قہقہہ بار بات کرنے میں بچوں کا جواب نہیں۔ آپ افسردہ ہوں بچے آپ کو ہنسنے پر مجبور کردیں گے۔ رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آپ کے اردگرد رقصاں ہوجائیں گی۔ جگنوؤں اور تتلیوں کے تعاقب کا دوسرا نام بچپن ہے۔ ایک چینی شاعر کا بچہ فوت ہوگیا۔ اس نے اپنے بچے کا ایک سطری مرثیہ لکھا: ’’وہ آج تتلیوں کے تعاقب میں دور نکل گیا ہے‘‘۔ لیکن ہمارے بچوں کی آنکھوں میں نہ خوابوں کے جگنو ہیں اور نہ خواہشوں کی تتلیاں۔ ان کی آنکھوں میں بھوک کی آگ اور حسرتوں کی راکھ ہے۔ بچوں کی اکثریت تعلیم سے دور ہے۔ جو اسکول جاتے ہیں ان کی کتابوں سے علم کی خوشبو آتی ہے اور نہ ان کے یونیفارم دھنک کے رنگوں سے آراستہ ہوتے ہیں۔ یہ بچے پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ بدترین عمارتوں میں سہی تعلیم حاصل کررہے ہیں ورنہ کہیں بچے اپنے قد سے بڑی جھاڑو اٹھائے صفائی کررہے ہیں۔ بھاری بھرکم ہتھوڑے چلا رہے ہیں۔ میلی کچیلی حالت میں پنکچر لگارہے ہیں۔ یہ بچوں کے قتل عام کے مترادف ہے۔
قتل طفلاں کی منادی ہورہی ہے شہر میں
ماں مجھے بھی مثل موسی تو بہادے نہر میں
1960ء کی دہائی میں ریڈیو سے ایک گیت نشر ہوتا تھا: ’’ننھے بچے تیری مٹھی میں کیا ہے‘‘۔ بچے کورس میں جواب دیتے ’’مٹھی میں ہے تقدیر ہماری‘‘۔ آج ہمارے بچوں کی تقدیر دہشتگردوں کی مٹھی میں ہے۔ پہلے دہشت گرد دھمکیوں سے اسکول بند کراتے تھے پھر اسکولوں کو دھماکوں سے اڑانے لگے اور اب نوبت اسکول کے بچوں کے قتل عام تک آگئی ہے۔ ہمارے بچے پہلے ہی ہمارے رویوں کی سفاکیوں اور ہولناکیوں کی بدترین مثال ہیں لیکن یہ قتل عام ہمارے حال کا ہی نہیں مستقبل کا بھی قتل ہے۔سانحہ پشاور میں جس سفاکی اور درندگی کا اظہار کیا گیا مہینہ ہونے کو آرہا ہے معاشرہ آج بھی چیخوں میں جی رہا ہے۔ فوجی عدالتیں ان ہی چیخوں اور صدموں کا ردعمل ہیں۔ یہ قدم عظیم تر جمہوریت کی جانب پیش قدمی ہے یا اس کے منافی۔ جمہوریت جائے بھاڑ میں۔ کوئی بھی معاشرہ اپنے مجرموں سے رعایت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ تذبذب کا شکار ہمارے اہل سیاست خطرناک مجرموں کے مقدمات تیزی سے نمٹانے کے لئے آئین میں ترامیم کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ یہ قانون یقینا حالات کا جبر ہے جس پر تحفظات کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہا ہے۔ لاہور میں سات سالہ بچے کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کے ملزم کو بھی فوجی عدالت میں پیش کیا جائے گا یا اس سڑے ہوئے متعفن عدالتی نظام کے سپرد کردیا جائے گا۔ فوجی عدالتوں کے مقابل جس کی اصلاح پر زور دیا جارہا ہے۔ کہا جارہاہے کہ حکومت کو جنگی بنیادوں پر قانون فوجداری ’criminal law‘ کی اصلاح کرنی چاہئے جو کہ انگریزوں کے زمانے کا قانون ہے۔ اصل مسئلہ فوجداری نظام کا نااہل اور بدعنوان ہونا ہے جو ٹارگٹ کلرز، قاتلوں، دہشت گردوں اور مختلف مافیاز کی پناہ گاہ ہے۔ فوجداری عدالتوں سے کچھ زیادہ حاصل نہ ہوگا۔ مسئلہ کا مستقل حل موجودہ نظام انصاف کی اصلاح ہے اور فوجداری نظام کا تسلسل ہے۔
بات یہ ہے کہ مخصوص حالات میں خصوصی قوانین کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ خصوصی قوانین وجہ ہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ خصوصی قوانین کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپ میں پہلے سے موجود مغربی نظام انصاف بھی (جو انگریز کے زمانے سے ہمارے ہاں بھی رائج ہے اور جس کی اصلاح پر زور دیا جارہا ہے) پوری طاقت اور شدت سے بروئے کار ہے۔ لیکن اس کے باوجود دوکروڑ جرائم کے ساتھ امریکہ دنیا بھر میں جرائم میں سرفہرست ہے اور برطانیہ دوسرے نمبر پر۔ امریکہ میں عصمت دری کے سالانہ ایک لاکھ واقعات ہوتے ہیں جبکہ قتل پانچ ہزار فی لاکھ اور برطانیہ میں چار ہزار فی لاکھ۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں رائج موجودہ مغربی نظام انصاف کی کوکھ سے جرائم کے خاتمے کے لئے جنم لینے والے قوانین خصوصی ہو یا عمومی یہ انسانیت کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتے۔ مداوا اسلام کے پاس ہے۔ سعودی عرب میں اسلام کے صرف تعزیری قوانین نافذ ہیں۔ امریکہ کے ایک لاکھ کے مقابلے میں عصمت دری کے واقعات محض بارہ اور قتل کے واقعات لاکھ میں صرف ایک۔ اسلام کا نظام انصاف اور تعزیری قوانین انسانی نفسیات کے مطابق ہیں۔ ان قوانین میں ایسا نہیں ہے کہ قتل اور دہشت گردی کے مجرموں سے خصوصی قوانین اور خصوصی عدالتوں کے ذریعے نمٹتے ہوئے فیملی لاز، امن عامہ اور دیگر سماجی پہلوؤں کو نہ صرف نظر انداز کردیا جائے بلکہ ان کی طرف دیکھا ہی نہ جائے۔ اسلامی شریعت ایک کُل ہے۔ جس میں اجزاء کو الگ الگ نہیں دیکھا جاتا۔ اسلام لوگوں کو سزا دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ سزاؤں کے اس خوف سے کام لیتا ہے جو خلق کو جرائم سے روکتی ہے۔
امریکی صحافیوں کا ایک وفد سعودی عرب کے دورے پر آیا۔ وفد کے اراکین نے سعودی عرب میں رائج سخت سزاؤں سے متعلق شاہ فیصل شہید سے دریافت کیا اور انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ شاہ فیصل نے جواب دیا: ’’آپ وفد میں موجود خواتین کے ہمراہ شہر کی گولڈ مارکیٹ چلے جائیں اور جس قدر زیورات چاہے خریدیں۔ ادائیگی میں کروں گا۔ اسکے بعد وہ زیورات پہن کر آپ سعودی عرب کے بازاروں گلیوں اور شاہراہوں پر آزادانہ گھومیں۔ ان زیورات کی طرف کوئی آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھے گا۔ دودن بعد آپ واپس امریکہ جارہے ہیں کیا وہ زیورات پہن کر آپ امریکہ میں بلاخوف و خطر ایئر پورٹ سے اپنے گھر جاسکتے ہیں۔ تمام صحافی خاموشی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ جانتے تھے کہ ایسی صورت میں گھر تو درکنار وہ ایئر پورٹ سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔
پاکستان کو دہشت گردی اور امن و امان کی بدترین صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایک قابل عمل اور مستقل حل کی ضرورت ہے۔ یہ حل نہ خصوصی عدالتوں اور خصوصی قوانین کے پاس ہے اور نہ رائج نظام انصاف کے پاس۔ حل صرف اور صرف اسلامی قوانین کے اطلاق میں پوشیدہ ہے۔ ورنہ بچوں کے حوالے سے آپ کا مستقبل بھی قتل ہوتا رہے گا اور حال بھی دہشت گردی قتل بدامنی اور فتنوں کا شکار رہے گا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment