غور کر دیکھا جو کچھ ہے سوآٹا دال ہے۔۔۔سب کے دل کو فکرہے دن رات آٹے دال کا۔۔۔نظیرؔ نے مختلف موضوعات پر70ہزار کے لگ بھگ شعروں پر مشتمل نظمیں کہی ہیں۔ان کی ایک شہرۂ آفاق نظم ’’روٹی‘‘ سے ایک دو بندآپ کی نذر ہیں۔
جس جا پہ ہانڈی،چولھا،توااورتنور ہے
خالق کی قدرتوں کا اسی جا ظہور ہے
چولھے کے آگے آنچ جو جلتی حضور ہے
جتنے ہیں نور سب میں یہی خاص نور ہے
اس نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہروماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کو
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر پوچھا اس نے کہئے یہ ہے دل کا نور کیا
اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا
وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا
کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
ہمیں نظیر ؔ کی یہ نظم اس لئے یاد آئی کہ جمہوریت کو عوام کی حکومت باور کیا جاتا ہے لیکن عوام کی حکومت میں عوام پر کیا بیتی۔آٹے دال کا کیا ہوا سنئے اور سردھنئے۔
2008میں آٹے کے 20کلوگرام کے تھیلے کی قیمت285روپے لیکن پیپلز پارٹی کے آخری دنوں میں یہ قیمت 820روپے تھی۔یعنی جمہوری حکومت میں آٹے کے 20کلوگرام تھیلے کی قیمت میں 535روپے اضافہ ہوا۔2008میں جب وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے حکومت سنبھالی گھی کی قیمت 96روپے تھی اور راجہ پرویزاشرف کے دور میں 210روپے کلویعنی گھی کی قیمت میں 114روپے فی کلواضافہ ہوا۔ اسی طرح 2008ء میں چائے کی قیمت 320روپے فی کلو تھی اور مارچ 2013ء میں یہ قیمت670روپے فی کلو گرام تھی۔اسی طرح دالوں کی قیمت میں بھی 55 سے 70 روپے فی کلو اضافہ ہوا۔میاں نوازشریف نے 5جون کو اقتدار سنبھالا 12جو ن کو بجٹ پیش کیا۔اگلے ہی دن دودھ کا ڈبہ 92روپے سے بڑھ کر110روپے کا ہوگیا۔دال چنا 88روپے دال ماش172روپے بیسن111روپے ہوگیا۔سپریم کورٹ کی مداخلت پر قیمتوں میں کچھ کمی ہوئی لیکن کہا جاتا ہے کہ بڑھا ہوا پیٹ اور بڑھا ہوا ریٹ کبھی واپس نہیں جاتا۔ عوام کی دال روٹی سے متعلق باقی اجزاء کی بڑھی ہوئی قیمتیں آپ خود بازار جاکر معلوم کرلیجئے۔ نوازشریف حکومت آنے کے بعد عوام تذبذب میں تھے کہ اب کسے گالیاں دیں۔ پہلے تو زرداری حکومت کو گالیاں دے کر دل کی بھڑاس نکال لیا کرتے تھے۔ نوازشریف حکومت نے بھی زیادہ دیر نہیں لگایا۔ایک ہفتے بعد ہی دال روٹی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کو گالیاں دینے کا موقع فراہم کردیا۔آمریت ہو یا جمہوریت بنیادی فرق جسے کوئی حکومت اپنانے کے لئے تیار نہیں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کا ہے۔ یہ بنیادی فرق ہے۔ اسلام مارکیٹ کی قوتوں کو کھلی چھٹی نہیں دیتا کہ وہ من مانی قیمتیں وصول کریں جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں کھلی چھٹی ہے کہ من چاہا منافع حاصل کیا جائے۔یہ نظام ہر جگہ عوام کو کھارہا ہے یہاں تک کہ چین جیسے ملک میں بھی غربت میں اضافہ ہوا ہے۔یہ سرمایہ دارانہ سودی نظام قوموں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرض کے شکنجے میں کس دیتا ہے۔گزشتہ دنوں پنجاب کے وزیراعلی میاں شہبازشریف نے کہا تھا’’ قرض کی زندگی ذلت کے سوا کچھ نہیں، آئی ایم ایف پنجے گاڑنے کے لئے چکر لگا رہا ہے، سیاسی آزادی کے بغیرمعاشی آزادی نہیں مل سکتی،پاکستان کو بھکاری بنانے کے ذمہ دار ہم خود ہیں،جو دوسروں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں بہترین سفارتکاری کے باوجود ہمیں بھکاری اور گداگر سمجھا جاتا ہے۔بھارت معاشی طور پر آگے نکل گیا ہے۔اب ہمیں مشکل فیصلے کرنا ہونگے‘‘۔
میاں شہبازشریف کے اس وعظ اور نصیحت پر ہمیں وہ صاحب یاد آگئے۔شادی کی پہلی رات جودوست رشتہ داروں کے شوخ جملوں میں دلہن کے کمرے میں داخل ہوئے۔کنڈی لگائی۔پلنگ پر بیٹھی دلہن کے قریب جا کر بیٹھ گئے۔ گھونگٹ اٹھایا۔ہاتھ میں ہاتھ لیا اور بولے،’’دیکھو شبّو!تم اس گھر میں بیاہ کر آئی ہو تو اس گھر کو اپنا گھر سمجھنا۔ابّو کاخیال رکھنا وہ اس گھر کے بڑے ہیں انھوں نے ساری زندگی بہت محنت کی ہے۔ تمھیں اماں سے بھی بہت محبت سے پیش آنا ہے۔انہیں احساس نہیں ہونا چاہئے کہ ان کی گھرداری میں کوئی دوسرا داخل ہوگیا ہے۔بڑے بھیا ذرا غصے کے تیز ہیں۔ ان کی بات کا برا نہیں ماننا۔چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ اپنے بہن بھائیوں کی طرح پیش آنا رہے دوست رشتہ دار تو دیکھو سب کا اس گھر پر حق ہے۔تمھیں سب کو یہ حق دینا ہوگا۔ سب کو پیار کرنا ہوگا ۔ سب کو عزت دینی ہوگی۔سب کا خیال رکھنا ہوگا۔سب کا اعتماد جیتنا ہوگا۔۔۔دلہن پلنگ سے اٹھی دروازہ کھولا باہر موجود رشتہ داروں کو آواز دیتی ہوئی بولی’’سب اندر آجاؤ یہاں وعظ اور نصیحت کی محفل ہورہی ہے‘‘۔
جناب شہباز شریف کا وعظ اور نصیحت بجا لیکن حکمرانوں کا کام وعظ اور نصیحت کرنا نہیں احکامات دینا اور فیصلے کرنا ہوتا ہے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment