
صاحبو! الطاف حسین (بھائی) ایک عرصے سے فوج کو مارشل لاء لگانے کی دعوت دیتے آرہے ہیں۔ اس کے جواب میں رینجرز کی طرف سے ان کی جماعت کے ہیڈکوارٹر پر بدھ کے روز چھاپہ مارنے سے ہمیں غالب یاد آگئے۔
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھادیا کہ یوں
بدھ کو طلوع آفتاب سے پہلے رینجرز نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو اور سیکریٹریٹ خورشید میموریل ہال پر چھاپہ مارا۔ بڑی مقدار میں اسلحہ جس میں نیٹو کا لاپتہ اسلحہ بھی شامل تھا برآمد ہوا۔ سو سے زائد افراد گرفتار کیے گئے جن میں عبید عرف کے ٹو، فرحان شبیر عرف ملا، نادر اور ولی خان بابر کے قتل میں سزا یافتہ فیصل عرف موٹا اور عامر خان بھی شامل تھے۔ ایک سیاسی جماعت کے ہیڈ کوارٹر سے اس بڑی تعداد میں اسلحہ اور جرائم پیشہ افراد کا برآمد ہونا اخلاقی اعتبار سے نائن زیرو کا نائن الیون ہے۔متحدہ قومی موومنٹ ایک جماعت نہیں وہ خونچکاں داستان ہے جو اہل کراچی کے خون سے لکھی گئی ہے۔ یہ خون صرف انسانی نہیں اس میں ہماری روایات تہذیب اور اقدار کا خون بھی شامل ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کو مرحوم جنرل ضیاء الحق نے قومی جماعتوں کی بیخ کنی کے لیے میدان میں اتارا تھا۔ یہ شہر ایم کیو ایم سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور جمیعت علماء پاکستان کا شہر تھا۔ مرحوم ضیاء الحق ان جماعتوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ ان جماعتوں کو بے اثر کرنے کے لیے وہ کبھی بلدیاتی اداروں کو ان قومی جماعتوں کے متبادل کے طور پر پیش کرتے کبھی غیر جماعتی انتخابات کو قوم کے لیے فائدہ مند قرار دیتے اور کبھی علاقائی قوم پرست اور لسانی گروہوں کی سرپرستی کرتے۔ ایک طالبہ کے روڈ حادثہ میں ہلاکت کو جواز بناکر ایم کیو ایم نے کراچی کو جہنم بنانے کا آغاز کیا۔ تب سے ایم کیو ایم اہل کراچی کے نصیبوں سے ایسی الجھی کہ کراچی بربادی اور اہل کراچی تکلیف دہ یادوں کا پیکر بن کر رہ گئے۔
جو تم ہو برق نشیمن تو میں نشیمن برق
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب کیا کہیی
اس بدچلن عورت کی طرح جس کے چال چلن سے پورا شہر آگاہ ہوتا ہے سوائے اس کے شوہر کے۔ نائن زیرو پر اسلحہ اور جرائم پیشہ افراد کی موجودگی کا پورے کراچی کو یقین تھا لیکن یہ مقتدر قوتیں تھیں جو پس وپیش میں مبتلا تھیں۔ اب جبکہ رینجرز نے بڑی مقدار میں اسلحہ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔ ہاں اسلحہ اور وارداتوں میں ملوث افراد برآمد نہ ہوتے تب لوگ حیران ہوتے۔ ایم کیو ایم کے ذمہ داران نے پہلے مرحلے میں یہ کہا کہ اسلحہ لائسنس یافتہ ہے پھر کہا گیا کہ اسلحہ رینجرز اہلکار کمبلوں میں چھپا کر خود لائے تھے۔ چلئے ایم کیو ایم کو یہ تو پتہ چلا کہ چھپانے کے لیے بوری کے علاوہ اور بھی کچھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نیٹو اور ممنوعہ بور کا اسلحہ جس کی درآمد پر پاکستان میں پابندی ہے اس کے حوالے سے بھی چرب زبانی کے دریا بہائے گئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان دریاؤں کا رخ لوگوں کے دلوں میں یقین کے بجائے ہونٹوں کی طرف ہوتا ہے جن پر طنزیہ مسکراہٹ کھیل رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح گرفتار افراد کے بارے میں الطاف حسین (بھائی) نے پہلے یہ کہا کہ مطلوب افراد نائن زیرو پر نہ آتے دنیا پڑی ہے آگے پیچھے ہوجاتے۔ اس سلسلے میں اپنی مثال بھی دی گئی کہ میں بھی تو پچیس سال میں انگلینڈ میں رہ رہا ہوں۔ پھر چند گھنٹوں بعد ہی کہا گیا کہ مطلوبہ افراد نائن زیرو سے نہیں بلکہ نائن زیرو کے اطراف کی گلیوں سے پکڑے گئے۔
بات اپنی وضاحتوں سے بڑھی
ہم نے سوچا تھا بات ٹل جائے گی
لندن کے پرتعیش علاقے میں رہائش پذیر الطاف حسین (بھائی) کراچی میں اپنی سلطنت کو ریموٹ کنٹرول کے زریعے بڑے بے رحمانہ طریقے سے چلارہے ہیں۔ وہ لاکھ تاویلات کا سہارہ لیں ان کی جماعت کے ایک جرائم پیشہ گروہ کے کردار کی حیثیت سے دنیا واقف ہے۔ وکی لیکس نے ایک امریکی سفارتی پیغام شایع کیا تھا جس کا عنوان ’’کراچی کے گینگز‘‘ تھا اور اسے2008ء میں بھیجا گیا تھا۔ اس سفارتی پیغام کے مطابق ’’ایم کیو ایم کے پاس اندازاً دس ہزار مسلح افرادپر مشتمل ملیشیا ہے جبکہ پچیس ہزار افراد ریزرو ہیں مراسلے کے مطابق یہ تعداد شہر کی پولیس سے زیادہ ہے۔‘‘اس آپریشن سے ایک بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اب ایم کیو ایم وہ آتشیں اژدھا (ڈریگن) نہیں ہے جس سے چھیڑچھاڑ اس لحاظ سے خطرناک ہو کہ وہ ڈریگن سب کچھ بھسم کردے گا۔ پارٹی پر الطاف حسین (بھائی) ی گرفت کمزور پڑگئی ہے۔ ان کے غیر متوازن بیانات غیر محتاط تقریریں، پارٹی نمائندگان کے لیے ان کا دفاع کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بھارت میں دیا گیا ان کا بیان کس کو بھول سکتا ہے۔ لیکن پہلے ایسی باتیں کبھی کبھار سرزد ہوتی تھیں لیکن اب وہ آئے روز جھونک میں کیا کیا کچھ کہ جاتے ہیں خود انہیں بھی خبر نہیں ہوتی۔ ایک دن وہ فوج کو مارشل لاء کی دعوت دیتے ہیں اگلے روز فوج پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور اس سے اگلے روز معافی مانگتے۔ ایک دن تحریک انصاف کی خواتین کے باب میں شرافت کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اگلے روز وہ آئی ایم سوری اور دوسرے لاحول پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی پارٹی قیادت کو جیسا ذلیل انہوں نے کیا ہے اس پر کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
کامیاب چھاپے پر ہر طرف سے رینجرز کی ستائش کی جارہی ہے۔ جنرل راحیل سے لیکر وزیراعظم نوازشریف وزیر داخلہ چوہدری نثار امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سب رینجرز کو مبارکباد دے رہے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی میں تمام جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف بلاتفریق مسلسل کاروائیاں کی جائیں۔ یہ ایک مستقل عمل ہونا چاہیے۔ ایم کیو ایم سیاسی عصبیت اور جرم کی یکجائی کا نام ہے۔ جب جرم اور سیاسی عصبیت ایک ہوجائیں تو پھر اس سے نمٹنا ازحد مشکل ہوتاہے۔ جرم کے خلاف اقدام عصبیت کے خلاف اقدام سمجھا جاتا ہے۔ ستمبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں یہ کاروائیاں ایم کیو ایم کو مظلوم بننے کا موقع فراہم کرسکتی ہیں۔ حالیہ آپریشن کے خلاف ایم کیو ایم کے زوردار احتجاج نہ کرنے کا بعض ذرائع یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم خود ان عناصر سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ اس لیے ایم کیو ایم کی قیادت اور نائن زیرو پر موجود کارکنوں کا پرسکون ردعمل پہلے سے طے شدہ اور پارٹی ہدایت کے مطابق تھا۔ چھاپے کی ٹائمنگ بھی زیرغور ہے۔ یہ کاروائی چیئرمین سینیٹ پر اتفاق رائے ہونے کے چوبیس گھنٹے کے اندر کی گئی جب مصالحت کی سیاست کی وجہ سے دونوں بڑی جماعتیں ایم کیو ایم کی ضرورت سے بے نیاز تھیں۔ آئندہ ممکن ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایسے کسی آپریشن کا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہ ہوسکیں۔ بہرحال ایک بات واضح ہے اور مکمل واضح کہ الطاف حسین (بھائی) کا جال اب بکھر رہا ہے۔ وہ خونی مشین جو تیس پینتیس سال سے کراچی کی محور تھی اور جس کو ہاتھ لگانا بھی ممکن نہیں سمجھا جاتا تھا اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment