ممتاز تجزیہ نگاروں کے مطابق اس تبدیل شدہ صورتحال میں مذاکرات کے متعلق سوچنا بھی ممکن نہیں۔ تحریک طالبان نے حکومت پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی کسی بھی کوشش کے وجود سے انکار کیا ہے۔ امیر کے انتخاب کیلئے منعقد کردہ طالبان مجلس شوری کے اجلاس میں چوہدری نثار اور بعض وزراء کی طرف سے دئے گئے ان بیانات پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ طالبان سے مذاکرات کے لئے وفد جانے والا تھا۔ اجلاس میں شرکاء ایک دوسرے سے وفد کے متعلق استفسار کرتے رہے۔ مولوی فضل اللہ کے پیش رو حکیم اللہ محسود کے امریکی ڈرونز کا شکار ہونے کے بعد پاکستان میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ حکومت کی جانب سے شدید غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے یہ تاثر دیا گیا کہ طالبان سے مذاکرات کا انعقاد یقینی تھاجسے امریکی حملے نے سبوتاژ کردیا۔ ماضی میں بھی امریکہ بارہا ایسا کرتا رہا ہے۔ پاکستان میں ایک طرف حکیم اللہ محسود کا سوگ منانے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ دوسری طرف حکومتی وزراء ایک دوسرے سے بڑھ کرامریکہ کے خلاف تندوتیز بیانات دینے لگے۔ خون کو خون سے نہ دھونے کا دعوی کیا گیا۔ امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کی بات کی گئی۔ امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا۔ ڈورن گرانے کا مظاہرہ کیا گیا۔ صرف یہی نہیں امریکہ دشمنی میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم اور ایک پیج پر اکھٹی ہوگئیں۔ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے درمیان فاصلے سمٹنے لگے۔ علماء کرام بھی متحرک ہوگئے۔ امریکہ کے مقابل پاکستان کے حکمران طبقے کی یہ ہمت اور جرات حیرت انگیز تھی۔ جہاں یہ خیال یقینی ہو کہ پاکستان میں کرسیٔ اقتدار پر بیٹھنا اسی وقت اور اس وقت تک ممکن ہے جب تک امریکہ کے اشارے پر چلا جائے۔ امریکہ سے محاذآرائی کا تصور بھی محال ہے جبکہ قوم کے ان نجات دہندوں کی پاکستانی عوام کے خون پسینے سے نچوڑی اور لوٹی ہوئی دولت بھی فرینک فرٹ، زیورخ، نیویارک اور لندن کے بینکوں میں جمع ہے۔ پاکستان کی معیشت جس کی سانس کی ڈور امریکہ اور امریکی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرضوں پر اٹکی ہوئی ہے ایسی چپقلش کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ پھر یہ ہنگامہ کیا ہے۔ یہ ایک ڈبل گیم اور cover up ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پاکستان میں طالبان سے مذاکرات کے خلاف نہیں ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ حکومت پاکستان تحریک طالبان سے مذاکرات کرے جو امریکی مفاد میں ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے پاکستان میں دو مکتبہ فکر موجود ہیں۔ ایک وہ جو مذاکرات کا حامی ہے اور دوسرا وہ جو شدید مخالف ہے۔ امریکہ نے پہلے بم دھماکوں اور خونریزی سے تذبذب کی اس فضا کو ختم کرنے کی کوشش کی جس میں اسے قابل ذکر کامیابی نہیں ہوئی لیکن حکیم اللہ محسود کے مارے جانے پر رائے عامہ میں یہ یقین کامل ہوگیا کہ امریکہ مذاکرات کا شدید مخالف ہے تب امریکہ سے نفرت کے ردعمل میں رائے عامہ مکمل طور پر مذاکرات کے حق میں ہموار ہوگئی۔ یہ امریکی ہنرکاری ہے کہ وہ پاکستان میں موجود امریکہ سے نفرت کو امریکہ ہی کے مفاد میں استعمال کررہا ہے۔ امریکہ نے مزید یہ کیا کہ پاکستان کے حکمران طبقے کو آگے بڑھایا۔ امریکی آشیرباد سے جس میں امریکہ سے نفرت کے اظہار کی دوڑ شروع ہوگئی۔ مختصراً یہ کہ اس مرحلے پر امریکہ عام تاثر کے برخلاف طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان نہ صرف مذاکرات چاہتا ہے بلکہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ان مذاکرات کی کامیابی کا بھی متمنی ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ امریکہ ایسا کیوں چاہتا ہے اور اس میں امریکہ کے کیا مفادات ہیں۔ اس کا جواب افغانستان کی صورتحال میں پوشیدہ ہے۔
امریکہ 2014ء میں افغانستان سے اپنے افواج کا نخلاء چاہتا ہے۔ زوال پذیر امریکی معیشت افغانستان میں فوجی اخراجات کی متحمل نہیں۔ دوسرے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کی مزاحمت کیلئے امریکہ کو ایشیاء پیسیفک میں اپنی فوجی صلاحیت میں اضافے کیلئے افواج کی ضرورت ہے۔ لیکن افغانستان سے افواج کے انخلاء سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ امریکہ افغانستان سے قبضہ ختم کررہا ہے گمراہ کن اور فریب پر مبنی ہے۔ افواج کے انخلاء سے افغانستان میں امریکی قبضہ ختم نہیں بلکہ محض قبضے کی صورت تبدیل ہورہی ہے۔ 38ہزار امریکی افواج کے انخلاء کے بعد بھی بلیک واٹر جیسے دیگر امریکی خفیہ سیکیورٹی فورسز کے ایک لاکھ اہلکار افغانستان اور پاکستان میں موجود رہیں گے۔ ان اہلکاروں کی واپسی کہیں زیرغور نہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں اس کے نو فوجی اڈے قائم ہوں۔ دس ہزار امریکی فوج مستقل افغانستان میں موجود رہیں اور وہ افغان قوانین سے بالاتر ہوں۔ کرزئی حکومت امریکہ کے ان تینوں مطالبات کو تسلیم کرچکی ہے لیکن امریکہ جانتا ہے کہ افغان طالبان کی تائید اور مرضی کے بغیر ایساعملاً ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہے۔ اگر پاکستان میں حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات منعقد ہوجاتے ہیں اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو ان مذاکرات کو مثال بناکر امریکہ افغان طالبان پر زور دے سکتا ہے کہ وہ بھی پاکستانی طالبان کی طرح کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر امریکی مطالبات پر پیش رفت کریں۔
پاکستان اور افغانستان میں اگرطالبان سے مذاکرات کامیاب رہتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا خطہ میں امریکی سیاسی حمایت اور مستقل موجودگی۔ اس صورت میں پورا خطہ امریکی مفادات کی گرفت میں ہوگا۔ اگر افغانستان میں امریکہ اور طالبان مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں اور پتے امریکہ کے ہاتھ سے نکلنے لگیں گے تو امریکہ پاکستان کے راستے افغان طالبان کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس صورت میں امریکہ پاکستان میں مداخلت کرتے ہوئے اپنے ایجنٹوں کی مدد سے پاکستان اور تحریک طالبان کے مذاکرات کو ناکام کرنے کے درپہ ہوسکتا ہے۔ ملک بھر میں بم دھماکے اور قتل و غارت گری کی مہم شرورع ہوجائے گی جس کا الزام پاکستانی طالبان پر آئے گا اور انہیں مطعون کیا جائے گا۔ یہ مطالبہ شدت اختیار کرجائے گا کہ طالبان سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے فوجی آپریشن۔ یوں رائے عامہ کی تائید سے امریکہ کے دیرینہ مطالبے کی تعمیل کرتے ہوئے پاکستان کے قبائلی اور دوسرے علاقوں میں آپریشن شروع ہوجائے گا۔ یہ صورتحال افغان طالبان کیلئے عسکری لحاظ سے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ اس صورت میں افغان طالبان امریکہ سے مذاکرات پر مجبور ہوکر اس کے مطالبات تسلیم کرلیں گے۔ یوں مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی دونوں صورتیں امریکہ کے مفاد میں ہیں۔
سرمایہ داریت مذاکرات کا جو تصور دیتی ہے اس میں کسی بھی فریق کو حق پر ہونے کے باوجود اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ مذاکرات کامیاب ہوں تب بھی امریکی موجودگی کی وجہ سے خطے میں امن ممکن نہیں۔ امریکہ کے افغانستان میں آنے سے پہلے خطے میں امن تھا آج بھی خطہ کا امن امریکہ کے جزوی انخلاء کے بجائے امریکہ کے مکمل انخلاء سے وابستہ ہے امریکہ کا مکمل انخلاء صرف اور صرف جہاد سے ممکن ہے نہ کہ مذاکرات سے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment