Wednesday, June 19, 2013

کھلے آسمان تلے

ان عوام سے اللہ ہی پوچھے گا ایسے حکمران انتخاب کرتے ہیں جو اللہ سے کم امریکہ سے زیادہ ڈرتے ہیں۔لیکن پاکستان کے حکمران کیا واقعی پاکستان کے عوام انتخاب کرتے ہیں۔۔۔1996ء کے وسط میں ایک پاکستانی اعلی افسر کی سی آئی اے اسٹیشن چیف سے ملاقات ہوئی۔سی آئی اے چیف نے یہ کہہ کر پاکستانی افسر کو حیران کردیا کہ بہت جلدپاکستان میں انتخابات ہونے والے ہیں جن میں فلاں جماعت کو دو تہائی اکثریت ملے گی۔پاکستانی افسر نے حیرت سے کہا لیکن ابھی تو الیکشن میں دوڈھائی سال کا عرصہ باقی ہے۔
سی آئی اے اہلکار نے ایک طویل قہقہہ لگاکر کہا’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘۔اس ملاقات کے چند ماہ بعد مرتضی بھٹو کراچی میں قتل کردئے گئے اور 6نومبر1996ء کو فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور اگلے چند ماہ بعد بے خبر پاکستانی عوام نے طویل قطاروں میں لگ کر سردی کی پرواہ کئے بغیر اس امریکی منصوبے میں رنگ بھردئے۔۔۔امریکی کہتے ہیں جمہوریت ہمارا گھوڑا ہے جو امریکی گھوڑے پر بیٹھے گا کام بھی امریکہ کے کریگا۔خواہ وہ دہشتگردی کی’’ہماری جنگ‘‘ہو۔یا آئی ایم ایف کے ایجنڈے کی تکمیل بذریعہ بجٹ۔بجٹ کا مقصد معاشی نمو کی رفتار تیز کرنا بتایا جاتا ہے۔ایک ایسے ملک میں جہاں بجلی کی قلت شہروں اور قصبوں سے لیکر صنعت اور زراعت تک کو برباد کرچکی ہو،دہشتگردی کی جنگ پورے ملک میں پھیلی ہو،معیشت میں توسیع اور غیر ملکی سرمایہ کاری رکی ہوئی ہو،حکومت کی مدت امریکی رضامندی سے مشروط ہو وہاں یہ جانتے ہوئے بھی کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط معیشت کی رفتار تیزکرنے کے ایجنڈے کو تباہ کرکے رکھ دے گی وہاں آئی ایم ایف کی مرضی کے مطابق بجٹ پیش کرنے کے سواکیا چارہ ہے۔
بجٹ تقریر میں اسحاق ڈار فرماتے ہیں’’ایک ایسی حکومت جو خود کو ایسی کاروباری سرگرمیوں میں مصروف رکھے جو نجی شعبہ ایک مارکیٹ نظام کے ذریعے احسن طریقے سے چلا سکتا ہے وہ درحقیقت معاشی نظام میں ایک بہت بڑا بگاڑ اور ناانصافیاں پیدا کرتی ہے‘‘۔یہ فرمان بجا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نجکاری کا عمل بجلی کی قیمت کو بڑھا رہا ہے تاکہ نجی مالکان بجلی کے کاروبار میں زیادہ نفع کماسکیں۔ ہماری بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 19ہزار8سو55میگاواٹ ہے پانی کم ہو تو یہ پیداواری صلاحیت کم ہو کر تقریباً 15ہزار میگاواٹ رہ جاتی ہے۔گرمیوں میں ہمیں ساڑھے17ہزار میگاواٹ اور سردیوں میں ساڑھے 11ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ہماری پیداوار ہماری ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔ ہوتا یہ ہے حکومت نجی مالکان سے جتنی بجلی خریدتی ہے انتظامی بے قاعدگیوں اور بجلی چوری کی وجہ سے بجلی کی فروخت کے ذریعے اتنی رقم حاصل نہیں کرپاتی۔ حکومت نجی بجلی گھروں کو مکمل ادائیگی نہیں کرپاتی۔لہٰذا نجی بجلی گھر فرنس آئل کی خریداری کم کردیتے ہیں ، تیل کی ادائیگیاں روک لیتے ہیں اور اپنے منافع کو برقرار رکھنے کے لئے بجلی کی کم پیداوار دینا شروع کردیتے ہیں۔اس گردشی قرضے Circular Debtکی وجہ سے پیداواری صلاحیت ہونے کے باوجود 10ہزار میگاواٹ سے بھی کم بجلی پیدا کی جارہی ہے۔بجلی کی پیداوار کو ایک کاروبار بنادیا گیا ہے۔جس طرح ماضی میں نجکاری کے ذریعے بجلی کی ضروریات پورا کرنے کا عمل ناکام رہا ہے مستقبل میں بھی کامیابی مشکل ہے جبکہ سستی اور وافر بجلی ملک کی انتہائی ضرورت ہے۔
جہاں تک ٹیکسوں کا معاملہ ہے ہرسال یا تو ٹیکسوں کی شرح میں اضافی کیا جارہا ہے یا نئے نئے ٹیکس عائد کئے جارہے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے ک محنت کش اور نوکری پیشہ طبقے کی مشکلات میں اضافہ کیا جارہا ہے مسلسل بڑھتے ٹیکس ان کی آمدنیوں کو کھاتے چلے جارہے ہیں۔ حکومت کے محاصل میں سیلز ٹیکس کا حصہ پہلے ہی 9فیصد سے بڑھ کر 43 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ جس کی وجہ سے خوراک ادویات اور لازمی سروسز کی قیمتیں خوفناک حد تک بڑھ گئی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کمیونزم کے بعد سرمایہ داریت بھی انسانیت کے دکھوں کا مداواکرنے میں ناکام رہا ہے مداوا اسلام کے پاس ہے۔ بجلی کی نجکاری اسلامی احکام کے خلاف ہے۔ اسلام بجلی کے اثاثوں کے ساتھ کوئلہ تیل اورگیس کو عوامی ملکیت قراردیتا ہے۔یہ وسائل نہ تو ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں اور نہ کسی فرد کی۔ ریاست ان وسائل سے متعلق امور کی صرف نگرانی کرتی ہے اور اس بات کویقینی بناتی ہے کہ ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے ریاست کا ہر شہری مستفید ہو سکے اسی طرح ظالمانہ ٹیکسوں کا نظام بھی اسلام کے خلاف ہے اسلام آمدنی اور اخراجات پر ٹیکس کو ٹیکسوں کے حصول کا ذریعہ نہیں بناتا۔اسلام میں ٹیکسوں کی بنیاد بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد بچنے والی فاضل دولت اور اصل پیداوار ہے۔اس طرح کم آمدنی والوں اور غریبوں پر ٹیکس لگانے کا اسلام میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بجٹ میں لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے 75ارب روپے کا انکم سپورٹ پروگرام ایک خوشنما دھوکہ اورفراڈ ہے۔ ملک میں ایسے غریب کتنے ہیں 12سو روپے ماہانہ سے جو خوشحال ہوسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بجٹ کے بعد عوام کو جس طرح تارے نظر آنے لگے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ان کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہاتھ ہوگیا ہے ایک مرتبہ پھر ان کا تنبو چرالیا گیا ہے۔جیسا کہ نہال سنگھ اور ہرنام سنگھ کے ساتھ ہوا تھا۔
نہال سنگھ اور ہرنام سنگھ نے پہاڑ کی سیر کا پروگرام بنایا۔دونوں پہاڑ پر پہنچے۔ ایک ہموار سطح پر خیمہ گاڑا۔بستر بچھائے اور پہاڑ کی چوٹی سر کرنے چل نکلے۔رات تھکے ہارے واپس آئے اور کچھ دیکھے بغیر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد نہال سنگھ کو کچھ خیال آیا ہرنام کو مخاطب کیا اور پوچھا’’تجھے کچھ نظر آرہا ہے؟‘‘۔’’ہاں اوپر کھلا آسمان ہے۔جگمگ جگمگ کرتے تارے ہیں اور پورا چاند ہے‘‘۔ہرنام سنگھ نے لہکتے ہوئے جواب دیا’’اوئے خبر ہے اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘۔نہال سنگھ نے پوچھا’’ہاں خبر ہے،اس کا مطلب ہے گروہم پر مہربان ہے۔اس نے ہمارے لئے یہ خوبصورت دنیا بنائی ہے‘‘۔ہرنام سنگھ نے جواب دیا۔’’اوئے ہوش کر‘‘نہال سنگھ نے غصے میں کہا’’اس دا مطلب یہ نہیں ہے۔اس دا مطلب ہے کہ کوئی ہمارا تنبو چراکر لے گیا ہے‘‘۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment