
لندن، دریائے ٹیمز کی دیوار پر ایک بھاری بھرکم شخص تنہا بیٹھا ہے۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی ہے۔ وہ شخص منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہا ہے، ’’تیری تقریر نہیں نغمہ سرائی ہے جس میں جادو کا اثر ہے۔ ہزاروں لاکھوں لوگ گھنٹوں تیری تقریر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پھر یہ کیوں کہتے ہیں تیرا تکلم اخلاق سے گرا ہے۔ تیری تقریر دھمکیوں سے پر ہوتی ہے۔
کیا زمانہ آن لگا ہے۔ بجائے اس کے کہ جھوم جھوم کے کی جانے والی تقریریں جھوم جھوم کے سنی جاتیں، تحسین کی جاتی، داد دی جاتی، ایک ایک لفظ پر گرفت کی جارہی ہے۔ ورکرز میں نئی روح پھونکنے کے لیے (کیونکہ جن میں پہلے روح پھونکی تھی وہ سب تو گرفتار کرلیے گئے) دل بستگی کا سامان فراہم کرنے کے لیے اگر میں کبھی ’’بوری‘‘ اور کبھی موج میں آکر ’’وہ تھے ہوجائیں گے‘‘ کہہ دوں تو لندن سے کراچی تک عجب واہی تباہی سی مچ جاتی ہے۔ مقدمے بن جاتے ہیں ۔ انہیں نہیں خبر میرے ورکرز کو ایسی ہی باتوں کی عادت ہے۔ لندن آنے کے بعد کافی دن تک میں ہر روز تقریر نہیں کرتا تھا۔۔۔
تجھ سے ہر روز ملاقات ضروری تو نہیں
بعض اوقات تو میں خود میں بھی نہیں ہوتا ہوں
لیکن جب روز روز رابطہ کمیٹی کی طرف سے تقریر کا تقاضہ ہونے لگا کہ بھائی کارکن قابو میں رہتے ہیں تو میں نے موضوع سوچنے اور دلائل جمع کرکے تقریر کرنے کی بجائے یہ طریقہ اختیار کیا۔۔۔
یعنی کرنی ہے اس طرح تقریر
ہوگیا جس طرح کا بھوت سوار
پچھلے دنوں اسی جھونک میں تقریر جاری تھی کہ تحریک انصاف کی خواتین کے حوالے سے کوئی نازیبا بات منہ سے نکل گئی ہوگی۔ عمران خان اکڑ گئے۔ غصے سے ان کا چہرہ تمتما اٹھا۔ میں نے اگلے ہی روز معافی مانگلی۔ انگریزی میں بھی کہہ دیا آئی ایم سوری، تب جاکر بات ٹلی۔ لیکن یہ رینجرز والے ان کا کیا کروں کتنا ہی کہوں میرا یہ مطلب نہیں تھا مانتے ہی نہیں۔ سوار ہی رہتے ہیں۔ یہ سارے معاملات دیکھنا رابطہ کمیٹی کا کام ہے۔ لیکن کسبیوں اور مولویوں کے ہی نہیں سیاستدانوں کے ملازم بھی بہت سست ہوتے ہیں اس لیے بار بار مجھے رابطہ کمیٹی توڑنی پڑتی ہے۔ میرے دو چار ہزار چہیتے کارکنوں کو جنہیں یہ لوگ ٹارگٹ کلرز کہتے ہیں پکڑ کے یہ سمجھتے ہیں۔۔۔ نہ زلف ایاز میں وہ خم رہا نہ ’’بھائی‘‘ میں وہ دم رہا۔۔۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی کی نکسیر پھوٹی ہو اور لوگ سمجھیں کہ لو جان سے گیا۔ یہ لوگ نہیں جانتے یہ جمہوریت کے محافظوں کی سرکوبی کررہے ہیں۔ اہل کراچی کے مسیحا کو ماررہے ہیں۔ حالانکہ میں پہلے ہی ڈائلیسس پر ہوں۔ شوگر بلڈپریشر اور موٹاپا عجیب ہیئت بنانے پر تلے ہیں بیماری میں ذرا آنکھ لگتی ہے۔ عباسی شہید اسپتال سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ ہائے کیا شب وروز تھے اور اب کیا عالم ہے۔۔۔ کوئی رخِ روشن نہیں ویرانہ شب میں۔۔۔ یہاں کے اسپتالوں میں شوخی کرنے اور چٹکی لینے کی ہمت نہیں ہوتی۔ پہلی مرتبہ لندن کے ایک اسپتال میں داخل ہوا تو مجھے بتایا گیا تھا’’یہاں اسپتالوں پہ قیاس عباسی شہید سے نہ کر‘‘
یہ لوگ نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں جس نے مجھ سے الجھنے کی کوشش کی وہ اس دنیا میں کبھی خوش نہیں رہ سکا۔ اسے خوشیاں پھر دوسری دنیا میں ہی نصیب ہوئیں۔ میری آہ کے آگے دیکھنا یہ لوگ بھی ٹہر نہیں سکیں گے۔ یہی بات دوتین روز پہلے میں نے ایک تقریر میں کہہ دی۔ تھوڑی دیر بعد ایک ایس ایم ایس موصول ہوا کسی نے اکبر الہ آبادی کا ایک شعر بھیجا تھا
رقیب سفلہ خو نہ ٹھہرے میری آہ کے آگے
بھگایا مچھروں کو ان کے کمرے سے دھواں ہوکر
پڑھ کر بہت غصہ آیا کوئی مرد کا بچہ ہوتا تو میسج نہ کرتا کال کرتا۔ اپنا نام بتاتا‘‘۔دریائے ٹیمز پر دیوار کے اس طرف ٹریفک رواں تھی۔ سڑک پر ایک لمبی سی شاندار کار آکر رکی۔ ڈرائیور نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ کار میں سے ایک باوقار شخص برآمد ہوا۔ وہ بارعب انداز سے چلتا ہوا بھاری بھرکم شخص کے پاس آیا اور انتہائی ادب سے بولا، ’’میں برطانوی شاہی محل کا افسر خاص ہوں۔ آپ کو ملکہ برطانیہ یاد فرمارہی ہیں۔‘‘ افسر خاص کے ساتھ چلتا ہوا وہ شخص کار کی طرف بڑھا۔ ڈرائیور نے جھک کر دروازہ کھولا۔ تھوڑی دیر بعد کار شاہی محل کے اندر جاکر رکی۔
بھاری بھرکم شخص کو ایک عالی شان ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا۔ تھوڑی دیر بعد ملکہ تشریف لے آئیں۔ وہ سفید لباس میں تھیں۔ ہیٹ اور دستانے بھی سفید تھے۔ بھاری بھرکم شخص احتراماً کھڑا ہوگیا۔ ملکہ عالیہ نے ہیٹ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا ’’دریائے ٹیمز کی دیوار پر بیٹھے آپ کیا کررہے تھے۔ آپ دیوار پر کیسے چڑھے۔ آپ کا اصل مقام لندن نہیں کراچی ہے جہاں پورا شہر آپ کا منتظر ہے۔ میں نے کل ہی پہلی مرتبہ آپ کی تقریر سنی۔ اس قدر حسین اور خوبصورت آواز اور آپ کا انداز! میں تھوڑی تھوڑی اردو سمجھتی ہوں۔ آپ کے دلائل وقعت رکھتے ہیں۔ میں نے معلومات کی تو مجھے بتایا گیا کہ آپ بیس پچیس سال سے ہمارے وفادار ہیں۔ کئی سال سے آپ کسی ڈاکٹر عمران فاروق اور منی لانڈرنگ کے الزام میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کے زیرتفتیش ہیں۔ آپ کا پاسپورٹ بھی ان کے پاس ہے۔ میں نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بہت لتاڑا۔ میری ہدایت پر اسکاٹ لینڈ تمام الزامات واپس لے رہاہے۔ پاسپورٹ بھی آپ کے سپرد کیا جارہاہے۔‘‘ ملکہ نے گھنٹی بجائی اسکاٹ لینڈ کا ایک افسر حاضر ہوا۔ اس افسر کو دیکھ کر بھاری بھرکم شخص سہم گیا۔ دوران تفتیش یہ افسر بھوت پریت کی طرح چمٹ جاتا تھا لیکن اس وقت وہی افسر دبا سہما نظر آرہاتھا۔ اس نے انتہائی احترام کے ساتھ پاسپورٹ بھاری بھرکم شخص کے حوالے کردیا۔
افسر کے جانے کے بعد ملکہ دوبارہ شروع ہوگئیں۔ ’’پاکستان میں جنرل راحیل سے آپ کی بابت بات ہوئی ہے۔ میرے علم میں آیا ہے کہ کراچی میں رینجرز آپ کی جماعت کے خلاف یکطرفہ آپریشن کررہی ہے۔ رینجرز کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ پچھلے دنوں انہوں نے آپ کی رہائشگاہ پر بھی چھاپہ مارا تھا۔ وہاں سے بڑی تعداد میں اسلحہ اور مجرم پکرے گئے۔ آپ کی یہ دلیل بہت وزنی ہے کہ رینجرز والے کمبلوں میں اسلحہ چھپا کر لائے تھے۔ بہرحال ہمارے اور امریکہ کے حکم پر جنرل راحیل آپ کے خلاف آپریشن بند کررہے ہیں۔ آپ کا پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی حکومت پاکستان چند روز میں اشو کرسکتی ہے۔ ان سب سہولیات کے عوض ہمیں آپ سے طالبان کی جاسوسی بھی درکار نہیں جیسا کہ ٹونی بلیئر کو آپ نے لکھا تھا۔ آپ جب چاہیں کراچی جاسکتے ہیں۔ کراچی ایک بار پھر آپ کا ہے۔ تمام تھانے اور ایجنسیاں آپ اور آپ کی جماعت کی تحویل میں ہونگی۔‘‘ ملکہ نے الوداعی مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔ بھاری بھرکم شخص بھی ہاتھ ملانے کے لیے جلدی سے آگے بڑھا۔ دریائے ٹیمز کے پانیوں میں دیوار پر بیٹھے بھاری بھرکم خوابیدہ شخص کے زور سے گرنے کی آواز آئی۔۔۔ غڑاپ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment