انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دنیا پر امریکی اثر اور دباؤ برقرار رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ اخلاقیات کے درس اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام سے امریکی پریشان نہیں ہوتے۔ دنیا بھر کے معاملات میں مداخلت کرنا ، بمباری کرنا اور انسانی خون بہانا اگر یہ سب امریکی سلامتی کیلئے ضروری ہوتو امریکی اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ اگر امریکی اس طرح کی باتوں کو اہمیت دیں تو ہتھیاروں کے استعمال اور دشمن پر قابو پانے کے ان کے مواقع نہایت محدود ہوکر نہ رہ جائیں گے۔ رہی عالمی رائے عامہ تو امریکی جانتے ہیں کہ دنیا اورظلم اور بربریت کے شکار امریکہ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے وائٹ ہاؤس کو خیرباد کہنے کے چند سال بعد اعتراف کیا تھا،’’ہم نے لبنان میں میرینز بھیجیں۔ آپ لبنان جائیں۔ شام یا اردن کی طرف رخ کریں آپ کو ریاست ہائے متحدہ کے خلاف نفرت کا طوفان نظر آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے وہاں بے تحاشہ گولہ باری کرکے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو بڑی بے رحمی اور بے دردی سے مارڈالا۔ متاثرین کی نظر میں ہم شیطان ہیں‘‘۔ نہ جانے کیوں ایسی حقیقتیں اقتدار سے الگ ہونے کے بعد نظر آتی ہیں یا پھر شاید یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ امریکی خداترسی کے عالمی پیمانوں سے آگاہ ہیں۔
امریکہ کوپاکستانی حکمرانوں سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ توقعات کا یہ میدان افغانستان ہے۔ جہاں تمام فریق پھنس گئے ہیں۔ امریکی اور مغربی فوجی حکمت کاروں سے پوچھا جائے کہ،’’افغان جنگ میں آپ کی توقعات کا کیا بنا؟‘‘۔ بیزاری سے ان کا جواب ہوگا ’’دفع کرو‘‘۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ایک دہائی سے یہ جنگ لڑرہے ہیں۔ اس پر دس ہزار ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہوچکے ہیں۔ اس بڑے پیمانے کے جنگی اخراجات نے امریکی معیشت کو کھوکلا کردیا ہے۔ میدان جنگ سے واپس جانے والے امریکی فوجیوں کی خودکشیاں جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں سے تجاوز کرچکی ہیں۔ پاگل خانوں میں داخل ہونے والے فوجی اس کے علاوہ ہیں۔ صدر کرزئی جو کبھی جمہوریت کے چیمپئن تھے اب حالت یہ ہے کہ صدر اوباما ان سے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اب ان کے پاس افغانستان چھوڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ واپسی کا یہ سفر کتنا بے توقیر ہے۔ چونتیس ہزار فوجیوں کا افغانستان سے انخلاء واشنگٹن کا عظیم دردسر ہے۔ سینکڑوں کھرب ڈالر کا فوجی سامان حفاظت سے امریکہ پہنچ جائے اس فکر میں وہ گھلے جارہے ہیں۔ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ پاکستان کی فوجی قیادت سے امریکہ کے معاملات طے پاچکے ہیں تاہم وزیراعظم نوازشریف سے بھی ان کی دلچسپی کا میدان یہی تھا۔کرزئی کے بعد وہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت چاہتے ہیں جو امریکہ اور مغرب سے متصادم نہ ہو۔ جو انخلاء کے بعد بھی دس ہزر امریکی فوجیوں اور نو فوجی اڈوں کی مزاحمت نہ کرے اور امریکی فوجیوں پر افغان قوانین لاگو نہ کرے تاکہ امریکہ بآسانی سینٹرل ایشیاء، چین، ایران اور پاکستان پر نظر رکھ سکے۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے پاکستان کا تعاون امریکی ضرورت ہے۔ پاکستان مضبوط پوزیشن میں ہے۔ لیکن اس مضبوط پوزیشن سے فائدہ اٹھانے کی کسی میں ہمت ہے نہ دماغ۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان سرمایہ دارانہ نظام کا شکار بھی ہے اور اس پر عمل پیرا بھی۔ جس کے استحصال کا مرکز و ماخذ واشنگٹن ہے۔ واشنگٹن جانتا ہے کہ ہم ان حکمرانوں کی جتنی بھی تذلیل کریں انہیں ہر صورت امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ 2002ء سے 2013ء کے دوران پاکستان کو امریکہ کی جانب سے25ارب91کروڑ ڈالر کی امداد مل چکی ہے۔ امریکی یہ امداد کیوں دیتے ہیں۔ ایک اعلی ترین امریکی عسکری اہلکار کا کہنا ہے کہ،’’ہم مختلف ممالک کو جو مدد فراہم کرتے ہیں یہی ہمارے لئے وہاں تک رسائی، امریکی افواج کو مطلوبہ علاقے تک پہنچانے اور وہاں رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اگر ہمارا امداد کا پروگرام ختم کردیا جائے تو دنیا پر ہمارا دباؤ اور اثر ختم ہوکر رہ جائے‘‘۔ یہ امداد کے عوض دباؤ ہے کہ آج ہم امریکی ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ یہ امداد بھاری شرح سود اور انتہائی تلخ شرائط پر دی جاتی ہے جو پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگی یا اسلحے کی خریداری کے حساب میں امریکہ اور سامراجی اداروں کو واپس چلی جاتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کے دورے سے کئی سالوں سے پاک امریکہ تعلقات پر منجمد برف پگھلی ہے اور تعلقات مستحکم کرنے کی راہ کشادہ ہوئی ہے سوال یہ ہے کہ امریکہ سے تعلقات مزید مستحکم کرکے ہمیں کس قسم کی خوشحالی مل سکتی ہے۔ یہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں نافذ امریکی استعماری پالیسیاں ہیں جنہوں نے اس بات کو یقینی بنادیا ہے کہ پاکستان کے صنعتی شعبے کی بنیاد کمزور رہے اور پاکستان بھاری مشینری اور ہر طرح کے انجن خود بنانے کی صلاحیت سے محروم رہے۔ یہ امریکی پالیسیوں کا ثمرہ ہے کہ آج پاکستان میں مقامی پیداوار پر ٹیکسوں کے بوجھ کو مسلسل بڑھایا جارہا ہے۔ روپے کو مسلسل کمزور کرکے مہنگائی میں اضافہ کیا جارہاہے اور توانائی کے شعبے کی نجکاری کی جارہی ہے تاکہ بجلی تیل اور گیس مہنگے داموں پر دستیاب ہو اور ان کی دستیابی میں کمی واقع ہو۔ ان حالات کی موجودگی میں جب وزیراعظم ایڈ نہیں ٹریڈ کی بات کرتے ہیں تو مذاق لگتا ہے۔ ان نتائج کے باوجود ہم پھر بھی امریکا کی نظر کرم کے منتظر ہیں۔ میر تقی میرؔ نے ہاتھ نہ پھیلانے کا یہ جواز پیش کیا تھا کہ ان کا ہاتھ سرہانے رکھے رکھے سوگیا ہے۔ ہم سرجھکاکر چلنے کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ سراٹھا کرچلنا ہی بھول گئے ہیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment