کئی دن پہلے گرمی کا ایسا ہی جلتا بھنتا دن تھاکہ سرشام گردوغبار سے بھری ہوئی آندھی آئی اور موسم یک دم ٹھنڈا ہوگیا۔ جب آندھی آتی ہے تو خاک دھول پھانکنے کی مصیبت کے سوا کچھ محسوس نہیں ہوتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ آندھیاں زمین پر موسم کی سختی کو کنٹرول کرنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہیں۔ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ سخت گرمی کے دنوں میں بھی ریگستان کی تپتی ہوئی سطح اس وقت ٹھنڈی ہوجاتی ہے جب گرد سے بھری ہوئی آندھیاں چلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ آندھی کی اس افادیت پر غور کیا تو خیال آیا کہ کاش اے کاش وطن عزیز میں بھی دکھوں، مصائب اور ماورائے آئین و قانون کے جو جھکڑ چل رہے ہیں آندھیاں اٹھ رہی ہیں ان کے بطن سے ایسا ماحول پیدا ہو ایسی آندھیاں جنم لیں کہ گرمیٔ شب و روز میں کمی آجائے، سختیاں سہتے ہوئے لوگوں کے رات دن ہلکے ہوجائیں، ظلم کے اس نظام کا خاتمہ ہو، سماج بدل جائے۔
اک دائرے کی مثل جو چلتے تھے رات دن
ان کو ملے گا اک نیا مرکز کہ جس میں ہو
آزاد ان کی زندگی محفوظ ان کی لاج
بدلے گا جب نظام تو پھر اس کے ساتھ ساتھ
بدلے گا یہ سماج
آزاد زندگی اور محفوظ لاج کی بات ہو تو وہ لوگ بے طرح یاد آتے ہیں جن کی لاج پامال کردی گئی جن کی آزادی ختم کردی گئی۔ جن کے گھروں سے انہیں دشمنوں نے نہیں اپنے ہی اداروں نے اٹھالیا۔ جن کے بیوی بچے بوڑھے والدین سڑکوں پر رلتے پھررہے ہیں، سسکیاں لیتے ہوئے احتجاج کررہے ہیں لیکن کہیں شنوائی نہیں۔ الٹا مزید ظلم کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے ان لواحقین کو اس احتجاج سے باز رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کسی بھی مہذب سماج میں جو قانونی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو ایک ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب وہ ڈی چوک پر بینر اٹھائے احتجاج کررہے تھے۔ بینروں پر لاپتہ افراد کی تصویر چسپاں تھیں اور نام لکھے تھے شاید متعلقہ اداروں کو احساس ہوجائے کہ اٹھائے گئے افراد بھی انسان ہیں جو نام بھی رکھتے ہیں اور ایک پہچان بھی۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج جاری تھا کہ پولیس ان پر ٹوٹ پڑی لاٹھی چارج اور شیلنگ۔ خواتین کے بال نوچے گئے اور گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈال دیا گیا۔ تشدد اور شیلنگ سے کئی لواحقین بیہوش۔ محترمہ آمنہ مسعود جنجوعہ سمیت کئی گرفتار۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ ان تمام افراد کو رہا کردیا جائے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ مقدمہ چلایا جائے۔ اگر وہ کسی جرم میں ملوث ہیں تو سزا دی جائے اور اگر وہ بے گناہ ہیں تو رہا کیا جائے۔متعلقہ ادارے اس ڈریگن کی پشت پر سوار ہیں جو نفرت کے شعلے اگلتا ہے۔ جن میں آئین اور قانون کی انصاف مہیا کرنے والی شقیں جل کر بھسم ہوجاتی ہیں۔ ان خفیہ اداروں میں اصلاحات کا نفاذ ناگزیر ہے لیکن کس کی ماں نے اتنا دودھ پلایا ہے کہ وہ ان اداروں کو پابند کرسکے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں، کوئی بھی خفیہ کاروائی غیر قانونی نہیں ہونی چاہئے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کے آنسوؤں کی آگ میں سماج جل رہا ہے لیکن آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے دنوں کراچی کے وسیع حلقوں میں اس وقت شدید اضطراب اور تشویش کی لہر وڑ گئی جب حزب التحریر کے ڈاکٹر اسماعیل شیخ کو اٹھالیا گیا۔ حزب التحریر پر امریکہ کی خواہش پر پاکستان میں پابندی ہے لیکن دنیا تسلیم کرتی ہے کہ حزب التحریر دنیا بھر میں دہشتگرد کاروائی تو درکنار ادنٰی درجے کی لاقانونیت میں بھی ملوث نہیں۔ یہ لوگ پوری دنیا میں اسلامی نظام خلافت کے احیاء کے لئے کام کرررہے ہیں۔ مغرب ان سے خوفزدہ ہے لیکن وہاں بھی یہ بات واضح طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک سیاسی جماعت ہے جو پرامن جدوجہد پر یقین ہی نہیں کرتی بلکہ تمام تر ظلم اور زیادتیوں کے باوجود پوری استقامت سے پرامن جدوجہد کے موقف پر قائم ہے۔ دنیا بھر کے اعلی تعلیم یافتہ افراد ڈاکٹر ، انجینئر اور دیگر ماہرین متقی پرہیزگار اور نیکوکار لوگ اس جماعت کے رکن ہیں۔ ڈاکٹر اسماعیل شیخ بھی ایسے ہی ایک فرد ہیں۔ آپ التمش ڈینٹل کالج کے وائس پرنسپل اور پاکستان ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے رکن ہیں۔ ذاتی کردار میں پرہیزگار، حلیم، متواضع اور انتہائی مطالعہ کرنے والے۔
جمہوریت ہو یا آمریت اس ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کی صورتحال یکساں ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں اگر ادارے ظلم ڈھارہے تھے تو آج بھی وہی حالات ہیں۔ پچھلے دنوں رضاکار خواتین نے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائی تو ان کی کمزور آواز کو بھی ظلم اور تشدد سے دبانے کی کوشش کی گئی۔ لاہور میں ایڈہاک نرسوں نے ملازمت مستقل کروانے کی جدوجہد کی تو پولیس ان پر ٹوٹ پڑی۔ نوازشریف جب وزارت عظمی کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے تو وہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی جدوجہد سے اتنے متاثر تھے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، انہوں نے ان افراد کی مالی امداد کی اور اقتدار میں آنے پر لاپتہ افراد کے مسئلہ کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن آج ان کے دور میں لاپتہ افراد کے لواحقین پر تشدد کیا جاتا ہے۔ انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن وزیراعظم نوازشریف لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کوشش کرنے کے بجائے گرفتار افراد کو محض رہا کرنے کے احکامات تک محدود رہتے ہیں۔ متعلقہ اداروں کے آگے وہ بھی بے بس نظر آتے ہیں یا پھر لاپتہ افراد سے متعلق ان کے سابقہ جذبات اور بیانات محض ڈرامہ تھے۔ پوری دل سوزی سے عرض کیا جارہا ہے کہ ہمارے دفاعی اور خفیہ اداروں نے اس ملک کی عظیم خدمات انجام دیں ہیں، بے پناہ قربانیاں دی ہیں لیکن لاپتہ افراد کے معاملے میں یہ ادارے بری طرح بدنام ہورہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں جنہیں اٹھالیا گیا ہے ان کی حقیقت کیا ہے، قوم کے سامنے لائی جائے، یہ لوگ ملک کے لئے خطرناک کیوں ہیں عدالتوں میں ثابت کیا جائے، پھر عدالتیں انہیں جو چاہے سزا دیں، کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ ہمارے خفیہ اداروں کو اصلاحات کی شدید ضرورت ہے کہ یہ ہمارے بہت ہی محترم ادارے ہیں لیکن آج وہ بد سے بدنام والی صورتحال کا شکار ہیں۔ حکومت کو ان لوگوں کا مسئلہ پہلی فرصت میں حل کرنا چاہئے جو ضایع کیے جارہے ہیں ورنہ متعلقین کے آنسوؤں کی آگ بہت کچھ خاکستر کردے گی۔
٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment