جس کے گھر والوں کو آج تک یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کہاں ہے سوائے اس کے کہ وہ زندہ ہے۔ جن لاپتہ افراد کے حوالے سے آنکھیں زخموں کی طرح تپکتی ہیں تحفظ پاکستان آرڈیننس ان عوام کو تحفظ دینے اور دہشتگردی پر قابو پانے کے بجائے سکیورٹی اداروں کے غیرقانونی اقدامات اور کاروائیوں کو تحفظ اور قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔
اعلی عدالتیں پچھلے کئی برسوں سے لاپتہ افراد کے معاملے میں جس طرح باربار حکومتی اہلکاروں کو طلب کررہی ہیں اور اٹھائے گئے لوگوں کو عدالتوں میں پیش کرنے پر اصرار کررہی ہیں ان اداروں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھاکہ ان کے غیر قانونی کاموں کو قانونی کور مہیا کیا جائے اور انہیں روزروز کی پیشیوں اور وضاحتوں سے نجات دلائی جائے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس حکومت کو ان ہی اداروں کا ڈکٹیٹ کردہ ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت اس حکم نامے پر اطلاق سے پہلے مسلح افواج یا نیم مسلح فورسز کے زیرحراست یا گرفتار افراد کو اس آرڈیننس کی شقوں کے تحت زیرحراست یا گرفتار تصور کیا جائے گا جن کے حراستی مقام کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی جائیں گی۔ اس آرڈیننس کے تحت دوران حراست کسی ملزم کی موت واقع ہونے پر متعلقہ سکیورٹی ادارے کو اس موت کی ذمہ داری سے مستثنی قرار دیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت دہشت گردی کے شبہہ میں گرفتار افراد کو مزید تین ماہ زیرحراست رکھا جاسکے گا۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کو کسی بھی شخص کو محض شک کی بنیاد پرگولی مارنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ آرڈیننس کی شق 9 کے تحت خصوصی عدالت جنگجو کے زمرے میں آنے والے کسی فرد یا افراد کو ملک کی شہریت سے محروم کرسکے گی۔
یہ قانون زندگی اور شہریوں کے فیئر ٹرائل کے حق کی نفی کرتا ہے۔ جو ادارے لوگوں کو گھر سے اٹھا کر لاپتہ کرنے، برسوں عدالت میں پیش نہ کرنے اور خود ہی تفتیش کرنے اور خود ہی سزا دینے کی شہرت رکھتے ہوں انہیں یہ اجازت دینا کہ وہ کسی بھی شخص کو بغیر الزام کے 90 روز حراست میں رکھ سکتے ہیں اور تشدد کے ذریعے لئے گئے بیانات خصوصی عدالتوں میں تسلیم کیے جاسکتے اور سزا بھی ہوسکتی ہے پورے ملک میں شہریوں میں موجود عدم تحفظ اور بے چینی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ اس طرح کی شقیں انتقام کے لئے استعمال کی جائیں گی اور طرفہ ستم یہ کہ انہیں قانونی جواز بھی حاصل ہوگا۔ دوران تفتیش ملزم کی ہلاکت کا معاملہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکیورٹی ادارے آخر کونسا طرز تفتیش اختیار کریں گے جس سے کسی کی موت بھی واقع ہوجائے گی تب بھی یہ ادارے کسی گرفت سے بالاتر ہوں گے۔ کیا یہ قتل کی اجازت یا لائسنس ٹو کِل کے مترادف نہیں ہے۔ اس آرڈیننس میں مختلف جرائم کی کم سے کم سزائے قید دس سال مقرر کی گئی ہے، علیحدہ پولیس اسٹیشن قائم کئے جاسکیں گے، وفاقی عدالتیں بھی قائم کی جاسکتی ہیں اور مقدمات کی پیروی کے لئے وفاقی پروسیکیوٹر بھی تعینات کئے جائیں گے۔ خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں ہی کی جاسکے گی۔ جس ملک میں نچلے درجے کی عدالتوں کے اخراجات اٹھانا بھی عام آدمی کے لئے ممکن نہیں۔ ایسے کتنے ہیں جو سپریم کورٹ جانے کا بوجھ اٹھانے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ اس سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جوابی کاروائی میں گولی مارنے کا اختیار ہے لیکن اس قانون نے محض شک کی بنیاد پر لوگوں کو گولی ماردینے کے اختیار نے ان واقعات کی یاد تازہ کردی ہے جن میں بغیر جواز معصوم لوگوں کو گولی ماردی گئی۔
ٹارگٹ کلرز، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوروں اور دہشتگردوں سے لوگ اتنا ہی بیزار ہیں۔
ان موذیوں پہ قہرالہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو کم ہے
لوگ ان جرائم کے مرتکب افراد سے نجات کے طالب ہیں۔ اس لئے تحفظ پاکستان آرڈیننس کا ملک گیر سطح پر استقبال کئے جانا چاہئے تھا لیکن کیا وجہ ہے کہ اس قانون پر پورے ملک میں شدید اعتراضات کئے جارہے ہیں۔ نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اس قانون کی مخالفت میں سرگرم ہیں۔ سندھ میں قوم پرست جماعتیں دو مرتبہ شٹرڈاؤن ہڑتال کرواچکی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس بل پر شدید تنقید کی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ وہ حکومت کے پیش کردہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کا جائزہ لے گی اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہونے کی صورت میں اس سے متعلق فیصلہ دے سکتی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ قوانین اپنے نافذ کرنے والوں کے ہاتھوں میں آکر اچھے یا برے نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ عوام اگر دہشت گردوں سے نفرت کرتے ہیں تو وہ ان اداروں میں موجود کچھ افراد کے اس کردار کو بھی پسند نہیں کرتے جو ریاست کے اندر ریاست بنائے بیٹھے ہیں۔ جن کے اپنے طریقہ ہائے تفتیش اور اپنے ہی قوانین ہیں۔ باور کیا جارہا ہے تحفظ پاکستان آرڈیننس کا غلط استعمال اس ملک کو ایک بڑے عقوبت خانے میں تبدیل کردے گا۔ تحفط پاکستان آرڈیننس ایک خوبصورت نام ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین اپنے ظاہری خوشنمائیوں کے باوجود تاریکی کے جزائر ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف 1997ء کاایکٹ بھی موجود ہے، تحفظ آرڈیننس جس کی قدر تبدیل شدہ صورت ہے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس مجریہ 2013ء کو موثر بنانے کا دعوی بھی اس آرڈیننس کے ساتھ ملحق ہے لیکن لکھ رکھئے وہ نتائج برآمد نہیں ہونگے جن کی توقعات کی جارہی ہے۔ البتہ یہ قوانین ان زخموں میں مزید اضافے کا باعث ہونگے لاپتہ افراد کے حوالے سے جنہوں نے اس سماج کو بھوبل بنادیا ہے۔ لیکن یہ سماج اور اس کو تعمیر کرنے والے ابھی اپنے خواب ہارے نہیں ہیں۔ اس شخص کی طرح جس کا نام نوید بٹ ہے۔ آج سے دوسال قبل 11مئی 2012 کو جسے اس کے بچوں کے سامنے اغواء کرلیا گیا اور تاحال وہ ان کے اذیت خانوں میں مقید ہے جسے آج تک کسی عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا گیا۔ جس پر آج تک کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ اس کا جرم یہ ہے کہ وہ اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے امریکہ اور یورپ جیسے بدترین ناقدین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ جماعت پوری دنیا میں کہیں بھی معمولی سے معمولی قسم کی بھی تخریبی کاروائی میں ملوث نہیں۔ ایسے لاپتہ سب لوگوں کی یاد میں اوراس شخص کی یاد میں آنکھیں آج بھی دہکتی ہیں۔ دل ناکام ہے لیکن ناامید نہیں۔ وہ خواب ضرور پورے ہونگے جو اس شخص نے دیکھے ہیں۔ جن کی تعبیر اس ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment