ٹرین میں میرے برابر ایک ہٹیلا سا آدمی بیٹھا ہوا تھا وہ بڑے جوش سے موبائل فون پر کسی سے باتیں کررہا تھا ’’اگر یہی طریقے رہے تو یہ حکومت زیادہ دن نہیں چلے گی۔ الیکشن کے دوران ہم نے ان پر پیسہ اس لئے لگایا تھا کہ وہ اسمبلی میں جاکر ہمارے حق میں قانون سازی کریں گے۔ وہی قوانین بنائیں گے جن میں سرمایہ لگانے والوں کا فائدہ ہو۔ آج نہیں تو کل اسمبلی کو ہمارا مطالبہ ماننا ہی پڑے گا۔ انہیں سورج پر پابندی لگانا ہی ہوگی ‘‘۔ جب وہ شخص بات ختم کرچکا تومیں نے پوچھا’’ یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ سورج پر پابندی! کیا مطلب ہے اس کا؟‘‘۔ وہ شخص اسی طرح جوش سے بولا ’’میں ملک بھر میں پھیلے ان ہزاروں کارخانوں اور سرمایہ داروں کا نمائندہ ہوں جہاں موم بتیاں بنتی ہیں۔ سورج کی روشنی کی وجہ سے ان کارخانوں کی پیداوار آدھی سے بھی کم ہے اگر حکومت سورج پر پابندی لگادے دن میں بھی اندھیرا تو سوچو کتنی موم بتیاں فروخت ہوں گی۔ موجودہ کارخانوں کی پیداوار دگنی ہوجائے گی۔ کتنے نئے کارخانے لگیں گے کتنے لوگوں کو روزگار ملے گا‘‘۔
’’لیکن ان لوگوں کا بھی تو سوچو جو زبردستی موم بتیاں خریدنے پر مجبور ہونگے‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ غصے سے اسکا چہرہ سرخ ہوگیا وہ چیخا، بیوقوف تم بھی صارف کاسوچتے ہو۔ دفع ہوجاؤ۔ تمھارے جیسے لوگوں کی نئے سماج کو ضرورت نہیں۔
ٹرین گاؤں کے اسٹیشن پر رکی۔ دور دور تک کھیتوں اور باغات کا سلسلہ پھیلا ہواتھا۔ بعض کھیت ایسے لگ رہے تھے جیسے ان پر توجہ نہ دی گئی ہو۔ میں ذرا آگے بڑھا چند لوگ جو شکل سے ہی بدمعاش لگ رہے تھے ایک شخص کو گھسیٹتے ہوئے لے جارہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر پوچھا:’’اس شخص کے ساتھ زبردستی کیوں کررہے ہو اس نے کیا کیا ہے؟‘‘ ایک بدمعاش نے میرے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا:’’جانتے ہو اس ذلیل نے کیا کیا ہے؟ حکومت نے سب لوگوں کو دیوار سے سرٹکرانے کے لئے کہا ہے۔ حکومت نے یقین دلایا ہے کہ اگر لوگ ذمہ داری سے دیوار پر سر مارتے رہے تو اس حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت کے اندر اندر یہ دیوار ٹوٹ جائے گی۔ لیکن اس حرامی کا کمینہ پن دیکھو یہ کہیں سے ایک سنگین لے آیا اور سنگین سے دیوار توڑنے لگا۔ اس کا گناہ ناقابل معافی ہے۔ حالانکہ چند مہینے پہلے ہی حکومت نے اسے تعریفی سند دی تھی۔ اس کی تبلیغ کی وجہ سے لوگوں میں مذہب کا رجحان پیدا ہوگیا ہے مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی ہے رمضان کا مہینہ بھی لوگ پورے مذہبی جوش و خروش سے منا رہے ہیں حکومت ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے مسئلہ جب پیدا ہوتا ہے جب یہ لوگ دنیا بھر میں بچھائی ہوئی ہماری بساط کو منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے نظام سے ٹکراتے ہیں پھر یہ لوگ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہوتے ہیں ورنہ مسجدیں بھری رہیں لاکھوں کے اجتماع ہوتے رہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں‘‘۔
میں آگے بڑھا بستی کے کنارے پر ایک چھوٹا سا مکان لوگوں کی توہ کا مرکز بناہوا تھا۔ گھر کے باہر بہت سے لوگ جمع تھے وہ ایک دوسرے سے دبے لفظوں میں باتیں کررہے تھے۔ ان کے لہجوں میں نفرت اورغصہ عیاں تھا۔ ’’رحیم داد کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا‘‘۔ ایک شخص نے تاسف سے کہا دوسرے نے کہا: ’’چند دن پہلے ہی میں نے اسے سمجھایا تھا کہ دیکھو رحیم داد ایسا مت کرو لیکن وہ کسی کی بات سنتا ہے جو میری بات سنتا‘‘۔ آوازیں رفتہ رفتہ تیز ہوتی جارہی تھیں۔ وہ ایک دوسرے کو بھڑکارہے تھے۔ ایک شخص غصے اور جھنجھلاہٹ سے چیخا :’’اچھا ہوا وہ اسے اٹھا کر لے گئے جہنم میں جائے‘‘۔ ایک اور شخص پان جسکے دانت کھاگئے تھے نفرت سے بولا :’’میں نے اسے کہا تھا کہ دیکھو کمپنی والوں کے کہنے پر ہم نے پچھلے سال پوری فصل برباد کردی تھی پھربھی کمپنی والوں نے ہمیں کتنا اچھا معاوضہ دیا کمپنی والوں کو ناراض نہیں کرنا چاہئے ورنہ سب بھوکے مرجائیں گے‘‘۔ ان کی آوازیں شور میں تبدیل ہوتی جارہی تھیں کہ ایک جھٹکے سے مکان کا دروازہ کھلا اور ایک عورت چیختی ہوئی باہر نکلی ’’دفع ہوجاؤ یہاں سے ۔ تم سب یہاں کیوں کھڑے ہو۔ تم سب وہ کتے ہو جو پہلے بھیڑیے تھے میراشوہر تم سب سے اچھا کاشتکار ہے وہ ایک کامیاب کاشتکار ہے۔ وہ تم لوگوں کی طرح کمپنی والوں کی خوشامد نہیں کرتا تھا۔ وہ چاپلوس نہیں تھا وہ اول و آخر ایک کاشتکار تھا جو بھرپور فصل اگانے پر یقین رکھتا تھا‘‘۔
مجمع رفتہ رفتہ چھٹنے لگا۔ آخر میں وہ عورت اکیلی رہ گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ بے حال ہورہی تھی۔ میں نے پوچھا ’’معاف کیجئے گا کیا ہوگیا آپ کے شوہر نے کیا جرم کیا تھا کہ وہ کمپنی جو پوری دنیا میں کاروبار کررہی ہے آپ کے شوہر کو اٹھا کر لے گئی۔ عورت نے آنکھیں اوپر کو اٹھائیں بولی: ’’وہ میرا شوہر ہے مجھے معلوم تھا یک دن ایسا ہی ہوگا۔ کل رات وہ دروازہ توڑ کر گھر کے اندر داخل ہوئے اس پر بے پناہ تشدد کیا اور پھر بے دردی سے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے‘‘۔ ’’لیکن آپ کے شوہر نے ایسا کیاکیا تھا وہ کیوں آپ کے شوہر کو اٹھا کر لے گئے‘‘۔ عورت غصے سے بولی:’’آپ کو معلوم ہے گندم کی کاشت پندرہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے قبضہ قدرت میں ہے جو اپنا نوے فیصد سے زیادہ منافع برقرار رکھنے کے لئے گندم کی پیداوار میں کمی چاہتے ہیں۔ میرے شوہر کا جرم یہ تھا کہ وہ ہرسال گندم کی شاندار فصل اگاتا اور بازار میں جاکر کم قیمت پر بیچ دیتا۔ میرے شوہر کے اس عمل سے گندم کی قلت کاخاتمہ اور قیمتوں میں کمی آتی جارہی تھی۔ اتنا بڑا جرم کیسے معاف کیا جاسکتا تھا‘‘۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment