Monday, November 18, 2013

ترقی بذریعہ سرمایہ داریت۔۔۔جی بہت خوب

پنجابی محاورے کا ترجمہ ہے،’’ایک تو ادھار مانگنا اوپر سے نخرہ کرنا اور پھر برتن بغل میں لئے پھرنا‘‘۔ زیادہ دن نہیں گزرے میاں نوازشریف کا نعرہ تھا،’’اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی۔۔۔جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘۔ لیکن اقتدار میں آکر وہ بھی قرض کی اسی دیوی کے اسیر نکلے جس کی ماضی کی حکومتیں اسیر تھیں۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار 6.6ارب ڈالر آئی ایم ایف سے قرض لے چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ مزید 12ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ یہ قرضے قسطوں میں ملتے ہیں اور عوام کی بھلائی یا ملک کی ترقی کیلئے نہیں دئے جاتے بلکہ ان کا واحد مقصد گزشتہ قرضوں کی قسط کی ادائیگی ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف سے ہمیں جون تک 2.2ارب ڈالر مل سکیں گے جبکہ اس عرصے میں حکومت آئی ایم ایف کو3ارب ڈالر سے زیادہ سود کی مد میں ادا کرچکی ہوگی۔ روپے کی قدر گرنے سے سود کی یہ رقم مزید بڑھ جائے گی۔ وزیرخزانہ کے عزائم کی یہی بلندی رہی تو اگلے سال تک ہم 18ارب ڈالر کے مزید مقروض ہوچکے ہوں گے جس کو ادا کرنے کیلئے ہم مزید قرضہ مانگ رہے ہونگے۔ ایک اندازے کے مطابق مقروض ممالک کو قرض یا امداد کی مد میں ملنے والے ایک ڈالر کے بدلے 14 ڈالر واپس کرنے پڑتے ہیں۔
ہم ایک انحصار کرنے والی قوم ہیں۔ دفاعی صلاحیت سے لے کر ملک چلانے تک ہم امریکہ سے بھاری امداد کے طلبگار ہیں۔ انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور معاشی جمود توڑنے کیلئے ہم چین کے قدموں میں بچھے جارہے ہیں۔ پولیس فورس کو بہتر بنانے اور نہ جانے کن کن شعبوں میں ہم ترکی سے معاونت چاہتے ہیں۔سعودی عرب سے ہم مفت یا پھر لامحدود مدت ادھار پر تیل چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں پوری دنیا ہماری مدد کو آجائے۔ پاک چین دوستی کا بہت شور ہے۔ حالانکہ کوئی سپرپاور خیرات کی مد میں سرمایہ کاری نہیں کرتی۔ پاکستان ہو یا کوئی اور ملک سامراجی ملکوں اور اداروں کی سرمایہ داری کا مقصد لوگوں کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ اپنی شرح منافع میں اضافہ کرنا ہے۔ قرضوں اور امداد کی سیاست نے ہمارا یہ حشر کردیا ہے کہ وزیرخزانہ کتنے ہی دعوے کریں ہمارے معاشی اور اقتصادی معاملات آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دفاتر میں طے پاتے ہیں۔ ہماری سیاست کے شہہ سوار حقائق کی تلخیوں کو جعلی نعروں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
امریکہ کے دورے میں وزیراعظم نوازشریف نے بارہا کہا کہ ہمیں پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا۔ گھر کے حالات کیسے ہیں اس کے حوالے سے آج کل یہ ایس ایم ایس گردش میں ہے۔ ایک پائلٹ نے پاکستان کے کنٹرول ٹاور سے رابطہ کیا،’’میں اس وقت آپ کے ہوائی اڈے سے دوسو کلو میٹر دور ہوں۔ میرا پیٹرول ختم ہوگیا ہے۔ میں کیا کروں؟‘‘۔ جواب ملا،’’کلمہ پڑھ لو۔ یہاں بھی پیٹرول نہیں ہے۔ سی این جی اسٹیشنز بھی تین دن کیلئے بند ہیں اور تھوڑی دیر بعد بجلی بھی جانے والی ہے‘‘۔ آج پاکستان کی حالت یہ ہے کہ پیٹرول ہے نہ گیس اور نہ بجلی۔ گزشتہ چھیاسٹھ برسوں میں عوام کی بدحالی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ آج صحت پر حکومتِ پاکستان جی ڈی پی کا0.6 فیصد سے بھی کم خرچ کرتی ہے۔ 82فیصد پاکستانی تعویز گنڈوں اور نیم حکیموں سے علاج پر مجبور ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے 44 فیصد یعنی تقریباً نصف پاکستانی بچے ذہنی اور جسمانی طور پر نامکمل نشونما کا شکار ہیں۔ ڈھائی کروڑ بچوں کو اسکول جانا نصیب نہیں۔ تعلیم سے محروم بچوں کی شرح کے لحاظ سے ہم دوسرے نمبر پر ہیں۔ ایک چوتھائی آبادی کو بیت الخلاء میسر نہیں۔ 70 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ 50 فیصد آبادی بے روزگار ہے۔ یہ ہے بتدریج زبوحال آج کا پاکستان۔ جس کا علاج کبھی فوجی آمریت میں ڈھونڈا گیا اور کبھی جمہوریت ہر درد کا درماں سمجھی گئی۔ کبھی یہ گمان رہا عدلیہ آزاد ہوگئی تو دن سیدھے ہوجائیں گے۔ کبھی آزاد میڈیا سے بے پناہ توقعات وابستہ کی گئیں لیکن ملک کے حالات بد سے بدتر، تاریک سے تاریک تر۔ کیوں؟ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حکومتیں جمہوری رہی ہوں یا فوجی، سیکولر مزاج ہوں یا اسلامی سب کا طرز حکومت سرمایہ دارانہ نظام ہی رہا۔ سب کنویں سے پانی نکالنے میں جتے رہے۔ سرمایہ داری نظام کی بدبودار لاش نکالنے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ نتیجہ جمہوری حکمران بھی ناکام رہے اور فوجی بھی۔ پاکستان میں ہی نہیں اس نظام نے پوری دنیا میں انسانیت کو عظیم سانحات اور عظیم تر پریشانیوں میں مبتلا کردیا ہے۔ اس نظام سے اگرچہ نئی تہذیب کے سامنے نئے افق کھلے۔ حیران کن مادی اور اقتصادی ترقی ہوئی لیکن دنیا کے ایک بڑے حصے کی حالت شدید طور پر مخدوش ہوگئی۔ سرمایہ دارانہ نظام دولت کی ناہموار تقسیم پر یقین رکھتا ہے۔ کل عالمی دولت کم و بیش 200 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ دنیا کی آبادی 7 ارب نفوس پر مشتمل ہے۔ جن میں سے 4 ارب 20 کروڑآبادی کے حصے میں اس دولت کا صرف 15 فیصد ہے۔ افریقہ ایک فیصد، بھارت دو فیصد، لاطینی امریکہ چار فیصد اور چین آٹھ فیصد۔ دوسری طرف یورپ اور شمالی امریکہ کی ایک ارب30 کروڑ آبادی کے حصے میں کل عالمی دولت کا 63 فیصد حصہ آتا ہے۔ دنیا کے ممالک کا تجزیہ کیا جائے تو ملک امیر ہوں یا غریب دولت چند ہاتھوں میں سمٹتی جارہی ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان میں ڈاکٹر محبوب الحق 22 ایسے خاندانوں کا ذکر کیا کرتے تھے جو بیشتر قومی دولت کے مالک تھے۔ آج امریکہ دولت کی تقسیم کے لحاظ سے دنیا کے غیر مساوی ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ امریکہ کی کل قومی دولت تقریباً 57ٹریلین ڈالر ہے جس میں امیرترین دس فیصد لوگ80 فیصد حصے کے مالک ہیں جبکہ 80 امریکی عوام کا قومی دولت میں حصہ صرف 7 فیصد ہے۔
دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے انجام کا آغاز ہوچکا ہے۔ ساری حرماں نصیب دنیا یہاں تک کہ خود یورپ اور امریکہ میں اس نظام کے خلاف لوگ منظم ہو رہے ہیں لیکن ہم اسی سرمایہ دارانہ نظام کو نسخہ کیمیا سمجھے بیٹھے ہیں۔ مسئلہ آمریت یا جمہوریت یا کسی ایک حکومت یا سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔ سب کا معاشی پروگرام ایک ہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام۔ نوازحکومت کے پاس جتنے بھی ترقیاتی یا معاشی منصوبے ہیں ان سے عوامی فلاح اور بہبود کا کوئی مقصد بھی حاصل نہیں ہوگا۔ قرضوں کا حال آپ آغاز میں پڑھ چکے۔ لکھ رکھئے نجکاری جس کے متعلق حکومت بہت پُرامید ہے۔ پاکستان کے بجٹ، خزانے اور مالیاتی خسارے کو کبھی پورا نہیں کرسکے گی۔ 68 ریاستی اداروں کو ذبح کرکے ان کی بوٹیاں عالمی سودخوروں اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کے آگے ڈالنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں جو طویل عرصے سے ان منافع بخش اداروں کو ہتھیانے کیلئے بے تاب ہیں۔ سرمائے کی اس جمہوریت میں عوام کے حصے میں غربت محرومی بیماری بے روزگاری اور ذلت کے سوا کچھ نہیں آتا۔ دنیا آزماچکی آپ بھی آزماکر دیکھ لیجئے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment