو ان توپوں سے کرپشن کے خلاف تباہ کن بارود برآمد نہیں ہوگا۔ ایک طرف روزانہ کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن کے انکشافات سنتے رہئے۔ دوسری طرف سندھ میں جمہوری حکمرانی کے نام پر کرپشن کے انہی عفریتوں کو وزارتوں پر قابض بھی دیکھئے اور تیسری طرف وزیراعظم نوازشریف کی اس شخص کے ساتھ نورا کشتی کے مزے بھی لیجئے جس کی وجہ شہرت ایان علی اور عزیربلوچ ہیں۔
٭٭٭٭

0 comments:

Post a Comment