’’بالاخانے سے عالی مرتبہ خاتون نے شام سے آتے قافلے پر نظر کی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ چمکتے ہوئے سورج کی تمازت اور بے کراں دشت کے سفر کی تھکن، گردآلود اہل قافلہ کے ہم قدم تھی لیکن وہ تابناک چہرہ! نور کے سانچے میں ڈھلے قدوقامت۔ محترم خاتون نے کمال حیرت سے دیکھا ان صاحب جمال کے اوپر ایک سایہ چھاؤں کئے ہوئے تھا۔ سایہ ابر! انہوں نے پپوٹوں اور پلکوں کی ہزار جنبش سے دیکھا لیکن نہیں، دوردور کوئی بدلی نہیں تھی۔ یہ منظر انہوں نے دوسری عورتوں کو بھی دکھایا۔ سب نے تائید کی۔ غلام میسرہ نے بتایا ’’فرشتے عالی جناب پر سایہ کیے رکھتے ہیں۔ سفر کے دوران دوپہر کی حدت میں بھی فضا میں کوئی شے تھی تو فرشتوں کا آپ پر سایہ‘‘
صحرا سے اٹھنے والا یہ نور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور اس نور سے جو آنکھیں روشن ہوئیں، وہ ذات تھی ام ہند، طاہرہ کے لقب سے مشہور حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا۔ بچپن ہی سے نہایت نیک طبع، شریف النفس، اعلی کردار اور اخلاق حسنہ کی تجسیم، حسن تدبیر اور دیانتداری کا پیکر۔ شام اور یمن تک پھیلی ہوئی تجارت اور عرب، یہودی اور عیسائی ملازموں پر مشتمل وسیع عملہ۔ زیادہ وقت خلوت اور گاہے بیت اللہ کے ایک گوشے میں موجود عورتوں سے مصروف گفتگو۔ مکہ اور اردگرد کے حالات پر گہری نظر رکھنے والیں۔ ان کا مرتبہ، ان کا مقام، اللہ اللہ۔
ایک روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا، ’’جانتے ہو ان لکیروں سے کیا مراد ہے؟‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ نے عرض کی، ’’اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’ان لکیروں سے کائنات کی چار افضل و برتر خواتین مراد ہیں۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد، فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم(فرعون کی بیوی)‘‘۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد کا نام خویلد بن اسد اور والدہ فاطمہ بنت زائدہ تھیں۔ آپ عام الفیل سے پندرہ برس پہلے 68قبل ہجری میں مکہ میں پیدا ہوئیں۔ پردادا اقصی بن کلاب تک جاکر آپ کا سلسلہ نسب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ کے تجارتی قافلے دوردراز فاصلوں تک جاتے تھے۔ چچا جناب ابوطالب کے مشورے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال تجارت لے کر (بصرہ) شام تشریف لے گئے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صادق اور امین کے القاب اور پاکیزہ اخلاق سے آگاہ تھیں۔ فرشتوں کا عالی جناب صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کرنا اپنی آنکھوں سے دیکھا اور میسرہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانتداری، حسن اخلاق اور دوران سفر پیش آنے والے واقعات سنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا خیال آپ رضی اللہ عنہا کے دل میں گھر کرگیا۔ شام کے تجارتی قافلے سے واپسی کے دوماہ پچیس دن بعد آپ رضی اللہ عنہا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دل میں داخل ہوئے تو پھر آپ نے دنیا کو دل سے نکال دیا۔ تمام مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کردیا اور خود کامل یکسوئی اور دل جمعی سے خاوند کی خدمت میں مصروف ہوگئیں۔ وفات تک آپ رضی اللہ عنہا سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج پہنچا ہو۔ آپ رضی اللہ عنہا ایک وفادار اور غمگسار بیوی تھیں۔ پروردگار کی بارگاہ سے سورۃ العلق کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، شہہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر کپکپی طاری ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑا اوڑھا کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خیرہ کن اعتدال، محکم اور استوار لہجے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ ارشاد فرمایا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابواب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ان جملوں کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتے۔ تاابد فروزاں اس ارشاد کے آغاز میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے یقین کی قطعیت ملاحظہ فرمائیے: ’’ہرگز نہیں! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا‘‘ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن بیان کرنے اور آپ کی تصدیق کرنے کے بعد جملوں کا اختتام ’’اللہ آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا‘‘۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوا جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشانی لاحق ہوئی سیدہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دی اور ڈھارس بندھائی۔ عبادت الہی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیتی تھیں۔ اولاد کی دیکھ بھال، تربیت، گھر کے کام خصوصاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت فرض سمجھتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا ’’خدیجہ رضی اللہ عنہا برتن میں کچھ لارہی ہیں آپ ان کو اللہ کا اور میرا سلام کہہ دیجئے‘‘۔ دنیا سے رخصت ہوئیں تو اس حال میں کہ آپ رضی اللہ عنہا کے چہرے پر شادمانی تھی اور آنکھیں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر جمی ہوئی تھیں۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ’’مجھے خدیجہ کی محبت عطا کی گئی۔ کوئی رنج ایسا نہ تھا جو خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کی باتوں سے آسان اور ہلکا نہ ہوجاتا‘‘۔ سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کے بعد ایک عرصے تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اس وقت تک گھر سے باہر تشریف نہ لے جاتے جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خوب تعریف نہ کرلیتے اسی طرح جب گھر تشریف لاتے تو ان کا ذکر کرکے بہت کچھ تعریف میں فرماتے۔ محب طبری نے لکھا ہے ’’حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا گھر مکہ میں مسجدحرام کے بعد سب سے زیادہ افضل جگہ تھی۔ امام ذہبی سیدہ خدیجۃ الکبری کے بارے میں لکھتے ہیں ’’حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مناقب بہت زیادہ ہیں اور یہ دنیا کی کامل ترین خواتین میں سے ہیں‘‘۔ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق انہوں نے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی شادی آپ رضی اللہ عنہا سے کی اور جب تک زندہ رہیں آپ صلی اللہ علیہ نے دوسری شادی نہیں کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا پہلی خاتون ہیں جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے پہلے نماز پڑھنے کا شرف انہیں حاصل ہوا۔سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد انہیں سے ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سب سے پہلے جنت کی خوشخبری آپ ہی کو ملی۔ سب سے پہلے اللہ تعالی نے سلام انہیں کہلوایا۔ آپ رضی اللہ عنہا کی طبعیت ناساز ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج معالجے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن آپ رضی اللہ عنہا 65 یا 64 سال کی عمر میں انتقال فرماگئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھوں سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو قبر میں اتارا۔ وہ رضی اللہ عنہا سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب و جان میں دائم آباد رہیں۔
اس دنیا میں خوشگوار اور پرسکون انسانی زندگی کی اساس عورت ہے۔ معاشرے میں عورت کے کردار کے حوالے سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہاعالم انسانیت کے لئے ایک عظیم ترین مثال ہیں۔ نیک سیرت بیوی تقوی کے بعد کوئی نعمت جس سے بڑھ کر نہیں۔ اسلام نے عورت کو تمام معاشرتی اور تمدنی حقوق عطا کیے ہیں۔ حصول تعلیم، شوہر کے انتخاب، ناپسندیدہ شوہر سے نجات، مہر و نفقہ، مال و جائیداد کی ملکیت اور معاشی جدوجہد کا حق۔ بعض حیثیتوں میں مرد سے بڑھ کر۔ متوازن طرز حیات اور معاشی ترقی میں عورت کا کردار انتہائی اہم اور ناگزیر ہے لیکن یہ کردار پس پردہ ہے۔ اسلام نے مردوں اور عورتوں کے درمیان کاموں کی منصفانہ تقسیم کی ہے۔ دونوں کے دائرہ کار الگ الگ رکھے ہیں۔ گھر اور خاندان معاشرے کی اکائی ہیں۔ اس عظیم اکائی کی ذمہ داری کیلئے اللہ سبحانہ تعالی نے عورت کو منتخب کیا ہے مرد کے ذمہ گھر سے باہر کے کام رکھے ہیں۔ اگر ہر شخص ہر کام انجام دینے لگے تو کوئی بھی نظام صحیح طریقے سے نہیں چل سکتا گھر میں بچوں کی پیدائش اور تربیت جیسے عظیم کام اور شوہر کی خدمت انجام دیتے ہوئے عورت تنہا نہیں ہے۔ اسلام نے مردکو پابند کیا ہے کہ وہ عورت کی معاشی کفالت کرے اور اسے تحفظ دے۔ یہ ارشاد بطور حکم بیان ہوا ہے کہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ تہذیب جدید نے مرد اور عورت کے دائرہ کار کے توازن کو بگاڑکر اور معاشی ترقی کے لئے عورتوں کا انجینئرڈ کردار ڈیزائن کرکے اپنے معاشروں کو بھی ہولناک آفات اور مصیبتوں کے حوالے کردیا ہے اور آزاد عورت کو بھی حسرتوں اور نوحوں کی ایک دردناک داستان بنادیا ہے۔ اس ماہ کے پہلے عشرے میں حضرت خدیجۃ الکبری کا دن منایا جا رہا ہے۔ آئیے حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے ذکر سے اپنی بستیوں میں اجالا کریں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی صفات اور کردار کی روشنی میں عورت کو وہ مقام دیں جو اللہ سبحانہ تعالی نے اسے عطا کیا ہے۔‘‘
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment