Tuesday, August 13, 2013

کالم نگار

ببّن بھائی لالوکھیت میں کالے چنے بیچتے ہیں۔ سائیکل کے پچھلے کیرئر پر مضبوطی سے بندھی ایلمونیم کی بالٹی میں چنے بھرے ہوتے ہیں۔ بالٹی ایلمونیم ہی کی تھالی سے ڈھکی ہوتی ہے۔ بالٹی اور ڈھکن ایسے صاف ستھرے چمکتے ہوئے کہ ان میں اپنا چہرہ دیکھ لیں۔ ببن بھائی خود بھی بہت صاف ستھرے رہتے ہیں۔ اس سارے سیٹ اپ کو وہ ’’حاتم کا خیمہ‘‘ کہتے ہیں۔
’’ جس طرح حاتم کے خیمے سے سوالی خالی نہیں جاتے تھے اسی طرح بھیے جب بھی اس سائیکل پر چنے لیکر نکلااللہ پاک نے رزق دیا کبھی خالی نہیں لوٹایا‘‘۔ یہ ببن بھائی کا استدلال تھا۔ چنے بیچنے کیلئے انہیں کبھی آواز لگاتے نہ دیکھا۔ سارا بازار انہیں جانتا تھا۔ سائیکل کا ہینڈل پکڑے پیدل چلتے بازار میں داخل ہوتے اور ایک ایک دوکاندار کا نام لیکر بالجہر السلام علیکم کہتے۔ دوکاندار کے لئے ان کے سلام کا جواب دینا لازم ہے ورنہ’’ابے انور بھائی سلام کا جواب بھی نہ دے ریے ہو بالکل فرعون ہوگئے ہوکیا؟‘‘۔ دوکاندار بھی لالوکھیتیے ہی ہوتے ہیں جواب دیتا’’ببن بھائی جواب دے تو رہا ہوں ذرا چھری تلے دم تو لو‘‘۔ ببن بھائی برا ماننے کے بجائے جواب سے لطف لیتے ہوئے کہتے ’’چھری تلے دم لوں امے کیا بکرا ذبح کررہے ہو ہم نے تو سلام کیا ہے۔ جواب دو نہ دو تمھاری مرضی سلام تو اللہ میاں کو ہوتا ہے‘‘۔ دوکاندار ببن بھائی کو مزید کھولنے کے لئے کہتا ’’ببن بھائی ناراض کیوں ہوتے ہو اچھا لاؤ دو روپے کے چنے دے دو‘‘۔’’دو روپے کے چنے!امے کیا بالکل ہی باولے ہوئے ہوپتا ہے مہنگائی کتنی ہورہی ہے۔ یہ جو تمھارے کلّے میں پان دبا ہے دو روپے کی تو یہ زہر کی پڑیا بھی نہیں آتی۔ چلیں ہیں چنے کھانے۔۔۔دوروپے کے چنے دے دو۔۔۔ ان کے باپ کی حکومت ہے‘‘۔ لیکن یہ سب کہتے ہوئے ببن بھائی کے ہاتھ چلتے رہتے بالٹی سے ڈھکن اٹھاتے چمچ سے تھیلی میں چنے بھرتے کھٹائی ڈالتے اور دوکاندار کی طرف بڑھاتے ہوئے بولتے’’یہ لو دس والی بنائی ہے‘‘۔ دوکاندار تھیلی ہاتھ میں لیتے ہوئے کہتا’’ببن بھائی دس روپے کے اتنے ذرا سے۔قسم سے آج تو لوٹ رہے ہو‘‘۔ اس پر ببن بھائی چٹختے ہوئے کہتے ’’امے بھائی میاں یہ تو چٹخارے کے سودے ہیں پیٹ بھرنا ہے تو نکڑ پہ چلے جاؤ۔ وہ ڈھولکی کا ٹھیلے پہ چھولے بیچ رہا ہے۔ دس روپے میں پلیٹ بھر کے دیگا۔ پیٹ بھر جائے گا اور پھر بھیے تمھارے سے پیسے مانگ کون رہا ہے، آج نہیں تو کل دے دینا اس کے علاوہ بھی کچھ چاہئے تو بولو لاکھ دولاکھ دس لاکھ ببن بھائی کا دل بہت بڑا ہے‘‘۔ دوکاندار مزے لیتے ہوئے کہتا’’ ببن بھائی قسم اللہ پاک کی منہ کی بات چھین لی۔ دھندا بالکل نہیں ہے بارہ بج رہے ہیں ابھی تک بو  ہنی نہیں کی۔ جواب میں ببن بھائی کی آواز اونچی ہوجاتی ’’امے بوہنی تو ہندو کرتے ہیں مسلمان تو بسم اللہ کرتے ہیں۔ کیا اماں باواں نے ابھی تک کلمہ نہیں پڑھوایا‘‘۔دوکاندار مسکراتے ہوئے کہتا’’ ببن بھائی چھوڑو اس بات کو قسم سے دولاکھ کی سخت ضرورت ہے شام کو پارٹی کو پیمنٹ کرنی ہے ایک ہفتے بعد لے لینا دیکھو انکار نہ کرنا‘‘۔ اس پر ببن بھائی سوچ میں پڑجاتے’’ امے انکار کون کررہا ہے لیکن بھئے مانگنا ہے تو اللہ میاں سے مانگو بندوں سے مانگنے سے کبھی پورا پڑا ہے کیا۔ اتنے بڑے ہوگئے ہو دوکاندار بنے بیٹھے ہو مگر مانگنے کا سلیقہ نہیں۔ منہ پھاڑ کے کہہ دیاببن بھائی دولاکھ دے دو۔ ببن بھائی کے کنے دو لاکھ ہوتے تو ببن بھائی یہاں ہوتے‘‘۔
ہر روز ببن بھائی کی ایسی ہی نوک جھونک سے دوکانداری کا آغاز ہوتا۔ دوکان لگاکر ہم اخبار اٹھاتے ببن بھائی کی موجودگی میں اخبار پرھنا خاصا مشکل ہوتا تھا اس دن تو انکی آواز بھی کافی اونچی تھی۔ مین پیج دیکھنے کے بعد ہم نے ادرتی صفحہ کھولا پہلی نظر جس مضمون پر پڑی انگریزی اخبار سے ترجمہ تھا’’ پاکستان میں اقلیتوں کی حالت زار‘‘۔ لکھنے والے ملک کے نامور کالم نگار تھے۔ ہم نے مضمون پڑھنا شروع کیا آغاز اس جملے سے تھا’’پاکستان میں قادیانیوں کو اسپین ایسی نسل کشی کا سامنا ہے‘‘۔ ’’یاخدا‘‘۔ ہم نے سوچا۔ ’’اسپین ایسی نسل کشی! کیا فاضل کالم نگار کو اسپین میں مسلمانوں کی نسل کشی کی تفصیلات کا علم ہے۔ جہاں عشروں پوری ریاستی قوت اور چرچ مسلمانوں کے قتل عام اور انہیں جبراً عیسائی بنانے میں مصروف رہے۔ پاکستان میں ایسی صورتحال بھلا کب اور کہاں رونما ہوئی۔ اتنا برا جھوٹ پاکستان سے ایسا تعصب ایسی نفرت‘‘۔ پہلے جملے سے مضمون سے دل اچاٹ ہوگیا تھا پھر دور سے ببن بھائی نے بھی جملہ کس دیا ’’امے بھیے دوکانداری کا وقت ہے گاہکوں کو دیکھو۔ صبح ہی صبح یہ کیا نحوست لے کر بیٹھ گئے ہو‘‘۔ ہم نے ببن بھائی کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے مضمون پڑھنا جاری رکھا ’’پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں متعصب مولویوں اور اسلام پسندوں کو غلبہ حاصل ہے۔ سیاست دان بھی ان کی خوشنودی میں قادیانیوں سے انتہائی جارحانہ رویہ رکھتے ہیں‘‘۔ مضمون کا ایک ایک لفظ تعصب اور کشیدگی سے بھرا ہوا تھا حالانکہ قادیانیوں کے خلاف کئی برس پہلے لاہور میں دہشتگردی کا واقعہ ہوا تو پورے ملک میں رنج اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔ کہیں شادیانے نہیں بجائے گئے۔ نواز شریف نے قادیانیوں کو ’’ہمارے بہن بھائی‘‘ کہا تھا حالانکہ قادیانی کبھی مسلم معاشرے کا حصہ نہیں رہے۔ عمران خان نے بھی اسپتال جاکر ایک ایک زخمی کی عیادت کی تھی۔ آگے چل کر مضمون میں لکھا تھا’’ قادیانی اسلام کی جدید تعبیر اور سچی اسلامی اقدار کے لئے سینہ سپر ہیں اور انہیں پاکستان میں رہنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا دوسری اقلیتوں کو‘‘۔ ہم نے سوچا کاش فاضل کالم نگار قادیانیوں کے باب میں لکھنے سے پہلے تھوڑی تحقیق کر لیتے بے شک قادیانیوں کو بھی پاکستان میں آبرو مندانہ زندگی گزارنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا دوسری اقلیتوں کو لیکن قادیانیون کا معاملہ سکھ، عیسائی اور ہندو اقلیت سے مختلف ہے وہ انگریز استعمار کی تخلیق ہیں ان کی موجودہ قیادت برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس اور سی آئی اے کے سایوں میں پرورش پارہی ہے۔ اسرائیل سے ان کے مراسم پوشیدہ نہیں اور جو اکثر پاکستان کے خلاف سازشوں میں شریک رہتی ہے۔ مسلم برصغیر میں انہیں کبھی مسلمانوں کے وجود کا حصہ نہیں سمجھاگیا۔ ہمیشہ غیر مسلم قراردیا۔ علامہ اقبال نے نہرو کو ایک خط میں لکھا تھا ’’قادیانی اسلام اور ہندوستان کے غدار ہیں‘‘۔ ہم مضمون جاری رکھنا چاہتے تھے کہ ببن بھائی کی اونچی آواز پھر مخل ہوگئی کسی نے انہیں کہہ دیا تھا ’’ ببن بھائی چھولے کھٹے بہت ہورہے ہیں ٹاٹری زیادہ ڈال دی ہے کیا؟‘‘۔ ببن بھائی کا ناریل چٹخ گیا تھا’’ابے بھوتنی کے ٹاٹری ڈالتا ہوگا تیرا باپ یہ جو کلے میں ہر وقت پان گٹکہ بھرا رہتا ہے منہ کاٹ دیا ہوگا اور میرے سے بول را ہے ٹاٹری ڈال دی۔ ابے ساری رات املی پانی میں بھگوتا ہوں پھر صبح اٹھ کر فجر کے بعد پہلا کام یہی کرتا ہوں ایک ایک گھٹلی الگ کرکے پھربوتل میں بھرتا ہوں۔ چنوں کی صفائی میں آنکھیں پھوڑا ہوجاتی ہیں لیکن قسم اللہ پاک کی جب تک ایک ایک کنکر صاف نہیں کردیتا ابلنے نہیں رکھتا۔۔۔ہم نے ببن بھائی کی طرف دیکھا پھر اخبار میں چھپے فاضل کالم نگار کے مضمون کی طرف۔ ہم نے اخبار اٹھاکر ایک طرف رکھ دیا ہمیں ببن بھائی فاضل کالم نگار سے زیادہ محترم لگے۔ کم از کم انہیں اپنے کام پر دسترس تو حاصل ہے جو کچھ وہ لوگوں کو دے رہے ہیں اس کے ایک ایک جزو کی اچھی طرح چھان پھٹک تو کی ہے۔ ایک ایک جزو سے اچھی طرح آگہی تو رکھتے ہیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment