
اس برس کراچی میں رمضان کی بابرکت ساعتیں دردوالم سے لبریز چیخوں میں ڈوب گئیں۔ زمین میتوں کے لیے کم پڑگئی۔ عشرہ رحمت مرگِ انبوہ کے غم میں کھوگیا۔ شدید گرمی سے جسموں میں پانی کی کمی۔۔۔ خوفناک ڈیہائیڈریشن، ہیٹ اسٹروکس اور حبس۔ چند دنوں میں تقریباً 1200 اموات۔
زندگی جن کے لیے پہلے ہی وبال تھی تنگدستی سے جن کاحال خراب تھا، شدت کی گرمی میں بھی جو روزگار کی تلاش میں نکلے اور گھر واپس نہ آئے۔ ایدھی سردخانوں کے سایوں میں جا پڑے۔ مرنے والوں کا تعلق سماج کی پست اور غریب ترین سطح سے تھا۔ متمول طبقوں اور علاقوں میں کسی کا رنگ اڑا اور نہ دم شکستہ ہوا۔ ہم امیر اور غریب کی خوفناک سماجی تفریق میں جی رہے ہیں۔ ایک لفظ کی ترمیم کے لیے نثارناسک سے معذرت کے ساتھ۔۔۔
کتنا محکم ہے مرے عہدِ کہن کا روزہ
’موت‘ سے افطار کیا میں نے بدن کا روزہ
اس مہینے بھی مزدور کو اجرت نہ ملی
بھائی ہڑتال پہ ہے اور بہن کا روزہ
کہا جارہا ہے کراچی میں گزشتہ دس برس میں ایسی گرمی نہیں پڑی۔ 45 ڈگری سینٹی گریڈ۔ سبی، جیکب آباد میں موسم گرما میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاپہنچتا ہے۔ لاہور میں بھی 45-46 ڈگری سینٹی گریڈ انوکھی بات نہیں۔ لیکن ان علاقوں میں کبھی گرمی سے دوچار افراد سے زیادہ ہلاکتیں سننے میں نہیں آئیں۔ جبکہ کراچی میں ایک ہزار سے زیادہ اموات ہوگئیں۔ اتنی ہلاکتیں تو زلزلوں اور طوفانوں میں ہوتی ہیں۔ گرمی تو ایسی چیز ہے جس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے پھر کراچی میں ملک کی تاریخ کا بدترین المیہ کیوں رونما ہوا۔کراچی میں بجلی کو کے الیکٹرک کا روگ لگا ہوا ہے۔ یہی کمپنی اہل کراچی کو بجلی فراہم کرتی ہے۔ یہ باالواسطہ طور پر سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کے زیر انتظام ہے۔ کمپنی بدترین بدعنوانی کی خوگر، کرپشن سے زیر اور شدید خسارے میں مبتلاہے۔ اس خسارے سے نمٹنے کے لیے کے الیکٹرک نے کئی ماہ سے بجلی چوروں اور بجلی کے بلوں کی ادئیگی نہ کرنے والوں کے خلاف میڈیا اور میڈیا سے باہرمہم چلا رکھی ہے۔ کمپنی نے ایک طرف شہر کو کروڑوں گیلن روزانہ پانی فراہم کرنے والے کراچی واٹر بورڈ کے بجلی کے کنکشن کاٹ کر پورے شہر کا پانی بند کردیا۔ دوسری طرف وہ علاقے جہاں بجلی کی چوری زیادہ ہے وہاں طویل لوڈشیڈنگ مسلط کردی۔ یہ سرمایہ دارانہ مغربی نظام کی وہی سوچ ہے جس کا اظہار خواجہ آصف ہے یہ کہہ کر کیا تھا ’’جن علاقوں میں جلوس نظر آرہے ہیں وہاں ہم نے ریکوری نہ ہونے کی وجہ سے بجلی بند کی ہے‘‘۔ اگر پیسہ نہیں تو سروس بھی نہیں، زندگی بھی نہیں۔ زندہ رہنا ہے تو پیسے لاؤ۔ بجلی کے بل بھرو ورنہ حکومت کو تمہارے جینے مرنے کی کوئی پروا نہیں۔ There is no such thing as a free lunch۔ کراچی میں لوگوں کی غالب اکثریت تنگ و تاریک ڈربوں میں رہتی ہے جنہیں فلیٹ کہا جاتا ہے جہاں ہوا کا گزر بس اسی قدر ہے جتنی دیر پنکھا چلتا ہے۔ ورنہ حبس اور بدترین حبس۔ نہ بیٹھے چین نہ اٹھے چین۔ پھر کراچی کا موسم اور ہوا سمندرکی کیفیت سے مشروط ہے۔ یہ کیفیت رحمت ہو تو موسم معتدل رہتاہے۔ان دنوں بدقسمتی سے سمندری ہوائیں بھی بند ہوگئیں اور صورتحال غیر معمولی شکل اختیار کرگئی۔ اتنی کہ سانس لینا دشوار ہوگیا۔ اوپر سے پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ آگ برساتا سورج۔ گھر تپ کر تندور بن گئے۔ سڑکیں جیسے شعلے بچھ گئے۔ پھر بجلی بند پانی غائب، لوگ زندگی کی بازی ہارتے چلے گئے اور ملک کی تاریخ کا بدترین سانحہ پیش آگیا۔
پہلے بجلی کا ایک وزیر ہوتا تھا اب دو ہیں اور معاملات پہلے سے کہیں بدتر ہیں۔ جو وزراء کرام چھیالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں کوٹ پہن کر گرمی کے ماروں سے خطاب کرتے ہیں وہ بے حسی کی بدترین علامت ہیں۔ وہ لوگوں کی مشکلات کو نہ سمجھ سکتے ہیں نہ مداوا کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات دکھ درد اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے عاری ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا بدترین سانحہ ہوگیا۔ لوگوں پر قیامت گزرگئی۔ ایک ہزار سے زائد گھروں میں میتیں بچھ گئیں لیکن ان کے بیانات جیسے لطیفے سنارہے ہوں۔ خواجہ آصف طویل لوڈشیڈنگ کا جواز دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’شدید گرمی سے بجلی کی مانگ میں اضافہ ہوگیا جس سے سسٹم پر لوڈ آگیا‘‘۔ کون ہے جو پوچھے کہ حضور کیا 18 جون کو برفباری ہورہی تھی کہ 19 جون کو یکایک گرمی پڑگئی۔ یہ لوگ کسی طور انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ اگر انسان ہوتے تو لوگوں کے دکھوں کا ازالہ کرتے، ذمہ داری محسوس کرتے۔ لیکن دور دور تک نہ کہیں معمولی سا دکھ اور نہ ذمہ داری کا احساس۔ وفاقی حکومت کہتی ہے ہم نے کے الیکٹرک کو بجلی دے دی ہے۔ اب کراچی ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ سندھ حکومت کہتی ہے کے الیکٹرک سے معاہدہ وفاقی حکومت نے کیاہے اس لیے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ کے الیکٹرک کہتی ہے لوگ بل نہیں دیتے۔ ایسے موقع پرکہ شہر میں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں وزیراعلی سندھ ایم کیو ایم کو افطار پارٹی دے رہے تھے۔ ایم کیو ایم نے اتنا بھی احتجاج نہیں کیا جتنا وہ اپنے ایک کارکن کے مرنے پر کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ جمہوری نظام اور یہ ہیں وہ لوگ جن کے لیے ہم مرے جارہے تھے۔ انسانیت کے دکھوں کا مداوا صرف اسلام کے نظام خلافت میں ہے جہاں دریا کے کنارے ایک کتا بھی ناگہاں مرجائے تو خلیفہ ذمہ دار ہے۔
اس بدترین نظام کی معراج وہ نجکاری ہے بجلی کے شعبے میں جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبر کو اللہ ٹھنڈی رکھے جنہوں نے بجلی بنانے والی ان نجی کمپنیوں کو اہل وطن پر مسلط کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ نجی کمپنیاں بجلی بنائیں نہ بنائیں انکے منافعوں کا حصول یقینی رہے۔ انہوں نے ملک و قوم سے آئی پی پیز کی شکل میں کیسا انتقام لیا اس کا اندازہ اس شق سے کیجئے جس میں درج ہے:
’’اگر یہ پاور پلانٹ بند بھی رہیں گے تو پھر بھی ان کے مالکان کو قوم کی جیب سے ادائیگیاں کی جائیں گی۔‘‘
سرمایہ دارانہ نظام کے ان پیروکاروں کے لیے نجکاری کس قدر مقدس ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وزیر بجلی عابد شیر علی نے جیسے یہ کہا کہ کے الیکٹرک کو ٹیک اوور کرلیا جائے گا تو خواجہ آصف نے ان کی تردید کرتے ہوئے فوراً کہا ایسا کوئی منصوبہ زیرغور نہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حکومت اتنی کمزور ہے کہ ایک کمپنی سے نہ نمٹ سکے۔ بلکہ اس کی وجہ حکمرانوں کے مالی مفادات ہیں۔ جن اندھیروں سے لڑتے ہوئے آج پورے ملک کے عوام چیخ رہے ہیں کراچی میں لوگ جان ہاررہے ہیں وہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا نوازشریف شمار نہیں کیا جاسکتا کہ ان اندھیروں نے سرکاری اہلکاروں اور حکمران طبقے کے کتنے محلات روشن کیے ہیں جن کا سلسلہ پاکستان کے شہروں سے لے کر دبئی، لندن اور واشنگٹن تک پھیلا ہوا ہے۔ ہم درندوں کے بیچ گھرے ہوئے لوگ ہیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment