Tuesday, February 4, 2014

بندر کا جھوٹا

’’علی اور عثمان ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ٹی وی پر کارٹون آرہے تھے۔ یہ کیا ٹی وی خراب ہوگیا۔ علی نے بٹن دبائے۔ عثمان نے تار ہلائے۔ بہت کوشش کی ٹی وی پر تصویر نہ آئی۔ اب کیا کریں‘‘۔ یہ دوسری جماعت کی اردوکتاب کے ایک مضمون کا آغاز ہے۔ بچوں ہی نہیں بڑوں پر بھی ایسا وقت آتا ہے جب وہ سوچتے ہیں اب کیاکریں۔ الطاف بھائی پر بھی ایسا وقت آتا ہے اور اکثر آتا ہے۔
پہلے وہ ہڑتالیں کیا کرتے تھے آج کل جلسوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ اس اتوار بھی کراچی میں جلسہ تھا، بھائی سے اظہار یکجہتی کیلئے۔ کسی کام کے سلسلے میں ہم اتوار کو علی الصباح گیارہ بجے بس اسٹاپ پہنچے۔ سڑک پر نصب سائن بورڈ پر نظر پڑی ہمیں اچھی طرح یاد ہے کل رات بہ حسرت اس سائن بورڈ پر کترینہ کیف کو اپنی کھلی ٹانگیں اور بازو دکھاتے چھوڑ گئے تھے۔ آج الطاف بھائی کے جلوے تھے۔ ایک دوسرے ہورڈنگ پر پیزا کی بجائے الطاف بھائی کا چہرہ تھے۔ یہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کا کمال ہے کہ ایک ہی رات میں شہر کے تمام ہورڈنگز اور سائن بورڈز پر فضول اشیاء کی جگہ بھائی کی تصویر تھی۔تمام تصاویر پرانی تھیں۔ ایم کیو ایم کے کارکن نہ جانے کیوں بھائی کی تازہ تصاویر لگانے سے کتراتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز کو پتہ نہیں کیا دشمنی ہے کہ وہ بھائی کی تازہ ترین تصاویر ہی دکھاتے ہیں۔ اب تو تربوز بھی اتنے بڑے نہیں آتے جتنا بھائی کا چہرہ ہو گیا ہے۔ چہرہ ہی نہیں بھائی کی آواز بھی روز روز کی تقریروں میں ڈنڈبیٹھکیں لگالگا کر بھاری سے بھاری تر بلکہ خوفناک ہوتی جارہی ہے۔ پہلے بھی وہ ایسے خوش آواز نہ تھے مگر اب تو ان کی آواز۔۔۔ذبح ہوتے بکرے اللہ میاں سے ہماری شکایت نہ کریں تو ان کی مثال دی جاسکتی ہے۔
اس کے بعد ہم کہنا چاہ رہے تھے کہ تفنن برطرف آئیے کچھ سنجیدہ باتیں ہوجائیں۔ تفنن برطرف کا مطلب ہے مذاق ختم۔ الطاف بھائی پر ایسا ہی وقت آگیا ہے کہ ہمہ شمہ بھی ان کا مذاق اڑانے لگے ہیں۔ جب بھائی دادا تھے اور ایم کیو ایم کا ایک ایک کارکن ان کا دلدادہ تب کوئی ایسی ہمت کرکے دکھاتا۔ یہ بی بی سی کی ڈوکومینٹری کا اعجاز ہے۔ بھائی کی بھد اڑاکر رکھ دی ہے۔ بی بی سی کی حالیہ ڈوکومینٹری سے مکمل اتفاق کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات سے اتفاق ممکن نہیں کہ کراچی پر بھائی کا کنٹرول کم ہوتا جارہا ہے۔ اتوار کا اظہار یکجہتی اس کا ثبوت ہے۔ پھر ایم کیو ایم کا عسکری ونگ بھی تو ابھی تک باقی اور فعال ہے۔ جلسے سے بھائی نے خطاب نہیں کیا۔ تمام مقررین گریبان تارتارا کئے دے رہے تھے مگر بھائی جیسی بڑھک نہ لگاسکے۔ اگر بھائی خطاب کرتے تو ہمیں یقین ہے اپنے اسلوب میں یہ ضرور کہتے: ’’بی بی سی!وا۔۔۔لو۔۔۔دیکھ لو۔۔۔کراچی پر الطاف حسین کاکنٹرول ختم نہیں ہوا‘‘۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بی بی سی والے بھی ایک ہی ظالم ہیں وہ حکومتوں کی پرواہ نہیں کرتے اپنے ایک شہری کا کیا لحاظ کریں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ظالم کی نیند بھی عبادت ہے۔ ہمیں پتہ تو نہیں لیکن الطاف بھائی اپنے جلسوں میں ’’تیرامیرا ساتھی ہے الطاف حسین‘‘ کے گانے بجانے کے بعد جس طرح تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں گمان ہے نماز روزے پر بھی توجہ دیتے ہونگے۔ ہرچند کہ وہ اپنی سیکولر شناخت پر اصرار کرتے ہیں۔ آج کل ویسے بھی ان پر پیغمبری وقت ہے۔ خدا یاد آہی جاتا ہے۔ بھائی کو عالمی اسٹیبلشمنٹ سے خطرہ ہے کہ وہ ان کی جان لینا چاہتی ہے۔ برطانوی پولیس نے بھی ان کا جینا حرام کررکھا ہے۔ فاروق ستار نے بھی پچھلے دنوں جام سے جام ٹکراتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ کیا المیہ ہے کہ ایم کیو ایم کے پرانے قائدین میں سے ایک وہ ہی باقی بچے ہیں۔ ایک ایک کرکے سب قتل کردئے گئے۔ اس موقع پر ہم کچھ غمگین اشعار لکھنا چاہتے تھے۔ ذہن پر بہت زور دیا۔ مجال ہے ایک بھی ڈھنگ کا شعر یاد آیا ہو۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کی بچپن میں پڑھی ہوئی ایک نظم ہم نے ذہن سے لاکھ جھٹکنا چاہی لیکن نہ جانے کیوں یاد آتی ہی چلی گئی۔ برائے مہربانی اس نظم سے کوئی تعلق جوڑنے کی کشش نہ کیجئے گا۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ جب تک زبان پر آئی بات کہہ نہ لیں بات آگے نہیں بڑھتی۔ سو نظم ملاحظہ کیجئے:
پانچ چوہے گھر سے نکلے کرنے چلے شکار
ایک چوہا رہ گیا پیچھے باقی رہ گئے چار
چار چوہے جو باقی رہ گئے لگے بجانے بین
ایک چوہے کو آگئی کھانسی باقی رہ گئے تین
تین چوہے جو باقی رہ گئے، آؤ گھر کو بھاگ چلو
ایک چوہے نے بات نہ مانی باقی رہ گئے دو
دو چوہے جو رہ گئے باقی دونوں ہی تھے نیک
ایک چوہے کو کھاگئی بلی، باقی رہ گیا ایک
ایک چوہا جو رہ گیا باقی کرلی اس نے شادی
بیوی اسے ملی لڑاکا یوں ہوئی بربادی
الطاف بھائی ’’عمر‘‘ کے اعتبار سے پختگی کی اس منزل تک تو پہنچ ہی گئے ہونگے جب خیال آتا ہے کہ اپنا گھر اپنا گھر ہوتا ہے۔ وہ برطانوی پولیس کو دو الزامات میں مطلوب ہیں۔ ایک عمران فاروق کا قتل دوسرے پانچ لاکھ پونڈ کی منی لانڈرنگ۔ یہ بھی کوئی جرم ہیں۔ عظیم طارق کی اہلیہ چیختی رہ گئیں، جون ایلیا کہتے رہ گئے ’’وہ آگیا میرے بھائی کا قاتل‘‘۔ کسی نے ان کی سنی۔ توجہ دی۔ جہاں تک پانچ لاکھ پاؤنڈ جیسی حقیر رقم کا تعلق ہے کس کو جرات تھی کہ بھائی کے کارخانے میں دخل دیتا۔ پاکستان میں ہرطرح کی کرپشن اور بدعنوانی اب ویسے بھی قابل تقلید ہوگئی ہے۔ پرسوں پرلے روز کی بات ہے جب نوازشریف نے فرمایا تھا کہ ’’زرداری اور میرا کردار مشعل راہ ہونا چاہئے‘‘۔ جب زرداری اور نوازشریف کا کردار راہ کی مشعل ہوسکتا ہے تو بھائی کا کردار تو راہ کا بھڑکتاہوا الاؤ ہے۔ آج بھی ایم کیوایم کے بعض ورکروں کا یہ حال ہے:
ہیں دلیلیں تیرے خلاف بہت
سوچتا ہوں تیری حمایت میں
ویسے بھی اب پاکستان میں خوشحالی آگئی ہے۔ منی لانڈرنگ جیسے معاملات دیکھنے کی کسی کو فرصت نہیں۔ موج میلے سے وقت ملے تب نا۔ ایک طرف سندھ میں پندرہ دن کا ثقافتی میلا چل رہا ہے جس میں مہمانوں کیلئے طیارے چارٹرڈ کئے جارہے ہیں۔ 75کروڑ سے کہیں زیادہ رقم خرچ کردی گئی ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں فیسٹول چل رہے ہیں۔ صرف کراچی کے عوام ہی اظہار یکجہتی نہیں کررہے ہیں زرداری اور نوازشریف بھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں اس ڈر سے کہ ہماری آپس میں لڑائی رہی تو بندر جھوٹا مارے ہی مارے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment