Sunday, March 29, 2015

وہ گلی ممنوع ہے باضابطہ


ایک صاحب شادی کے اگلے ہی روز بیوی کو نیاگرا آبشار دکھانے لے گئے۔ گھومے پھرے کھایا پیا، آبشار دیکھی۔ واپسی پر شوہر نے پوچھا ’’آبشار کیسی لگی؟‘‘ ’’زندگی کی دوسری بڑی مایوسی‘‘ بیوی نے جواب دیا۔
1992ء کا آپریشن کلین اپ، جرائم پیشہ افراد کو انجام تک پہنچائے بغیر لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا گیا تھا۔
اس کے بعد ہر حکومت نے کراچی کے باب میں طے کرلیاکہ آنکھیں چرانا ہی حکمت عملی ہے۔ اس اولین مایوسی کا شکار اہل کراچی یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ اب کچھ نہیں بدلے گا۔ کراچی کے معاملات یوں ہی چلتے رہیں گے۔ کراچی۔۔۔ منی پاکستان۔۔۔ خوف اور دہشت ہر شکل کا سامنا کرتا رہا لیکن ہر حکومت کی مثال اس گدھے کی طرح تھی جس کے چاروں طرف تیز رفتار ٹریفک چل رہی ہوا ور وہ سڑک کے بیچوں بیچ سر جھکائے کھڑا ہو۔ جس طرح اقبال نے نئی تہذیب کے تمام انڈوں کے لیے ایک ہی حکم لگایا ہے کہ گندے ہیں۔ اسی طرح اس دوران کراچی کے حوالے سے بے دلی سے اٹھائے گئے تمام اقدامات دونمبر اور مسائل کی گندگی میں اضافے کا باعث بنے۔ گزشتہ دنوں الطاف حسین (بھائی) نے جب یہ کہا تھا کہ جس نے بھی ان سے الجھنے کی کوشش کی وہ اس دنیا میں خوش نہ رہ سکا، تو یہ حقیقت ہے۔ جس حکومت نے بھی کراچی کا کانٹا نکالنے کی کوشش کی اس کا حال مجنوں جیسا ہوگیا۔ مجنوں جنگل میں ننگے پاؤں دوڑتا پھرتا تھا۔ پاؤں کانٹوں سے زخمی ہوجاتے۔ ایک دن لیلی کی سواری نظر آئی۔ جیسی ہی وہ پاؤں سے کانٹا نکالنے بیٹھا۔ سواری نظر سے غائب ہوگئی۔ اسی طرح آصف جنجوعہ سے لیکر بے نظیر اور نوازشریف تک کراچی کا کانٹا جس نے نکالنے کی کوشش کی منظر سے غائب ہوگیا۔ اسی تناظر میں جب کراچی کا حالیہ آپریشن آغاز ہوا تو اس کا انجام بھی دوسری بڑی مایوسی باور کیا گیا۔ لیکن جس احتیاط، سلیقے اور عزم کے ساتھ کراچی آپریشن جاری ہے وہ مایوسی کے صحراء میں امید کا نخلستان ہے۔ نائن زیرو پر چھاپے اور اسلحہ اور بڑی مقدار میں مجرموں کی گرفتاری سے یہ ثابت ہوگیا ’’حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے‘‘۔ اگلے مرحلے میں شہر سے رکاوٹیں دور کی جارہی ہیں۔ رکاوٹوں کا ذکر ہو اور ممتاز مفتی یاد نہ آئیں ممکن نہیں۔
کسی نے بوٹے سے پوچھا ’’بوٹے بوٹے یہ تو بتا تو اگنے میں اتنی دیر کیوں لگاتا ہے؟‘‘
بوٹا بولا ’’اس لیے کہ زمین کی کشش مجھے اگنے نہیں دیتی‘‘
’’یہ زمین کی بری بات ہے‘‘
بوٹا بولا ’’نہ نہ زمین کو برا نہ کہو‘‘
’’کیوں نہ کہیں‘‘
’’اس لیے کہ اگر زمین مجھے اگنے سے نہ روکے تو میں کبھی نہ اگ سکوں‘‘
’’وہ کیا بات ہوئی‘‘
’’رکاوٹ نہ ہو تو حرکت ممکن نہیں۔ یہ قانون فطرت ہے۔ رکاوٹیں دراصل رحمتیں ہیں۔ رکاوٹیں حرکت پیدا کرتی ہیں۔‘‘
’’لیکن کراچی کی ہر گلی میں جو رکاوٹیں اور بیریئر پائے جاتے تھے وہ عوام کے لیے عذاب اور ان افراد اور جماعتوں کے لیے رحمت تھے جن کی طاقت کا یہ اظہار تھے۔ یہ بیریئر نظر آنے کے باوجود انہیں مستور رکھتے تھے لیکن کب تک‘‘۔
اس کا بھی حساب آخر ہونا ہے ظفر اک دن
مستور ہوں میں کتنا، کتنا نظر آتا ہوں
بالآخر یوم حساب آپہنچا۔ آغاز گھر سے کیا گیا۔ گھر میں جب جھاڑو لگائی جاتی ہے تو غبار زیادہ اٹھتا ہے۔ لیکن جب رینجرز نے اپنے ایک سابق فوجی جرنل اور صدر پرویز مشرف کی رہائشگاہ سے رکاوٹیں ہٹانے سے صفائی کا عمل شروع کیا تو یہ غبار بیٹھ گیا کہ آپریشن یکطرفہ اور جانبدارانہ ہے۔
دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کے رہنما اور حکمران قوم کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں معاملہ دیگر ہے۔ پاکستان میں جو جس حیثیت میں صاحب اقتدار ہے وہ اسی قدر قانون شکن ہے۔ کراچی میں شہر کے بیشتر علاقوں سے بیریئر اور کنکریٹ بلاکس ہٹانے کا کام جاری ہے۔ نائن زیرو کے اطراف سے بھی ’’رضاکارانہ‘‘ طور پر بیریئر ہٹاندیے گئے ہیں۔ تاہم محکمہ داخلہ سندھ نے بلاول ہاؤس سے رکاوٹیں نہ ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ اس دلیل کی بناء پر کہ سابق صدر کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ کہنا اور سمجھنا سادگی اور عدم واقفیت پر دلالت کرتا ہے کہ عوام کو آمدورفت اور نقل و حرکت کی آسانیاں فراہم کرنا بھی حکومت کا فرض ہے۔ موجودہ آپریشن کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے کسی بھی سطح پر کمزوری کا اظہار نہیں کیا۔ جوں جوں آپریشن آگے بڑھ رہا ہے دہشت گردوں ٹارگٹ کلرز، اغواکارو ں اور بھتہ خوروں کے حوصلے پست ہورہے ہیں۔ ایسے میں بلاول ہاؤس کے اطراف سے بیریئر ہٹانے میں رینجرز کی ناکامی ایک کمزوری یا مصلحت پسندی باور کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کو اپنے قول و فعل سے قانون کی پاسداری کا اظہار کرنا چاہیے۔ ایک معمولی مسئلہ کو انا کا معاملہ بنانا مناسب نہیں۔ یہ ضد ترک کرنا ہوگی کہ
وہ گلی ممنوع ہے باضابطہ
اس لیے بے ضابطہ جاتا ہوں میں
کراچی میں تمام جماعتوں اور سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو قانون کے دائرے میں آنا ہوگا۔ ایم کیو ایم سمیت تمام جماعتوں کو اپنے عسکری ونگز کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اب تک کی حقیقت یہ ہے کہ عسکری ونگز کے بغیر ایم کیو ایم کی سیاست ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ بہرحال جلد یا بدیر ایم کیو ایم کو یہ راستہ ترک کرنا ہوگا۔ رہا حفاظت کے نام پر بیریئر، کنکریٹ بلاکس اور دیگر رکاوٹیں ایک حد تک ان کی افادیت ممکن کہی جاسکتی ہے لیکن عمومی طور پر یہ عام آدمی کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنی ہیں۔ علاقہ مکین تو واقف ہوتے ہیں کہ کہاں کہاں بیریئر لگے ہوئے ہیں۔ وہ اسی حساب سے آمدورفت کے لیے راستوں کا تعین کرتے ہیں۔ لیکن انجان لوگوں کے لیے یہ بیریئر دردسر تھے۔ کبھی اس گلی میں کبھی اس گلی میں۔ کبھی یہ گلی بند کبھی وہ۔ جھنجلاجھٹ، غصہ اور وقت کا زیاں۔ رہا حکمران طبقے کی حفاظت کا معاملہ تو کوچہ سیاست خطرات سے عبارت ہے۔ جو راہ بھی ادھر کو جاتی ہے جسم و جاں کے زیاں کے اندیشوں سے پر ہے۔ جس کو جان و دل عزیز ہے، گھر بیٹھے۔ اسے اس گلی میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ بیریئر ہوں نا کنکریٹ بلاکس کوئی ایسی رکاوٹ آج تک تعمیر نہ کی جاسکی جو موت کے فرشتے کا راستہ روک سکے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment