Sunday, April 5, 2015

فیصلہ کن طوفان


یمن کی موجودہ صورتحال عالم اسلام کی ماند پڑتی روشنی کا بیانیہ ہے۔ اس مہم کو Operation Decisive Storm یا Al Hazm Storm بمعنی فیصلہ کن طوفان کا نام دیا گیا ہے، جسے سمجھنے کے لیے چند بنیادی نکات سے آگاہی ضروری ہے۔
۔۔۔ یمن مغربی ایشیاء میں واقع مشرق وسطی کا ایک مسلم ملک ہے۔ اس کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان ہیں اور جنوب میں بحرہ عرب اور بحرہ احمر ہیں۔ دارلحکومت صنعاء ہے۔ قومی زبان عربی، آبادی دوکروڑ سے زیادہ۔ ستر فیصد آبادی سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ بیس فیصد آبادی زیدی شیعہ ہیں جبکہ حوثی کل آبادی کا پانچ فیصد بھی نہیں ہیں۔ معاشرہ قبائلی نسلی فرقہ اور علاقائی بنیاد پر منقسم ہے۔
۔۔۔ 1990ء میں کویت پر صدام حسین کے قبضہ کے وقت یمن نے صدام حسین کا ساتھ دیا۔ ردعمل میں سعودی عرب، کویت اور دیگر خلیجی ممالک نے یمن کی اقتصادی امداد میں کمی اور شہریوں کو اپنے ہاں سے نکال دیا تھا۔ جسکی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات اور بیروزگاری کی وجہ سے یمن میں عرب حکومتوں کے خلاف جذبات پیدا ہوئے جسکا فائدہ ایران نے اٹھایا۔ اسی برس فن خطابت میں بے پناہ حسین بدرالدین حوثی نے ایران کے تعاون سے ’’شباب المومنین‘‘ نامی تنظیم قائم کی۔ چودہ سال کی محنت اور ایران سے حاصل بے پناہ وسائل اور عسکری قوت کے زور پر بدرالدین حوثی نے 2004ء میں سعودی سرحد سے متصل صوبے صعدہ میں پہلی حوثی بغاوت کی۔ بغاوت ناکام رہی۔ بدرالدین حوثی رفقاء کے ساتھ ماراگیا۔ اس وقت یمن پر زیدی فرقہ کے علی عبداللہ صالح کی حکومت تھی۔ بدرالدین کے بعد قیادت اس کے بھائی عبداللہ المالک حوثی کے پاس آگئی جس نے زیدی شیعوں سے تعلق ختم کرکے صرف اثناء اشعری کو الحوثی تحریک میں شامل کیا جس میں اکثریت حوثی قبیلے کے افراد کی ہے۔
جس وقت قیادت عبدالمالک الحوثی کے پاس آئی، القاعدہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے پریشان امریکہ اور مغربی ممالک نے حوثی تحریک کو القاعدہ سے مقابلے کے لیے منتخب کیا۔ یوں حوثی تحریک کو بیک وقت ایران، امریکہ اور مغربی ممالک کی مالی اور فوجی طاقت حاصل ہوگئی۔ امریکہ کی سرپرستی کی وجہ سے سعودی عرب نے بھی اس کی سرگرمیوں سے چشم پوشی اختیار کی۔
عرب بہار کے نتیجے میں علی عبدللہ الصالح کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ شافعی مسلک سے وابستہ منصور ہادی صدر اور وزیراعظم کا طاقتور عہدہ اخوان المسلمین کے پاس آیا۔ اخوان المسلمین سے امریکہ اور مغربی طاقتیں سب خائف تھیں۔ لہذا یمن کی امداد بند کردی گئی اور ساتھ ہی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یمن پر اہلسنت کا قبضہ ہوگیا۔ عبدالمالک حوثی کی قیادت اور ایرانی عسکری ماہرین کی رہنمائی میں حوثی افواج نے پیش قدمی شروع کردی اور دارالحکومت صنعاء پر قابض ہوگئے۔ چن چن کر اخوان المسلمین کے وابستگان کو قتل کرنا شروع کردیا۔ اس لیے یورپی اور خلیجی حکومتوں نے کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ وزارت دفاع، داخلہ فوجی مراکز سمیت دارالحکومت کے تمام اہم مقامات پر قبضہ مستحکم کرنے کے بعد حوثیوں نے عدن کو محاصرہ میں لے لیا۔ یہی وہ وقت تھا جب سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف حملہ کا آغاز کیا۔
۔۔۔ اس جنگ میں ایران کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ ایران ہے جس نے حوثیوں کو مسلح کیا۔ شباب المومنین کے ارکان کو  ایران کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا، جہاں وہ عمومی تعلیم کے ساتھ ساتھ مالی تعاون اور عسکری تربیت حاصل کرکے خمینی کے سپاہی بن کر واپس آتے تھے۔ حوثیوں نے صنعا ء پر قبضہ کے بعد تہران اور صنعاء کے درمیان براہ راست پروازوں کا معاہدہ کیا۔ اسی دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامناای کے خصوصی ایلچی نے کہا ’’حوثی گروہ انصاراللہ، لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی ایک نئی شکل ہے جو یمن میں کامیابی کے بعد اسلام دشمنوں کے خلاف ایک نیا محاذ شروع کریگا۔‘‘ یوں ایران نے نہ صرف کھل کر حوثیوں وابستگی کا اعلان کردیا بلکہ حزب اللہ نے حوثیوں کی مدد بھی شروع کردی۔ ایران کے دفتر خارجہ نے سعودی عرب کو براہ راست تنبیہ کرتے ہوئے کہا ’’سعودی عرب اس لڑائی سے اپنے آپ کو دور رکھے ورنہ سعودی عرب بھی اس جنگ کے اثرات سے بچ نہیں سکے گا۔‘‘ علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو شام، لبنان اور عراق کی حکومتیں بڑی حد تک ایران کی تابع ہیں۔ اس وقت ان علاقوں میں ایران کی افواج کی تعداد 30 ہزار ہے۔ یمن کے سمندری علاقوں میں بھی ایرانی کشتیاں پہنچ چکی ہیں۔ موجودہ تاریخ میں یہ ایران کی بہت بڑی پیش قدمی ہے کہ وہ بالواسطہ طور پر سعودی عرب کی سرحدوں کے قریب پہنچ گیا ہے۔ یمن میں حوثیوں کے قبضہ کے بعد ایران اس پوزیشن میں آگیا ہے کہ یمن میں ایک خود مختار علاقے، شام میں بشارالاسد کی حکومت کوبرقرار رکھنے اور بحرین میں شیعہ حکومت کے قیام کے لیے سودے بازی کرسکے۔
۔۔۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو یمن سعودی عرب کا افغانستان ہے۔ سعودی عرب کی اٹھارہ سو کلومیٹر سرحد یمن کے ساتھ لگتی ہے۔ یہ سرحد مسامدار ہے جہاں یمن اور سعودی عرب کے مابین باآسانی نقل و حرکت ممکن ہے۔ کنٹرول ممکن نہیں۔ چند برس پہلے اس سرحد پر باڑ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ یمن میں سعودی عرب مخالف حکومت کے قیام کا مطلب ہے سعودی عرب میں مستقل مداخلت۔ پھر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ حوثی یمن کے علاوہ سعودی عرب کے تین صوبوں نجران، جازان اور عسیر کو یمن کا حصہ قرار دیتے ہیں اور دوبارہ قبضہ کے دعویدار ہیں۔ یوں حوثی مستقبل میں سعودی عرب کے لیے مستقل دردسر بن سکتے ہیں۔ یہ وہ صورتحال جو سعودی عرب کے چھبیس مارچ کو یمن پر فضائی حملوں کا سبب بنی۔ چنانچہ سعودی عرب نے اپنے فطری اتحادیوں، خلیجی ریاستوں کے ساتھ میدان جنگ گرم کردیا۔ متحدہ عرب امارات سال ہا سال سے ایران سے اپنے تین جزائر ’’طنب صغیر، طنب کبیر اور جزائر ابو موسی‘‘ کی واپسی کی کوشش کررہاہے۔ امارات کا کہنا ہے کہ یہ اس کے جزیرے ہیں جن پر ایران نے قبضہ کررکھا ہے۔ وہاں فوجی اڈے بنارکھے ہیں جہاں سے امارات کے خلاف کاروائی کرنا بہت آسان ہے۔ بہرحال ایک طرف جہاں سعودی عرب میں خلفشار پورے خطے کو متاثر کرسکتا ہے تو دوسری طرف ایران سعودی عرب براہ راست تصادم پورے مشرق وسطی کو تباہ کرسکتا ہے۔
۔۔۔ اور آخر میں اس بربادی کا تخلیق کنندہ بدمعاش امریکہ۔ یمن کی جنگ امریکی حکمت عملی کا شاہکار ہے۔ جس میں تمام متحارب فریق امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔ سعودی عرب ہو ایران یا حوثی سب کے ہاتھوں میں امریکہ سے حاصل کردہ ہتھیار ہیں سب امریکہ کی سرپرستی میں اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ فاتح کوئی بھی ہو فتح کے ثمرات بالآخر امریکہ کی جھولی میں گریں گے۔
یمن میں امریکہ کی ابتدائی دلچسپی برطانوی اثرات کے خاتمے تک محدود تھی۔ یمن میں اقتدار ہمیشہ برطانوی ایجنٹوں کے پاس رہا۔ جیسے علی عبداللہ صالح اور ہادی وغیرہ۔ امریکہ کو یمن کی فوج اور سیاست دانوں میں ایسے آلہ کار بڑی تعداد میں نہیں ملے جو امریکی ایجنٹوں کا کردار ادا کرسکیں۔ اس لیے امریکہ نے حوثی قبیلے کو مسلح کرنا شروع کردیا اور اس کام کے لیے ایرانی حکومت کو استعمال کیا۔ عراق اور شام میں امریکہ کی مداخلت اور لاکھوں مسلمانوں کی بے دردی سے ہلاکت میں ایران، امریکہ کے سہولت کار کا کردار اداکرتا رہا ہے۔ بظاہر دشمنی کے باوجود ایران اور امریکہ ایک دورسرے کے بہت قریب رہے ہیں۔ یہ امریکہ ہے جس نے اسرائیل کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے سے سختی سے روکا ہواہے۔ ایک طرف امریکہ سعودی عرب کا حلیف ہے اور دوسری طرف سعودی تشویش کو نظر انداز کرتے ہوئے ایران سے سمجھوتہ کررہاہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران امریکہ سمجھوتے نے سعودی عرب کو یمن پر حملہ پر اکسایا۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے حوالے سے امریکہ ایران معاہدہ سعودی عربکے لیے آشفتگی اور بدحواسی کا سبب بنا ہے۔ جس کی تالیف کے لیے امریکہ نے شاہ سلمان کو امریکہ مدعو کیا۔ سعودی عرب خطہ میں امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی کا کردار ادا کرتا رہاہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کی بنیاد 1973ء کا وہ معاہدہ ہے جس کے تحت تیل کی قیمتوں کا تعین امریکی ڈالروں میں ہوتا ہے، اس کے عوض امریکہ سعودی عرب کو سیکیورٹی فراہم کرتا ہے۔ یہ امریکہ کا تعاون اور آشیرباد ہے کہ سعودی عرب یمن پر حملہ آور ہے۔ امریکہ ایک طرف سعودی عرب کے دشمنوں کو بے تحاشہ اسلحہ اور مدد فراہم کررہاہے دوسری طرف وائٹ ہاؤس یہ بیان جاری کررہاہے ’’حالانکہ ہم براہ راست فوجی مہم میں حصہ نہیں لے رہے لیکن ہم ایک مشترکہ منصوبہ بندی سیل کا قیام سعودی عرب کے ساتھ کررہے ہیں تاکہ امریکی فوجی اور انٹیلی جنس سپورٹ ان کو دی جاسکے۔‘‘ سعودی عرب کے حملوں کے بعد امریکہ کے لیے یہ ممکن ہے کہ مسئلہ کو انٹرنیشنلائز کرکے مذاکرات کی ٹیبل پر لایا جاسکے تاکہ امریکہ یمن میں اپنا فارمولا اور سیٹ اپ مسلط کرسکے۔ امریکہ کسی کے ساتھ نہیں، لیکن سب کے ساتھ ہے۔ زوال کے اس سفر میں امریکہ تمام فریقوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اس سفر میں پاکستان کا کردار انشاء اللہ اگلی نشست میں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
Categories:

0 comments:

Post a Comment