
صاحبو ! خبر آئی ہے کہ مصر میں 27 ہزار مساجد بند کردی گئی ہیں۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان کا رقبہ 80 اسکوائر میٹر سے کم ہے۔ یہ مساجد زیادہ تر دیہاتوں، رہائشی اور کمرشل عمارتوں اور فیکٹریوں میں قائم تھیں جن میں معمول کی پنج وقتہ نماز تو ادا کی جاتی تھی لیکن جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تھی۔ کہا گیا ہے کہ یہ مساجد وہ ٹائم بم تھیں جو قومی سکیورٹی کے لیے خطرہ تھیں جن کے ذریعے نوجوانوں میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کو فروغ حاصل ہورہا تھا۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے۔ چودھویں دن مسجد نبوی کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد ایک عمارت نہیں اسلامی تمدن کی ہم زاد تھی۔ مسلمان دنیا کے جس گوشے میں پہنچے۔ روشن مساجد تعمیر کیں۔ تعمیرات کے اعتبار سے روش تازہ کی عکاس، مسلمانوں کی عبادات، انفرادی اور اجتماعی معاملات سے متعلق مرکزی نکتہ۔ فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شہر بسانے کی بابت استفسار کیا گیا۔ حکم دیا ’’شہر کے وسط میں ایک پر رونق مسجد اور اس کے اردگرد بازار اور چار طرف دو رویہ سڑکیں۔
اقبال ایک خط میں سفر اسپین کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ پر لکھی گئی۔ الحمراء کا مجھ پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی کیفیت میں پہنچا دیا جو مجھے کبھی نصیب نہیں ہوئی‘‘۔
تیرا جلال و جمال مرے خدا کی دلیل ہے
وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل
تیری بناء پائیدار، تیرے ستون بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
تیرے در و بام پر وادیٔ ایمن کا نور
تیرا مینارہ بلند جلوہ گہ جبرائیل
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلمان کہ ہے
اسکی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل
اقبال مسجد قرطبہ پہنچے وہ جگہ جس کو بے حد مقدس سمجھا جاتا تھا۔ مصلی بچھاکر بیٹھے ہی تھے کہ ایک پادری احتجاج کرتا آ موجود ہوا۔ اقبال نے اس کی طرف رخ کرکے گائیڈ سے کہا ’’ایک دفعہ مدینے میں عیسائیوں کا وفد آیا تو اسے مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا۔ جب ان کی عبادت کا وقت آیا۔ اجازت طلب کی تو عالی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ یقینا مسجد میں اپنے طور طریقے کے مطابق کر سکتے ہیں۔ اگر عیسائیوں کو ہم نے اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دیدی تھی تو انہیں ایک ایسی جگہ پر نماز ادا کرنے کی اجازت کیوں نہیں جو کبھی مسجد تھی‘‘۔ اجازت مل گئی اور وہ مسجد جس کی فضا صدیوں سے بے اذان تھی وہاں اقبال کی اذان کی آواز گونجی۔آج دنیا بھر میں مساجد کو بے اذان اور ویران کرنے کی مہم جاری ہے۔ مغرب میں شارلی ایبڈو پر حملے کے ڈرامے کے بعد مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔ اس قدر کہ واقعات ترتیب دیے جائیں تو کالم اخبار بن جائے۔ مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دنیا کو اپنے جیسا دیکھنا چاہتا ہے۔ رنگت گوری ہو، زبان ان کی بولتا ہو۔ کھانے پینے پہنے اوڑھنے چلنے پھرنے غرض ہر معاملے میں ان کی طرز معاشرت کا دلدادہ ہو تو وہ فرد ان کے لیے پسندیدہ ہے اور مزید یہ کہ مذہب بیزار اور سیکولر ازم کو اپناتا ہو۔ مغرب کی برداشت کا تصور ان ہی لوگوں تک محدود ہے۔ سیکولر لبرل ازم کوئی خیال یا طرز فکر نہیں بلکہ ایک مکمل عقیدہ ہے جو زندگی کے متعلق اپنا ایک منفرد نکتہ نظر رکھتا ہے جس سے تمام انسانی مسائل کے حل نکلتے ہیں۔ یہ عقیدہ دوسرے کئی تصورات پیدا کرتا ہے جیسا کہ انفرادیت، لبرل جمہوریت اور سرمایہ دارانہ معیشت۔ اب سیکولر ازم ہی مغرب کا عقیدہ ہے جس کی وہ بھر پور حفاظت کرتاہے اور اس کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے جنگ کرتا ہے۔ مغرب میں عیسائیت اور یہودیت نے اس عقیدہ کے آگے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ لیکن اسلام کسی طور پر سیکولر ازم سے زیر ہونے کے لیے تیار نہیں۔ بلکہ ہر ہر قدم پر اس کے مقابل اور اسے چیلنج کررہا ہے۔ یہ چیز مغرب کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ لہذا وہ مسلمان جو اللہ کی عبادت اور اطاعت کو اپنی خواہشات پر مقدم رکھتے ہیں مغرب ان پر بنیاد پرست اور خطرناک انتہا پسند کا ٹھپہ لگادیتا ہے۔ جو مغرب عورت کے نقاب کو اس بناء پر نفرت سے دیکھتا اور مسترد کرتا ہے کہ نقاب اس بات کا مظہر ہے کہ یہ انسان اللہ سبحانہ تعالی کے حکم کا پابند ہے۔ وہ اللہ کی عبادت اور اطاعت کے مراکز مساجد اور دینی مدارس کو کیسے برداشت کرسکتا ہے۔
جس طرح مصر میں 27 ہزار مساجد کو بند کردیاگیا ہے اسی طرح پاکستان اور دیگر ممالک میں بھی مساجد اور دینی مدارس کے خلاف مہم جاری ہے۔ وہ لوگ جو اس خاک دان میں اسلام کے رشتہ ایمانی سے منسلک ہیں ان کے گرد دائرہ تنگ کیا جارہا ہے۔ دینی مدارس کے خلاف وہ اقدامات جن کی پرویز مشرف اور زرداری کو بھی ہمت نہ ہوئی آج روبہ عمل ہیں۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن سے بات چلی تھی، اب علماء کرام کی پکڑ دھکڑ، انہیں اٹھا کر حوالات میں بند کردینا اور لاوڈ اسپیکر ایکٹ کے تحت غلط تاویلات کرکے مساجد کے لاؤڈ اسپیکر بند کرانا یہ سارے کام شروع کردیے گئے ہیں۔ دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ہی وقت میں اذان اور نماز اور جمعہ اور عیدین کے ایک ہی خطبہ کا معاملہ اٹھادیا گیا ہے۔ جس سے پاکستان جیسے کثیر العقیدہ معاشرے میں سوائے بے چینی اور انتشار کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ لیکن اسلام بذات خود ایک مسئلہ ہے اس خیال کی ترویج و اشاعت کا نادر موقع ہاتھ آجائے گا۔ پنجاب کے صوبائی وزیر جیل خانہ جات پر یکایک منکشف ہوا ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کو قرآن مجید کے نسخوں میں موبائل سمیں فراہم کی جاتی ہیں۔ وزارت تعلیم سندھ نے معاشرتی علوم کی چوتھی کتاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے متعلق ابواب خارج کرکے ملالہ یوسف زئی اور اقبال مسیح کے متعلق سبق شامل کردیے ہیں۔
پاکستان میں عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تمام اقدامات سانحہ پشاور کا ردعمل ہیں جس کی آڑ لے کر حکومت دینی مدارس اور مساجد کے خلاف سرگرم ہوگئی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ امریکہ کی 1970ء میں عالم اسلام کے خلاف ترتیب دی گئی حکمت عملی کا ایک مرحلہ ہے۔ روس کو شکست دینے کے بعد بتدریج جس پر عمل کیا جاراہاہے۔ کمیونسٹ بلاک کے خاتمے کے بعد اسلام جس کا ہدف ہے۔ پہلے مرحلے میں انتہا پسند جنونی بنیاد پرست عسکریت پسند اور دہشت گرد کی اصطلاحات کو مسلمانوں پر چسپاں کردیا گیا۔ ایسے گروہ اور جماعتیں تخلیق کی گئی جو عدم برداشت پر مبنی ان اصطلاحات کی حامل اور مغرب اور انسانیت کے خلاف برسر پیکار تھیں۔ پھر ان تنظیموں کے خاتمے کے نام پر جنگوں کے ذریعے پورے پورے اسلامی ملکوں کو تباہ و برباد کردیا گیا اور اب چارلی ایبڈو جیسے خود تخلیق کردہ واقعے کی آڑ میں دنیا میں رہنے والے عام مسلمانوں کے گرد گھیرا ڈالا جارہا ہے جس کا ایک حصہ ان کی عبادت گاہیں اور علوم کے مراکز ہیں۔ مسلمانوں کا خون مغرب کے منہ کو لگ چکا ہے۔ لیکن یہ اسلام ہے جس نے صدیوں پہلے عیسائیت کو اندھیرے سے نکالاتھا اور اس کی موجودہ ترقی کی بنیاد رکھی تھی اور آج اور آئندہ بھی یہ اسلام ہی ہوگا جو مغرب اور دنیا کو سیکولر ازم سے نجات دلائے گا اور انسانوں کا رخ ایک بار پھر ان کے رب کی طرف موڑدے گا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment