Monday, August 18, 2014

امریکہ اسرائیل صیہونی وحدت

تو کیا اس اعتراف کے بعد بھی کسی تبصرے یا تجزیے کی ضرورت باقی رہتی ہے جواسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ہلیری کلنٹن کی یروشلم آمد کے موقع پر کیا۔ نیتن یاہو نے کہا: ’’میں جانتا ہوں عام شہریوں پر حملے کے حوالے سے آپ بہت فکرمند ہیں۔ درحقیقت ہم اسکولوں مساجد اسپتالوں عورتوں اور بچوں پر محتاط حملے کررہے ہیں۔ اسکے علاوہ ہم جو کچھ کرنے جارہے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ عام لوگوں کا قتل ہے۔ ہم ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔
میں جانتا ہوں آپ سمجھ رہی ہو اور اگر نہیں سمجھ رہی ہو تو یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ میں سمجھاؤں امریکیوں کو، صدر اوبامہ کو، ہیلری کلنٹن آپ کو اور ساری عالمی کمیونٹی کو‘‘۔اس اعتراف سے غزہ میں متشکل نفرت اور ظلم کی اس عظیم لہر کے پس پردہ کارفرما سوچ کا سراغ ملتا ہے اہل فلسطین جس کا ہدف ہیں۔ خصوصا عورتیں اور بچے۔ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم اس فکر و عمل میں تنہا نہیں ہیں۔ ایک سابق اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے کہا تھا کہ: ’’میں نے اس خطے میں پیدا ہونے ہر بچے کو جو فلسطینی ہو جلاکر راکھ کردینے کا عہد کیا ہے۔ یہ بچے اور عورتیں ہمارے لئے زیادہ خطرہ ہیں کیونکہ ان کاباقی رہنا یہ مطلب رکھتا ہے کہ ہم آئندہ فلسطینی نسلوں کا تسلسل چاہتے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کی ان ہلاکت خیزیوں میں امریکہ اسرائیل  کے ساتھ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صیہونیوں نے امریکہ کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ غلط ہے۔ امریکہ اور اسرائیل دراصل ایک صیہونی وحدت ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے کہا تھا :’’میں بائبل کے دینی علوم کا ماہر ہوں اور اپنی بصیرت کی بناء پر کہتا ہوں کہ اسرائیل کا قیام بائبل کی پیش گوئی کی تکمیل ہے‘‘۔ صدر ریگن ہر ہفتے واشنگٹن میں واقع ایک یہودی صومعہ میں عبادت کے لئے حاضری دیتے تھے جہاں اسرائیل کے لئے مزید زمین کے حصول کی دعا کی جاتی ہے۔ صدر کلنٹن نے خواہش ظاہرکی تھی کہ وہ مورچہ لگا کر رائفل سے اسرائیل کے دفاع کے لئے لڑنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوہزار سال کی دربدری کے تلخ تجربات اور شدید جانی اور مالی نقصانات کے بعد یہودیوں کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ان کی بقاء اور پناہ اسرائیل ہے جسے وہ زیادہ سے زیادہ مضبوط دیکھنا اور وسعت دینا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی پارلیمنٹ Kenesee کے ہال میں یہ جملہ تحریر ہے: ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے نیل سے فرات تک ہیں‘‘۔ امریکہ اور مغرب کے ساتھ ساتھ  اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقوام عالم کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیل کی جارحیت اور توسیع پسندی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے یروشلم میں جاکر جس طرح اسرائیلی موقف کی تائید کی ہے علامہ اقبالؒ یاد آگئے۔ لیگ آف نیشنز کے بارے میں کہے گئے ان کے الفاظ آج اقوام متحدہ پر صادق آتے ہیں کہ: ’’میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کہ چند کفن چوروں نے مل کر ایک انجمن بنائی ہے تاکہ قبریں آپس میں تقسیم کریں‘‘۔
ایک طرف عالم مسیحیت اور یہودیت کا یہ اتفاق اور اتحاد ہے دوسری طرف عالم اسلام ہے جو اپنی غربت اولی میں ہے مسلمانوں پر دنیا تاریک ہے وہ روشنی کے منتظر ہیں لیکن حال یہ ہے کہ نوسونوے فی ہزاراسلام کی حقیقت ، اس کی تاریخ، تہذیب اور وجود کی شناخت رکھتے ہیں نہ حق و باطل کی تمیز سے آشنا ہیں اور نہ اپنے معاشرے کو مستحکم کرسکتے ہیں۔ کس طرح مسلمانوں کو ان کا اصل مقام واپس حاصل ہو۔ اس مقصد کے لئے مسلم امہ کی بات کی جاتی ہے تاریخی شعور کے تحت ان تیرہ صدیوں کی بات کی جاتی ہے جس دوران باہمی اختلافات کے باوجود مسلم امہ دشمن کے مقابل یک جان قوت تھی اس کا سربراہ ایک خلیفہ ہوتا تھا جو اسلامی خلافت کے منفرد نظام کے تحت حکومت کرتا تھا 1924ء میں خلافت کے خاتمے کے بعد مسلمان چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کردیے گئے۔ ہر ملک ایک جغرافیائی اکائی۔ ہر ملک کے وسائل اس کی آبادی کا حق جنہیں وہ کسی دوسرے اسلامی ملک کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار نہیں۔ 57 اسلامی ممالک ہیں۔ ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں لیکن سب ایک دوسرے سے لاتعلق۔ عالم مسیحیت کے رحم و کرم پر۔ افغانستان سے  لے کر عراق تک، پاکستان سے لیکر فلسطین اور کشمیرتک شام سے لے کر چیچنیا تک اور بوسنیا سے لے کر میانمار تک کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں مسلمان مظالم کا شکار نہ ہوں۔ لیکن چند ہی ملک ہیں جہاں مسلمان دشمنوں کا نشانہ ہیں، اغیار کا ہدف ہیں ورنہ اکثر مقامات پر نہ امریکہ کی فوجیں ہیں نہ برطانیہ اور اسرائیل کی۔ مسلمان آپس میں خود ہی مسلک علاقے رنگ نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہیں اور داعش القاعدہ اور طالبان جیسی تنظیمیں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے ان کے گلے کاٹ رہی ہیں۔ استنبول میں ایک عالمی اسلامی کانفرنس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں روزانہ ایک ہزار مسلمانوں کو قتل کردیا جاتاہے اور ان کومارنے والے نوے فیصد قاتل خود مسلمان ہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری سے جون تک صرف چھ ماہ میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے باہمی جنگ و جدل میں پانچ ہزار پانچ سو76 افراد مارے  جاچکے ہیں۔ یہ ہلاکتیں سنی اہل تشیع اور دیگر گروپوں کے باہمی خون خرابے میں ہوئی۔ سوال یہ ہے مسلمان ان اختلافات کے باوجود ایک ہزار برس سے بھائیوں کی طرح رہتے آئے ہیں پھر یکایک ان اختلافات میں یہ شدت کیوں پیدا ہوگئی۔ جواب یہ ہے کہ دشمن ان اختلافات کو اپنی جنگی حکمت  کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ فرائیڈ مین نے لکھا تھا ’’ہم اسلام کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے۔ ہم اسلام کے اندر جنگ چاہتے ہیں‘‘۔ ایران کے مذہبی رہنما آیۃ اللہ خامنائی نے اس سازش کا ادراک کرتے ہوئے جو فتوی جاری کیا ہے وہی مسلمانوں کے اس خون ریز تصادم کا حل ہے۔ انہوں نے ایک فتوے میں صحابہ کرام خلفائے راشدین اور امہات المومنین کی توہین کو حرام قرار دیا ہے۔ لازم ہے کہ اس طرف سے بھی کفر کے فتووں کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی لگائی جائے۔ غیر مسلم شیعہ سنی میں تفریق نہیں کرتے وہ دونوں کو مسلمان سمجھتے ہیں اور یکساں شدت سے ختم کرنے کے درپے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کے مظالم جاری ہیں۔ اسرائیل کے پچھلے حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد اوسطاً فی حملہ دوہزار ہے ۔ اس سے زیادہ کی امریکہ اجازت نہیں دیتا۔ اس مرتبہ اموات پہلے سے زیادہ ہیں لیکن اسلامی ممالک غیر اعلانیہ طور پر اسرائیل کے ہاتھوں کو بوسہ دے رہے ہیں حماس کی تباہی پر کئی عظیم عرب ملک خوش بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے معاون ہیں۔ مسلمانوں پر جو حکمران مسلط ہیں وہ دشمنوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور ان سے احکامات وصول کرتے ہیں۔ شام فلسطین عراق کشمیر افغانستان اوردنیا بھر سے بلند ہوتی مسلمانوں کی چیخیں انہیں سنائی نہیں دیتیں۔ ایک طرف دشمن مسلمانوں پر پہاڑ جیسے مظالم ڈھارہے ہیں تو دوسری طرف یہ حکمران مکالمے رواداری اور وسعت قلبی کے دیوتا بننے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ ایک کمزور آدمی کی رواداری کوئی معنی نہیں رکھتی قوت کے بغیر اسلام محض ایک فلسفہ ہے۔ آج امت مسلمہ کی افواج کی تعداد ساٹھ لاکھ سے بھی زائد ہے جو ٹینکوں جنگی جہازوں بحری جہازوں اور ایٹمی صلاحیت سے لیس ہے لیکن اتحاد کی عدم موجودگی اور ان حکمرانوں کی موجودگی کی بدولت راکھ کا ڈھیر ہے غزہ کے شہیدوں زخمیوں بے عزت کی گئی عورتوں اور یتیم بچوں کی چیخوں کا جواب نیٹو کی طرز پر تمام مسلمان ملکوں کی مشترکہ فوج ہے جو ایک جھنڈے اور ایک حکومت تلے دشمن سے برسر پیکار ہو۔ اسلام کے اندر برپا کی گئی اس جنگ کا اگر کوئی بچاؤ اسلام کے پاس ہے تو صرف اس کا حقیقی اتحادِ اسلامی ہے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment