مجھ سے میری کمائی کا سرِ شام
پائی پائی حساب لیجیے گا
جون ایلیاکا واسطہ اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس سے نہیں پڑا تھا وگرنہ ایسی آرزو نہ کرتے۔ پائی پائی حساب دینے میں جسم و جاں پر کیا گزرتی ہے کوئی الطاف بھائی سے پوچھے۔ معاملہ بھی جب منی لانڈرنگ کا ہو۔ عمر ساٹھ سال، بندہ قائد تحریک اور اپنی خوبیوں اور خامیوں کا بنفس نفیس خود ہی ذمہ دار ہو تو عادت پختہ ہوجاتی ہیں۔ الطاف بھائی بڑی گھن گرج اور بھاری بھرکم لہجے میں خطاب کرتے ہیں اور اب تو 140 کلو وزنی بھی ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی پختہ عادت سے متعلق اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس کو یہ نہیں سمجھا پارہے ہیں کہ
شوق کااک بجار ہوں میں تو
تم کبھی بھی مجھے سدھائیو مت
جن کی اردو ’’ویک‘‘ ہے بجار کا لفظ ان کے لئے شعر سمجھنے میں مانع ہوسکتا ہے۔ ویسے تو عصمت چغتائی نے بھی ایک جگہ خود کو بجار کہا ہے لیکن بجار موٹے تازے بیل یا سانڈکو کہتے ہیں۔ شعر کی خوبی یہ ہے کہ ’’شوق‘‘ کی جگہ ’’بھتے‘‘ لکھ کر پڑھئے شعر پھر بھی باوزن رہتا ہے بلکہ الطاف بھائی کے معاملے میں زیادہ بامعنی ہوجاتا ہے۔
بھتے کااک بجار ہوں میں تو
تم کبھی بھی مجھے سدھائیو مت
کئی دن کی حراست کے بعد بالآخر الطاف بھائی سے انٹرویو یا تفتیشی بیان لینے کا مرحلہ آہی گیا۔ انٹرویو سے بچنے کے لئے الطاف بھائی نے عباسی شہید اسپتال میں جالیٹنے کی پرانی ترکیب آزمائی جو زیادہ دیر مؤثر نہ ہوسکی۔ لیڈی ولنگٹن اسپتال میں بھائی کی اچھی طرح مہمان داریاں کی گئیں یہ الگ بات کہ بھائی کا وسیع و عریض سوجا ہوا بدن اسے محسوس کرپایا یانہیں۔
پائے جانانہ کی مہماں داریاں
اور مجھ دل کی بدن آزاریاں
کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ ہم نے گھبراکر جون ایلیا کا مجموعہ کلام ایک طرف رکھ دیا۔ ہر شعر الطاف بھائی پر منطبق یا فٹ بیٹھ رہا تھا۔ کاغذ قلم رکھ کر ہم نے یوگا شروع کردی۔ آدھا گھنٹے سر کے بل کھڑے رہے۔ اس کے بعد اپنے فلیٹ کی گیلری میں آکر کھڑے ہوئے آمنے سامنے فلیٹوں کی طویل قطار کے درمیان سڑک لیٹی ہوئی تھی۔ جو سڑک کم فلیٹ والوں کے صحن کی حیثیت زیادہ رکھتی ہے ہلکی پھلکی ٹریفک بھی چل رہی ہے۔ کرکٹ بھی کھیلی جارہی ہے اور فلیٹوں کے نیچے دکانیں بھی کھلی ہیں۔ دیر تک سر کے بل کھڑا رہنے سے ہم کچھ چکرا سے رہے تھے۔ سڑک پر دیکھا لڑکیاں کرکٹ کھیل رہی تھیں۔ لڑکے دور کھڑے بڑے احترام سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ رنز لینے کے دوران کسی لڑکی کا دوپٹہ سر سے سرک جاتا تو لڑکے فوراً نظریں نیچی کرلیتے۔ سڑک پر ایک نوجوان پینتیس چالیس ہزار کا موبائل ہاتھ میں لیے کال سنتا جارہا تھا۔ ارشد لنگڑا اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ نوجوان کا موبائل گیا سوگیا۔ ایسا ہی ہوا۔ نوجوان ارشد لنگڑا کے قریب سے گزرا۔ ارشد لنگڑا نے موبائل اسکے ہاتھ سے لیا اور پوچھا ’’نیا لیا ہے‘‘ نوجوان نے جواب دیا ’’ابھی چند ہی روز ہوئے ہیں‘‘ ارشد لنگڑا نے موبائل اسے واپس کرتے ہوئے کہا ’’دعا کرو یار اپنی بھی نوکری لگ جائے رزق حلال کا بندوبست ہوجائے تو ہم بھی ایک اچھا سا موبائل خرید لیں‘‘۔ اس مکالمے کا ایک ایک لفظ ہم نے اچھی طرح سنا ہماری سماعت اور نظر تیز بلکہ بہت ہی تیز ہے۔ سکس ملین ڈالر مین اور وومین کی طرح۔ جس دن بھائی کو گرفتار کیا گیا ا س دن بھی ہم گیلری میں کھڑے تھے دکاندار تیزی سے دوکانیں بند کررہے تھے ایک دوکاندار خریدار عورت سے کہہ رہا تھا ’’بہن جلدی سے سودا لے لو مارکیٹ بند ہورہی ہے‘‘۔ عورت نے پوچھا ’’بھائی کیا ایم کیو ایم کے نامعلوم افراد دوکانیں بند کروارہے ہیں؟‘‘ دوکاندار بولا’’نہیں بہن ہرگز ایسی بات نہیں ہے ابھی ابھی خبر آئی ہے لندن میں الطاف بھائی کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ غم اور اذیت سے پورا شہر دھاڑیں مار مار کر رورہا ہے۔ لوگوں نے اپنے کام کاج چھوڑ دیے ہیں لیکن شاباش ہے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو جو پورے شہر میں پھیل گئے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر مزدوروں دوکانداروں اور ٹرانپورٹرز سے التجا کررہے ہیں کہ شہر کو بند نہ ہونے دیں۔ ٹرانسپورٹ چلتی اور دوکانیں کھلی رکھیں۔ روزگار بند کردو گے تو کھاؤ گے کہاں سے لیکن ہم لوگ اپنی خوشی سے اپنا روزگار بند کررہے ہیں۔ جلدی سے بتادیجئے آپ نے کیا لینا ہے؟‘‘۔ ’’بھائی پانچ کلو آٹا دے دیجیے‘‘ ’’بہن پہلے تو آپ آٹھ کلو لیا کرتی تھیں ویسے آپ کو بتادوں آٹا پچپن روپے کلو ہوگیا ہے‘‘ عورت نے بٹوے سے پیسے نکال کر گنے پھر بولی ’’پانچ نہیں چار کلو دے دو۔ میں ڈائٹنگ کررہی ہوں‘‘۔ ہم نے گھبراکر اس طرف سے نظریں ہٹالیں۔ یہ اگلے دن کی بات ہے آدھا گھنٹے سر کے بل کھڑا رہنے کے بعد ہم پھر گیلری میں کھڑے تھے۔ سامنے سے ام کیو ایم کا سیکٹر انچارج خالد کے ٹو آرہا تھا ہم نے پوچھا خالد بھائی کہو لندن سے الطاف بھائی کی کوئی خبر آئی۔ خالد کے ٹو نے جوش سے جواب دیا: ’’ہاں ہاں ابھی ابھی بابائے قوم الطاف بھائی نے قوم سے خطاب کیا ہے اور کہا ہے بھول جاؤ کہ میں ایم کیو ایم کا قائد تحریک ہوں مگر اتنا یاد رکھو کہ میں پاکستان کا شہری ہوں۔ پچھلے بیس برس سے حکومت پاکستان سے مطالبہ کررہاہوں کہ میرا پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کیا جائے۔ اب جب کہ میں ایک مقدمے میں زیر حراست ہوں لیڈی ولنگٹن اسپتال میں پڑا ہوں مجھے عباسی شہید اسپتال بہت یاد آرہا ہے‘‘۔ اس کے بعد بھائی نے لوگوں سے پوچھا:
ساٹھ کا سن ہو گیا، کئی من کا میں ہوگیا
کیا میری فصل ہوچکی، کیا میرے دن گزرگئے
لوگوں نے چیخ چیخ کر جواب دیا نہیں بھائی بھائی نہیں، ابھی آپ کو دوچار برس اور زندہ رہنا ہےہم نے خالد کے ٹو سے پوچھا نواز حکومت نے بھی تو اس معاملئے میں حکومت برطانیہ سے رابطہ کیا ہے حکومت برطانیہ نے کیا جواب دیا۔ کے ٹو بولا’’حکومت برطانیہ نے کہا ہے کہ ہم نے یہ ملک اپنے بچوں سے ادھار لے رکھا ہے۔ ہم اسے بھتے پر نہیں چلا سکتے‘‘۔ ہم نے پوچھا: ’’دھرنے کا سنائیے پیپلز پارٹی والے آرہے ہیں، حکومت ، اے این پی، تحریک انصاف سب ہی ایم کیو ایم سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں حالانکہ ماضی میں۔۔۔ کے ٹو ہماری بات کاٹ کر بولا: ’’یہ دنیا ٹھگوں کا دشت ہے بھیا‘‘ ہم نے کہا کیا مطلب؟ کے ٹو نے مزید کچھ کہے بغیر وہی بات پھر دہرادی ’’یہ دنیا ٹھگوں کا دشت ہے بھیا‘‘۔ ہم نے کہا چلیے چھوڑئے ان باتوں کو یہ بتائیے دھرنے کا کیا نتیجہ نکلے گا کے ٹو بولا۔ دھرنے کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ جب دھرنا دینے والے دھرنا ختم کریں گے تو اپنے پیچھے اتنا کچرا چھوڑ جائیں گے کہ صفائی کرنے والا عملہ کملا ہوجائے گا۔
ہمیں چکر محسوس ہورہے تھے۔ آدھا گھنٹے سر کے بل کھڑے ہونے کا اثر تھا کہ سب کچھ الٹا چلتا نظر آرہا تھا یا پھر سیدھا یا پھر جیسا چیزوں کو ہونا چاہئے۔ ہم واپس کمرے میں آئے ٹی وی کھولا تو ایک ٹاک شو میں بجٹ تقریر چل رہی تھی۔ بجٹ کے ضمن میں پاکستانی شہری کئی دہائیوں سے ایک ٹانگ سے کھڑے ہیں اور گزشتہ چھ جمہوری برسوں سے محض پاؤں کے ایک انگوٹھے پر۔ ہم نے بجٹ کا تجزیہ سنا اور ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر جمہوری معاشی مراقبے میں چلے گئے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
writting samajh main nahi aa rahi
ReplyDelete