Thursday, February 26, 2015

جمہوری اندھیرے

الطاف حسین (بھائی) نے لندن سے اہل وطن کو مطلع فرمایا ہے کہ ’’موجودہ صدی جمہوریت کی صدی ہے۔ جاگیردارانہ، قبائلی اور سرمایہ دارانہ مائنڈ سیٹ جمہوریت کی کھلی نفی ہے‘‘۔ جاگیردارانہ، قبائلی اور سرمایہ دارانہ نظام تینوں ہی استیصال کی بدترین صورتیں ہیں لیکن سرمایہ داریت نے جس طرح موجودہ عہد میں انسانیت کو برباد کیا ہے اس کا جاگیردارانہ اور قبائلی نظام سے کوئی تقابل نہیں۔ موجودہ صدی میں دو باتیں ایمان کا درجہ رکھتی ہیں۔
۱۔ کسی کو عوام کو روزی روٹی جان مال اور دیگر بنیادی ضرورتوں اور انسانی حقوق سے محروم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
۲۔ لیکن اگر یہ سب کچھ جمہوریت کی وجہ سے ہے تو پھر اس نظام کو چلتے رہنا چاہئے۔
جمہوریت کے مداح یہ باور کراتے نہیں تھکتے کہ یہی بہترین نظام ہے۔ صدہاسال کے تجربات کے بعد جو انسانیت نے وضع کیا ہے مگر اس کا کیا کیاجائے کہ کرۂ خاک پر زندگی گزارنے پر مجبور لوگوں میں جمہوریت کی پسندیدگی کا گراف تیزی سے گررہا ہے۔ جمہوریت جدید تہذیب میں سب سے فعال نظام ہے۔ جمہوریت کی سب سے پر کشش تعریف ہے جمہوریت جمہور کی حکومت۔ لیکن ایک نئی صدی میں داخل ہونے کے بعد تنگدستی بھوک بیماری اور علم سے محرومی سے دست و گریباں انسانوں کی غالب اکثریت کی رائے یہ ہے کہ جمہوریت نے دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام کے چند بے مروت آقاؤں کی غلامی میں دے دیا ہے۔ جہاں تک پاکستان اور جمہوریت کا تعلق ہے تویہ کس قدر ملال انگیز حقیقت ہے کہ ہر جمہوری حکومت میں ہم پہلے سے کہیں زیادہ بری طرح مسخ کیے جارہے ہیں۔
فیض نے کہاتھا’’یہ داغ داغ اجالایہ شب گزیدہ سحر‘‘۔ یہ مصرع پاکستان پر چسپاں ہوکر رہ گیا ہے۔کتنے عہد گزرگئے لیکن روشن صبح طلوع نہیں ہوئی۔نئی صبح کے تعاقب میں ہر جمہوری تبدیلی کو عوام نے امید بھری نظر سے دیکھا۔روز و شب کی تلخی میں شاید کمی آجائے لیکن کچھ ہی دن بعد احساس ہوتا ہے کہ وزیراعظم کا نام تبدیل ہو ا ہے، وزراء کرام نئے آگئے ہیں مگر عوام کیلئے وہی بھوک، ننگ، افلاس، محرومی، بے بسی اور اندھیرے ہیں۔ زرداری ہوں یا نوازشریف عوام کو ریلیف دینے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ عوام کی مشکلات میں اضافے کے باب میں نئے آنے والے پچھلوں سے بڑھ کر ہیں۔جس کی بھی فتح ہوتی ہے وہی عوام پر چڑھ دوڑتا ہے۔ 2013ء میں نوازشریف نے اقتدار میں آتے ہی بجلی کی قیمتوں میں 35 فیصد اضافہ کردیا اور بجلی کے شعبے میں عوام کو دی گئی وہ سہولت جو پرویز مشرف اور زرداری واپس لینے کی ہمت نہیں کرسکے نوازحکومت نے آتے ہی وہ سبسڈی عوام سے واپس لے لی۔ دوران الیکشن وعدے کیے گئے تھے کہ چند ماہ میں بجلی کے بحران کا خاتمہ کردیا جائے گا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد کہا گیا کہ 2017ء تک لوڈشیڈنگ ہر حال میں ختم کردی جائے گی۔ اب نیپرا کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2020ء تک ملک میں لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی۔ 2020ء میں ملک میں بجلی کی طلب اور رسد میں 1200 میگاواٹ کا سامنا ہوگا۔ نیپرا کی طرف سے جاری کردہ اسٹیٹ آف انڈسٹری 2014ء رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے دعوؤں کے باوجود ملک میں لوڈشیڈنگ جاری رہے گی۔ پاور سیکٹر کو آئندہ برسوں میں بھی متعدد چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گڈانی پاور منصوبہ جس پر ڈیڑھ سال تک کام کیا گیا تھا اس منصوبے کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
بجلی کے موجودہ مسائل کے ڈانڈے بھی پاکستان کی جمہوری حکومتوں سے جا ملتے ہیں۔ نوازشریف جب پہلی مرتبہ برسراقتدار آئے تو ۱۹۹۲ء میں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے دباؤ پر ان کی حکومت کی کیبنٹ برائے نجکاری نے واپڈا کے پاور ونگ کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا۔ پرائیویٹ شعبے میں بجلی پیدا کرنے کے لئے جنریشن اور تقسم کرنے کے لئے ڈسٹریبیوشن کا شعبہ قائم کردیا گیا۔ محترمہ بے نظیر کی حکومت آئی تو اس نے ۱۹۹۴ء میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی خواہش پر نواز حکومت کے واپڈا کے بارے میں فیصلوں کو برقرار رکھا اور دو قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے ملک کے باقی ماندہ وسائل کو بھی پرائیویٹ پاور پراجیکٹ کے نام سے کام کرنے والے بجلی پیدا کرنے کے جدید ٹھیکیداروں کے پاس گروی رکھ دی۔ آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدوں میں ملک و قوم کے مستقبل کو اندھیروں میں غرق کرنے کا کس طرح اہتمام کیا گیا ملک و قوم کے خلاف کیسی سازش کی گئی اس کا اندازہ اس شق سے کیجئے جس میں درج ہے
’’اگر یہ پاور پلانٹ بند بھی رہیں گے تو پھر بھی ان کے مالکان کو قوم کی جیب سے ادائیگیاں کی جائیں گی۔‘‘
۱۹۹۷ء میں نوازشریف دوبارہ اقتدار میں آئے تو ان معاہدوں میں شامل کچھ لوگوں کا احتساب کیاگیا لیکن اب تیسری مرتبہ اقتدار میں آئے تو آئی پی پی ز کے لئے ان کی سپردگی کا یہ عالم ہے کہ آئی پی پی ز کے معاملات میں شفافیت کی چھان بین کیے بغیر گردشی قرضے سے نجات کے نام پر انہیں چارسواسی ارب روپے ادا کردئے گئے۔ نیپرا کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان چار سو اسی ارب روپے کی ادائیگی کے باوجود عوام کو ریلیف نہیں ملا اور گزشتہ سال عوام کو بارہ سے اٹھارہ گھنٹے تک لوڈشیڈنگ برداشت کرنا پڑی۔ ترجمان وزیراعظم ہاؤس کا کہنا ہے کہ نیپرا کی لوڈشیڈنگ سے متعلق رپورٹ من گھڑت اور گمراہ کن ہے۔ وزارت پانی و بجلی نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا ہے ان تردیدوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیپرا کی رپورٹ درست ہے کیونکہ ہر بری خبر کی یہ خوبی ہے کہ پاکستان کے باب میں درست ثابت ہوتی ہیں۔
اردو کے بے بدل شاعر فیض احمد فیض کی عربی دانی کے پیش نظر خلیفہ عبدالحکیم نے انہیں دعوت دی کہ وہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ سے وابستہ ہوکر تصنیف و تالیف کی زندگی گزاریں۔ فیض صاحب نے خلیفہ محترم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’فکر کی خاص راہوں پر میں اتنا آگے بڑھ چکا ہوں کہ واپسی کا سفر میرے لئے مناسب ہے اور نہ ممکن‘‘۔ کچھ یہی حال ہمارے حکمرانوں کا بھی ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے یہ حکمران عوام کی توقعات کو آسمان تک پہنچادیتے ہیں لیکن اقتدار میں آتے ہی فکر و عمل کی ان راہوں پر چل نکلتے ہیں جن کا عوام کی بہبود سے دور پرے کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ اور المیہ یہ ہے کہ ان راہوں سے ان حکمرانوں کی واپسی کی بھی کوئی امید نہیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment