Friday, March 6, 2015

2015ء کا پاکستان

وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ دنوں فرمایا: ’’2018ء کا پاکستان 2013ء سے مختلف ہوگا‘‘۔
اس مہلت عمل پر ایک واقعہ سن لیجئے۔ ایک بادشاہ سلامت اصطبل کے نگراں سے ناراض ہوگئے اور اسے موت کی سزا سنادی۔ اس زمانے میں بادشاہ بننے کے لئے جمہوری عمل سے گزرنا پڑتا تھا اور نہ پھانسی دینے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کرنی پڑتی تھیں۔ جلاد سزا یافتہ کو لے کر چلنے لگا تو اس نے بڑی لاپرواہی سے بادشاہ سلامت سے کہا’’عالی جاہ! میں ان دنوں آپ کے پسندیدہ گھوڑے کو ایک خاص ٹریننگ دے رہا ہوں جس کے نتیجے میں وہ ایک سال بعد ہوا میں اڑنے لگے گا۔ افسوس میری موت سے آپ ہوا میں اڑنے سے محروم رہ جائیں گے‘‘۔ بادشاہ نے یہ سن کر سزا ایک سال کے لئے موخر کردی۔ کسی نے اس شخص سے پوچھا ’’ایک سال بعد کیا ہوگا؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’ممکن ہے ایک سال کے اندر میں اپنی طبعی موت مر جاؤں۔ یہ بھی ممکن ہے اس دوران بادشاہ کو موت آجائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سال بعد گھوڑا واقعی ہوا میں اڑنے لگے‘‘۔
صاحبو! اسی طرح ممکن ہے 2018ء سے پہلے ہی حکومت اپنی عمر کو پہنچ جائے اور یہ بھی ممکن ہے 2018ء اہل پاکستان ترقی کے گھوڑے پر سوار ہوکر واقعی ہوا میں اڑنے لگیں۔ اس کی قدرت سے کیا بعید ہے۔ فی الحال 2015ء میں تو پاکستان کی حالت حضرت تابش دہلوی کے جہانگیر روڈ کی بستی کے کوارٹر جیسی ہے۔
در بھی دیوار بھی خمیدہ ہے
ایک اک کمرہ آبدیدہ ہے
چھت کے روزن سجھائی دیتے ہیں
دن میں تارے دکھائی دیتے ہیں
جب بھی بدلی کوئی گرجتی ہے
اینٹ سے اینٹ آپ بجتی ہے
کمرہ اور کوٹھری ٹپکتی ہے
ایک اک اولتی ٹپکتی ہے
رات دن کرتے رہتے ہیں کھڑ کھڑ
گھر کے سارے کواڑ ہیں پاپڑ
وزیراعظم نوازشریف 2013ء کے جس الیکشن میں کامیابی کے نتیجے میں آج بر سر حکومت ہیں اس کی الیکشن مہم میں آپ کے وعدوں نے سب کی زبانیں گنگ کردی تھیں۔ کسی نے یقین کیا اور کسی نے نہیں۔ لیکن سب سبحان اللہ کر رہے تھے۔ 2015ء میں محض دو سال بعد آج سب کے دماغ ماؤف ہیں۔ دماغ تو ماؤف ہیں لیکن ایک بات ہے کہ ہم ایک شکر گزار قوم بنتے جارہے ہیں۔
کل رات بیوی بچے ایک تقریب سے بخیریت لوٹ آئے ہم اللہ کے حضور سجدہ میں گرگئے۔ چونکہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہے اس لئے ملک بھر میں درسگاہوں کی دیواریں فصیلوں کی طرح بلند اور اونچی کی جارہی ہیں۔ جو والدین رحمان ملک کلب کے ممبر تھے سورۃ اخلاص پڑھتے بھی لڑکھڑا جاتے تھے وہ بھی بچوں کو اسکول بھیجنے سے پہلے پورے گھر میں آسان دعاؤں کی کتاب ڈھونڈتے اور بچوں پر دم درود کرتے نظر آتے ہیں۔ بچے خیریت سے گھر آجائیں تو ڈبڈبائی آنکھوں سے رب کا شکر بجا لاتے ہیں۔ اس میں گزشتہ حکومتوں کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کی دو سالہ کارکردگی کا بھی دخل ہے کہ ادویہ سازی کے شعبے میں بھی ہماری ترقی دیدنی ہے۔ پہلے مارکیٹ میں صرف ایک نمبر اور دو نمبر دوائیں دستیاب تھیں اب تین نمبر اور چار نمبر دوائیں بھی موجود ہیں۔ ڈاکٹرز کے نسخے میں سرفہرست محض ان کے کلینک سے ملحق میڈیکل اسٹورز پر موجود۔ لہذا دوا اثر کرجائے تو یہ بھی مقام شکر۔ پانی پیتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ ہیپاٹائٹس سنا ہے بڑا مہلک مرض ہے۔لوڈشیڈنگ اپنے نظام الاوقات تک محدود رہے تو یہ بھی الحمد رب العالمین ہے۔ بجلی اچانک چلی جائے گھنٹوں نہ آئے تو ایس ایم ایس اور افواہوں کی آندھی میں دل ڈوبنے لگتا ہے۔ پھر اچانک آجائے تو دل شکر سے بھر جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں پیٹرول پمپوں پر پٹرول بھی تب ملتا تھا جب منظور خدا ہوتا تھا۔ ورنہ ایک پمپ سے دوسرے پمپ تک میاں دے نعرے وجن رہتے۔ جہاں تک گیس کا معاملہ ہے یہ گیس کے مریضوں کے پیٹ میں تو ہمیں است وہمیں است وہمیں است کہتی دوڑتی پھرتی ہے ورنہ سب کو معلوم ہے سردیوں میں ’’اس چمن میں اس کا گزر کہاں‘‘۔ گزر ہوجائے تو اس کا کرم اس کی عطا جس کے کرم جس کی عطا کی کوئی حد ہے نہ حساب۔
وزیراعظم نوازشریف کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ نااہل اور غیر موثر وزراء سے جان چھڑائیں۔ مشورہ دینے والوں کی سادگی پہ قربان عرض ہے کہ جو حکمران چند پسندیدہ مصاحبین یا کچن کیبنٹ کے زور انشاء و منشاء پر حکومت چلاتے ہیں انکے دور میں ایک فن خوب ترقی کرتا ہے، خوشامد کا فن۔ وہ جنہیں نااہل اور غیر موثر کہا جارہا ہے وہ منٹو کی کھیلی کھائی عورت کی طرح اس فن کے ہر غمزے، ہر ادا اور چلتر سے محض واقف ہی نہیں بلکہ ماہر فن ہیں۔ خوشامد وہ فن ہے جو ہر عہد میں باریاب  ہر عہد میں سرخرو۔ سرسید کہا کرتے تھے: ’’دل کی جس قدر بیماریاں ہیں ان میں سب سے زیادہ خوشامد کا اچھا لگنا ہے‘‘۔ ہمارے ہر حکمران کو خوشامد خوش آتی ہے اور بہت آتی ہے۔ ذولفقار علی بھٹو سابق وزیراعظم نے ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ایوب خان کے سنہری دور میں ایک شخصیت کی طرف سے یہ تجویز؂ پیش کی گئی کہ پاکستان میں وراثتی بادشاہت قائم کردی جائے اور ایوب خان کو پہلا بادشاہ بنادیا جائے۔ ایوب خان نے اس تجویز کو بڑی سنجیدگی سے لیا اور نواب آف کالاباغ اور مجھ پر مشتمل ایک دو رکنی سپریم کونسل بنائی۔ ہم نے سفارش کی کہ وہ اس تجویز کو فراموش کردیں۔ ایوب خان نے اس سفارش پر یہ رائے دی کہ تجویز اتنی بھی بیکار اور فضول نہیں تھی‘‘۔ تو صاحبو کچھ تو جنوں کے آثار ہوتے ہیں جنہیں اہل خوشامد دیوانگی میں بدل دیتے ہیں کسی بھی حکومت کی کابینہ کاجائزہ لے لیجئے اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی جو کسی ہیرا پھیری گٹھ جوڑ ضمیر فروشی بدعنوانی کسی سیاسی حادثے یا کسی برادری کے پس منظر کی بناء پر شریک اقتدار ہوئے ہیں۔ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کی تصاویر اخبارات میں شایع ہوئی ہیں۔ ایک ایک کا سیاق و سباق اور آگا پیچھا ملاحظہ فرمالیجیے سب اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بڑے دیدہ ور لوگ ہوتے ہیں۔ ہوا کے رخ پر گیند پھینکتے ہیں۔ لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون ہی نہیں بھانپ لیتے جوابی مضمون بھی ان کے نوک زباں ہوتا ہے جو اس قدر دل ربا اور دل آراء ہوتا ہے کہ دلنشین ہوتا چلا جاتا ہے۔ کون ہے جو ان سے جان چھڑانا چاہتا ہے! کون ہے جو ان سے جان چھڑا سکتا ہے؟ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ایسے حکمران سمندر میں کیچوے پکڑ سکتے ہیں ستاروں پر کمند ڈالنے کے قابل نہیں رہتے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment