
فیض صاحب سے بات آغاز کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کرے
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں
ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جان جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ہمارا کیاہے
یہ سخت ترین سوال تسلسل کے ساتھ آج پھر اٹھائے جارہے ہیں۔25 فروری۔۔۔ وزارت داخلہ نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت کاروائیوں کے بارے میں وزیراعظم نوازشریف کو رپورٹ پیش کی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹ کے مطابق معلومات کی بنیاد پر دہشت گردی میں ملوث اور معاون کے طور پر کام کرنے والے 19 ہزار سے زائد افراد کو سرچ آپریشنز کے دوران گرفتار کیا گیا۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق 24 دسمبر 2014ء سے 21 فروری 2015ء تک 19 ہزار 789 سرچ آپریشنز کیے گئے اور 19 ہزار 272 افراد کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ مذہبی منافرت پر مبنی تقاریر کرنے پر 580 مقدمات درج کیے گئے اور لاؤڈ سپیکر کے غلط استعمال پر 2497 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
پاکستان میں کسی کو دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے ہمدردی نہیں ہے۔ عدل ہر انصاف پسند شہری کی آرزو ہے۔ لیکن عدل کے نام پر جنگل کا قانون کسی کو مطلوب نہیں۔ وطن عزیز میں 2001ء سے 2013ء کے درمیان 56 ہزار سے زائد پاکستانی دہشت گردی کی نظرہوئے۔ 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد جس میں 149 بچے شہید کردیے گئے دہشت گردوں کو پیغام دیا گیا کہ اب تشدد کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کردی گئیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد 342 اراکین پارلیمنٹ سے فوجی عدالتوں کی تائید کے لئے صرف تین افراد کی منظوری کافی تھی۔ نوازشریف جن کے پاس 189 اراکین ہیں۔ آصف علی زرداری 56 اور الطاف حسین 24۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ اراکین اپنے پارٹی رہنما کی ہدایت کے خلاف نہیں جاسکتے۔ یوں اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کا قیام باآسانی عمل میں لے آیا گیا۔ کسی نے جمہوریت کی دہائی دی نہ آئین کی۔ عمران خان کو اپنا دھرنا ختم کرنا پڑا۔ واقعات اتنی تیزی سے پیش آئے کہ بڑے بڑوں کے ذہن چکراکر رہ گئے۔ فوجی عدالتیں واحد حل ہیں اس نظریہ ضرورت کو سب نے تسلیم کرلیا۔
وزیراعظم محمد نوازشریف نے بیس نکاتی ایکشن پلان کا اعلان کیا۔ جس کے متعلق انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ 2008ء میں اقوام متحدہ کی بنائی گئی ایک پالیسی کا چربہ ہے۔ جس طرح بنیادی سوالات کا جواب دیے بغیر ہم امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن گئے اسی طرح ردعمل میں ایک ایسی جنگ چھیڑدی گئی جس میں اصل دشمن محفوظ ہے لیکن شہریوں کی جان عذاب کردی گئی ہے۔ فوجی عدالتیں تیز رفتار فیصلے کرتی ہیں۔ کسی انسان کی خواہ وہ مجرم ہو یا نہ ہو جان لینا ایک غیر معمولی اقدام ہے اس لیے احتیاط کے تمام تقاضے ملحوظ رکھنے چاہیے۔ مختلف سطح پر اپیلوں اور صلح صفائی کا حق بھی اسے دیا جانا چاہیے۔ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کو کم ازکم سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہونا چاہئے۔ موجودہ جنگی صورتحال میں فوجی عدالتیں ضروری ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ مقدمات کا اندراج تفتیش اور چالان بھیجنے کا اختیار حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ فوجی عدالتوں میں بھیجے جانے والے مقدمات کے پولیس تفتیش کار خصوصی مہارت کے حامل ہونے چاہیے۔ وہ بہتر تربیت یافتہ اور اپنے کام کے ماہر ہونے چاہئیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں 1861ء کی پولیس کارفرما ہو جہاں ڈھنگ کی تفتیش ہوتی ہو اور نہ پولیس کی تربیت اور بازپرس اور جرم کی کافی شہادت کے بغیر کسی کو بھی گرفتار کیا جاسکتا ہو وہاں معصوم شہریوں کو پولیس سے کون بچائے گا؟ مجرموں کا نہیں پولیس شہریوں کا پیچھا کرتی اور انہیں سزا دیتی ہے۔ دو ماہ پہلے کی بات ہے کہ ایک خاتون اپنی بیٹی اور معذور بیٹے کے ساتھ گرفتار ہوئیں۔ پولیس نے دعوی کیا کہ یہ جیل پر حملے کی تیاری کررہی تھی۔ میڈیا پر خوب تشہیر ہوئی۔ مگر اگلے روز پتہ چلا کہ خاتون گھریلو تنازع کا شکار ہوئی تھی۔ اسی طرح جب دہشت گردی کے خلاف قوم آگے بڑھی فوجی عدالتیں قائم ہوئیں تو وزیراعلی پنجاب نے حکم صادر کیا کہ پنجاب کی کارکردگی دوسرے صوبوں سے برتر ہونی چاہیے۔ کارکردگی اس طرح برتر کی گئی کہ ایک طرف ہزاروں علمی کتابیں جن میں مولانا سید ابو الاعلی مودودی، مولانا مفتی تقی عثمانی اور مولانا یوسف لدھیانوی جیسے جید علماء کرام کی کتابیں زد پر آگئیں۔ نہ کوئی منصوبہ بندی کی گئی اور نہ علماء کرام سے مشورہ کیا گیا۔ اسی طرح جو لوگ فورتھ شیڈول کے تحت رہا تھے مقررہ مدت کے بعد تھانوں میں حاضری دیتے تھے صوبے بھر میں ان کی پکڑ ڈھکڑ شروع کردی گئی۔ اس کا بھی جواز تراشا جاسکتا ہے لیکن جو افراد دستیاب نہ ہوسکے ان کے اہل خانہ کی زندگی اجیرن کردی گئی۔ پورے پورے خاندان جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے اٹھالیے گئے۔ لاہور کے ایک معزز جگرانوی خاندان کے ایک فورتھ شیڈول فرد کو گرفتار کرنے میں ناکامی کی صورت میں اس کے بھائیوں اور ان کی بیویوں کے نام چارج شیٹ لکھ دی گئی۔ چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا اور ایک خاتون جن کی گود میں معزور بچہ تھا گرفتار کرلی گئیں۔ وہ خاتون آج بھی کوٹ لکھ پت جیل میں اپنے بچے کے ساتھ قید ہیں اور ضمانت کی منتظر۔ اسی طرح ہزاروں مساجد کے امام بھی لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیے گئے۔ دینی مدارس کے طلباء کا پیچھا کیا جارہا ہے۔
دہشت گردی کی روک تھام کے لیے پورے ملک میں سموں کی تصدیق جاری ہے۔ یہ ایک اچھا عمل ہے لیکن دہشت گردی کے تدارک سے اس کا تعلق ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا دہشت گرد موبائل فونز کے علاوہ کوئی اور ذریعہ استعمال نہیں کرسکتے۔ کیا وہ پانچ ہزار امریکی جنہیں حسین حقانی نے دبئی میں بیٹھ کر ویزے دیے تھے کیا وہ بھی سموں کی تصدیق کے اس عمل سے گزرتے ہوئے ہمارے تفتیشی دائرہ کار میں شامل ہوجائیں گے۔ اسی طرح وہ افراد جو گرفتار کیے گئے ہیں کیا ان میں وہ 650 یا ان میں سے کوئی یا چند شامل ہیں جن کے سر کی قیمت مقرر ہے۔ حکومت کب اور کہاں ان 20 ہزار لوگوں پر مقدمات چلائے گی؟ ان کے پس منظر اور جماعتی حوالے کی کیا تفصیلات ہیں انہیں وکیلوں سے مشورے کی سہولت حاصل ہے انہیں اہل خانہ سے ملنے دیا جارہا ہے۔ کیا ان کے لئے ضمانت کا کوئی تصور موجود ہے۔ کیا ان کے کوئی حقوق ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم توازن اور اعتدال سے دور بلکہ محروم ہوتے جارہے ہیں۔
ایک خبر کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی پینٹاگون میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور دیگر اعلی فوجی حکام کو افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے کردار کے ٹھوس شواہد پیش کیے اور بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی فہرست حوالے کی ہے۔ وزیراعظم، وزیرداخلہ اور وزیردفاع بھی بھارت کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے لئے ممکن ہے کہ وہ امریکی تائید کے بغیر افغانستان میں ایسی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ کیا امریکی اتنے ہی بے خبر ہیں کہ ہمارے کہنے کے بعد وہ پاکستان میں بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے سے آگاہ ہونگے۔ بھارت امریکہ کا فطری اتحادی جبکہ ہم محض ایک تکلیف دہ تزویراتی اتحادی۔ امریکی مفادات خطہ میں پاکستان کا وجود چاہتے ہیں لیکن ایک کمزور پاکستان۔ خطہ میں امریکہ کا ہر قدم اسی جانب پیش قدمی ہے یہی پاکستان میں دہشت گردی کی حقیقت اور اصل سبب ہے۔ عمران خان کا یہ جملہ حاصل کلام ہے کہ امریکہ کی جنگ میں شرکت سے ہماری بڑی تباہی ہوئی ہے۔
امریکہ کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب نہیں تھے
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment