Wednesday, July 10, 2013

دنیا میں سب چور چور

بھلے لوگ کہا کرتے ہیں ’’سب کا بھلاسب کی خیر‘‘۔ ایم کیو ایم والے آج کل کہہ رہے ہیں ’’الطاف بھائی کا بھلا،الطاف بھائی کی خیر‘‘۔ کیا کریں مشکل ہی ایسی آن پڑی ہے۔ ہر وقت دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔جانے کب وہ وقت آجائے’’ہے فونی خطاب جاری اور چکی کی مشقت بھی‘‘۔ فونی خطاب خونی خطاب نہ پڑھ لیا جائے اس لئے کالم کمپوز کراکے بھیج رہے ہیں۔ الطاف بھائی بھی ایسی ہی ایک غلط فہمی میں ماخوذ ہیں۔
تین تلوار کلفٹن پر تحریک انصاف کے دھرنا دینے والوں پرانھوں نے ازراہ ہمدردی اصلی تلواریں چلنے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس نہ جانے کیا سمجھ بیٹھی۔ خطاب کی ویڈیو طلب کرلی۔ ترجمہ کرایا اور الطاف بھائی کے خطاب سے محظوظ ہونے اور کامیاب خطاب کی مبارکباد دینے کے بجائے چند جملوں کا تماشہ بنادیا۔ تلواریں چلنا انھوں نے محاورۃً استعمال کیا تھا۔ ویسے بھی الطاف بھائی کا طرزخطاب یہی ہے اور طرزحیات بھی۔۔۔وفا کروگے وفا کریں گے۔۔۔جفا کروگے جفاکریں گے۔۔۔جس کی دُہائی آج دی جارہی ہے یہ کام تو الطاف بھائی کئی دہائیوں سے کررہے ہیں۔ کراچی پولیس نے تو الطاف بھائی کے جملوں پر کبھی گرفت نہیں کی۔ کہا جاسکتا ہے کراچی پولیس اس سے سوا کربھی کیا سکتی ہے۔ منیرنیازی سے ایک صاحب نے کہا’’میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں‘‘۔ منیرنیازی نے جواب دیا’’تم اس کے سوا میرا کربھی کیا سکتے ہو‘‘۔
شاعر نے کہا تھا۔۔۔ہنگامہ ہے کیوں برپاتھوڑی سی جوپی لی ہے۔۔۔ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے۔۔۔الطاف بھائی جہاں رہتے ہیں وہاں پینے پلانے پر ہنگامہ نہیں ہوتا۔ گھڑی دیکھ کر پی جائے یا گھڑا سامنے رکھ کر۔البتہ ڈاکے اور چوری پر پولیس ایسی متحرک ہوتی ہے کہ اگلا پچھلا سارا کھایا پیا اگلوالیتی ہے۔چوری پر لتامنگیشکر کاایک گانا یاد آجاتا ہے۔
اس دنیا میں سب چور چور،اس دنیا میں سب چور چور
کوئی پیسہ چور،کوئی مرغی چور، کوئی دل کا چور
اس دنیا میں سب چور چور
کوئی چوری کرے خزانے کی، کوئی آنے دو آنے کی
کوئی چھوٹا چور کوئی بڑا چور
یہ بیٹھا چور وہ کھڑا چور
اس دنیا میں سب چور چور
کوئی ڈاکہ ڈالے راتوں میں
کوئی کاٹے باتوں باتوں میں
کوئی گورا چور کوئی کالا چور
کوئی لاٹ صاحب کا سالا چور
اس دنیا میں سب چور چور
آپ سوچ رہے ہوں گے ہم نے یہ کیا گانا سنانا شروع کردیا۔اس ضمن میں آپ ہمارے بارے میں جو چاہے رائے قائم کریں لیکن گانے کے بول’’ چوری کرے خزانے سے‘‘ہرگز ایم کیوایم کے ارکان اسمبلی اور وزیروزراء مراد نہیں ہیں۔ اسی طرح آنے دو آنے کی چوری سے چندے اور فطرے کی رسیدوں کی طرف اشارہ نہیں اور اللہ معاف کرے’’کاٹے باتوں باتوں میں‘‘ اور ’’گورا چور اور کالا چور‘‘ سے روئے سخن الطاف بھائی کی طرف ہو توکہنے والا روسیاہ۔ ایک بار پھر اللہ معاف کرے۔ بھلے زمانے تھے جس زمانے میں یہ گانامشہور ہواچوری  چکاری کی زیادہ اقسام دریافت نہیں ہوئی تھیں۔ اب تو چوری کے اتنے جدید طریقے ایجاد کرلئے گئے ہیں کہ آدمی ’’ارے یہ کیا‘‘ کہہ کر رہ جاتا ہے۔ آج کل منی لانڈرنگ معروف ہے۔ کراچی اور حیدرآباد والے خیرسگالی کے طور پر ایم کیو ایم کو چندہ اور کھالیں دیتے ہیں۔ کھالیں جانوروں کی۔ دشمن کہتے ہیں کہ اس پیسے سے اسلحہ خریدا جاتا ہے۔ جھوٹوں پر لعنت اب پتہ چلا کہ یہ رقم تو الطاف بھائی لندن میں پراپرٹی کے بزنس میں انویسٹ کررہے ہیں۔ لندن پولیس اسے کریمنل منی لانڈرنگ کے زمرے میں لے رہی ہے۔پراپرٹی بزنس کی وجہ یہ ہے کہ الطاف بھائی پانچ سال تک زرداری کے اتحادی رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پراپرٹی کی جیسی پہچان صدر زرداری کو ہے شاید ہی کسی کو ہو۔ صدر زرداری نے کسی دو پیسے فائدے والے سودے کی طرف اشارہ کردیا ہوگا۔ الطاف بھائی نے خریدلیا۔ جہاں تک برطانوی قوانین کی بات ہے تو ایک طویل عرصے تک برطانیہ کی پالیسی تھی کہ جو پیسہ جہاں سے آئے جتنا آئے خوش آمدید۔ خواہ کسی طرح کمایاگیاہو۔جب دہشتگردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی برطانیہ میں دھماکے ہوئے او رپتہ چلا کہ دہشتگردی کے واقعات میں بلیک منی استعمال ہورہی ہے تب منی لانڈرنگ سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا الطاف بھائی کو پتہ ہی نہ چلا کہ قوانین بدل گئے۔ وہ اسی شاہراہ پر چلتے رہے اوران قوانین سے ٹکراگئے۔ برطانوی حکومت کی ذلالت رہی کہ قوانین کی تبدیلی کے بارے میں الطاف بھائی کوخبر ہی نہیں کی۔ اور الطاف بھائی کے ساتھ وہی کچھ ہوگیا جو فوجا سنگھ کے ساتھ ہواتھا۔
فوجا سنگھ سڑک پار کر رہا تھا۔ کہ ایک ٹرک سے ٹکراگیا۔ ہڈیاں تڑواکر اسپتال پہنچا۔ ایک دوست عیادت کیلئے آیا کہنے لگا یار فوجا سنگھ تونے دیکھا نہیں سڑک پر ٹرک آرہا ہے۔ اندھوں کی طرح سڑک پار کرنے چل پڑا۔ فوجا سنگھ روتے ہوئے بولا یار میں نے ٹرک آتے دیکھ لیا تھا اس پر لکھا تھا’’تو لنگ جا ساڈی خیر اے‘‘۔ میں نے تو پڑھ کر اس کے سامنے سے گزرنے کی کوشش کی تھی اب مجھے کیا پتہ تھا کہ ٹرک والا ذلالت کرے گا۔
اہل دانش الطاف بھائی کے بارے میں رائے رکھتے ہیں کہ
دل شوریدہ پریشان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے
انہیں ٹھنڈ پڑگئی ہوگی جب پرسوں پرلے دن الطاف بھائی کا ٹیلی فونک خطاب اچانک ملتوی ہوگیا۔بعض بدخواہ تو آغاحشر کے ڈرامے رستم وسہراب کی طرح ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آئے’’رستم کس حال میں ہے؟‘‘۔ دوسرے نے جواب دیا’’شیر پنجرے کے جال میں ہے‘‘۔ الطاف بھائی نہ رستم ہیں اورنہ شیر۔ شیر ایک جانورہے اور جنگل کا بادشاہ۔ جبکہ الطاف بھائی کراچی کے بادشاہ ہیں۔ جہاں کوئی گلی کوچہ ایسا نہیں نوجوانوں کی لاشیں نہ اٹھی ہوں۔
میرے شہر میں میری نسل لوٹنے والے
پتہ ہے کس طرح بیٹا جوان ہوتا ہے
لیکن کسی کو جرات نہیں کہ پوچھ سکے۔۔۔اے رہبر ملک و قوم ذراآنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا۔۔۔کچھ ہم بھی سنیں ہم کو بھی بتا۔۔۔یہ کس کا لہو ہے کون مرا۔۔۔کون نشاندہی کریگا، اپنی جان سب کو پیاری ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کس کا ہے لہو کون مرا۔۔۔کسی کو خبر نہیں۔۔۔ وہ انسان ہیں۔۔۔وہ پٹھان ہیں۔۔۔وہ پنجابی ہیں۔۔۔وہ مہاجر ہیں۔۔۔وہ شیعہ ہیں۔۔۔وہ سنی ہیں۔۔۔اور آج کل لیاری میں وہ کچھی ہیں۔قتل وغارت کے باعث نقل مکانی پر مجبور۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment