Thursday, April 9, 2015

فیصلہ کن طوفان اور پاکستان


26 مارچ کو یمن پر سعودی اتحادی افواج کے فضائی حملوں کے بعد وزیراعظم نوازشریف کا وہ بیان جس پر بعض حلقوں کی جانب سے بہت لے دے کی گئی ہے، بہت مناسب حسب حال اور اہل پاکستان کے جذبات کا آئینہ دار تھا جس میں انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ’’پاکستان سعودی عرب کو لاحق کسی بھی خطرے کا مقابلہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر فرنٹ پر کرے گا‘‘۔
یہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کا متفقہ فیصلہ تھا۔ جو لوگ اس فیصلے پر معترض ہیں وہ بتائیں آخر ایسا کون سا نظریہ اور عمل ہے جو  ایک ایسے دوست کی مدد میں مانع ہے جو ہر آڑے وقت میں نہایت گرم جوشی سے پاکستان کی مدد کو آتا رہا ہو۔ یہ سادگی کی انتہا ہے اگر یہ باور کیا جائے کہ یمن پر حوثیوں کے قبضہ سے سعودی عرب کی سلامتی کو براہ راست کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ حوثی سعودی عرب کے تین صوبوں کو یمن کا حصہ قرار دیتے ہیں اور اس کے دعویدار ہیں۔ وہ بیت اللہ اور مسجد نبوی کی طرف پیش قدمی کا ارادہ بھی رکھتے ہیں اور وہاں اپنا طرز عبادت رائج کرنا چاہتے ہیں۔ یہ پاک سعودی عرب دوستی کے عملی اظہار کا وقت ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کی ہمیشہ غیر مشروط مدد کی ہے۔ اب جبکہ سعودی عرب نے کھل کر ہم سے مدد طلب کی ہے ہم مصلحتوں کا لبادہ اوڑھ لیں؟
جب نوازحکومت زیرگردش قرضوں کے معاملے میں پریشان تھی تو یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے پاکستان کو خاموشی سے  1.5 بلین ڈالر بطور ایڈوانس دیے جس سے پاکستانی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر سنبھل گئی تھی۔ خلیجی ممالک میں چالیس لاکھ پاکستانی روزگار کماتے ہیں۔ پاکستانی ہر سال سعودی عرب سے تین ارب ڈالر سے زائد رقم بھیجتے ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان کو پابندیوں کا سامنا تھا، سعودی عرب ایک عرصے تک پاکستان کو مفت تیل فراہم کرتا رہا۔ جس ایٹمی پروگرام پر ہم بہت نازاں ہیں اس کے اخراجات بڑی حد تک سعودی عرب نے برداشت کیے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اس وقت کے سعودی ولی عہد نے شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز سے جب ایک صحافی نے پوچھا ’’آپ نے پاکستان کی مدد کیسے کی؟‘‘ ولی عہد نے ایک لمحہ توقف کے بغیر جواب دیا ’’ہم نے پاکستان کی مدد ایسے کی ہے جیسے ایک بھائی دوسرے بھائی کی مدد کرتا ہے‘‘۔ یہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اخوت اور باہمی اعتماد کی علامت تھی کہ شہزادہ عبداللہ ہی وہ واحد مہمان تھے جن کو کہوٹا ایٹمی پلانٹ کا دورہ کرایا گیا تھا۔ جس پر مغربی صحافیوں نے پاکستان کو ’’سعودی عرب کے باہر سعودی عرب کا نیوکلیئر بم‘‘ قرار دیا تھا۔ پاکستان سعودی عرب کی مدد کرتا ہے تو یہ اخلاقی طور پر غلط ہوگا اور نہ کسی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ہوگا۔ یہ بات یاد رہے کہ ہمارا گوادر پورٹ کا منصوبہ اور چین کے ساتھ راہ داری کا معاملہ بھی خلیج کے پانیوں کے تلاطم سے وابستہ ہے۔
بطور ریاست بھی پاکستان کا مفاد سعودی عرب کا ساتھ دینے کا تقاضہ کرتا ہے۔ 1990ء میں جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کا تھا تو اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے سعودی عرب کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن چیف آف دی آرمی اسٹاف مرزا اسلم بیگ صدام حسین کی قوت مزاحمت سے متاثر تھے۔ محترم قاضی حسین احمد نے صدام حسین کو صلاح الدین ایوبی قراردیا تھا۔ مولانا نورانی مرحوم و مغفور نے انکشاف کیا تھا کہ صدام حسین گیارہویں کرتا ہے۔ یوں فضا سعودی عرب کے خلاف ہموار ہوگئی۔ مصر نے سعودی عرب اور اتحادی افواج کا ساتھ دے کر نہ صرف ھق دوستی ادا کیا بلکہ 12 ارب ڈالر کے قرضے بھی معاف کرالیے تھے جبکہ ہمارے حصہ میں سوائے ندامت اور شرمندگی کچھ نہ آیا۔
پاکستان کا مفاد خطہ میں امن اور طاقت کے توازن میں ہے۔ خطہ میں ایران اور سعودی عرب دو بڑی طاقتیں اور برادر مسلم ملک ہیں لیکن باہم متصادم۔ ایران مشرق وسطی میں اپنے اثرات میں توسیع کررہاہے۔ شام عراق اور لبنان ایران کے دائرہ اثر میں ہیں۔ یمن میں بھی ایران حوثیوں کی شکل میں حصول اقتدار کے مرحلے تک آپہنچا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی کے مشیر علی یونس نے گزشتہ دنوں کہا تھا ’’ایران ایک عظیم سلطنت بن چکا ہے۔ اب دارالحکومت بغداد ہوگا۔ سارا مشرق وسطی ہمارا ہے۔‘‘ ایران کی قومی سلامتی کے سربراہ علی شیخانی نے کہا تھا ’’ہم یمن کے باب المندب اور بحیرہ روم کے دہانے پر کھڑے ہیں یعنی ایک جانب شام کے ساحل پر ہیں تو دوسری طرف یمن کے سمندری راستے پر بیٹھے ہیں یوں پوری دنیا ہماری محتاج ہے‘‘۔ یہ صورتحال سعودی عرب کے لیے تشویش کا باعث تھی لیکن ایٹمی ممالک اور ایران کے درمیان حالیہ معاہدے نے اس تشویش میں اضافہ کیا۔یمن پر قبضہ کی صورت میں ایران جس طرح بالواسطہ طور پر سعودی عرب کی سرحدوں تک آپہنچا ہے یہ خطہ میں طاقت کے توازن اور سعودی عرب کی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے جو یمن پر سعودی عرب کے حملوں کا سبب بنی ہے جس کے بعد سعودی عرب نے کھل کر پاکستان سے بھی مدد کی درخواست کی ہے۔ پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت نے جس کا انتہائی مثبت جواب دیا ہے۔ ایسا ہی جواب پاک سعودی عرب دوستی کا تقاضہ تھا۔
تاہم سعودی عرب سے دوستی کا ایک طریقہ اور بھی ہے۔ وہ ہے سعودی عرب کو اس جنگ سے باہر نکالنا یعنی مسئلہ کا سیاسی حل۔ ترکی اور پاکستان مل کر اس سلسلہ میں کوششیں کررہے ہیں۔ جہاں تک ترکی کا تعلق ہے تو گزشتہ تین برسوں سے ایران اور ترکی کے تعلقات خراب ہیں۔ ترکی شام میں اپوزیشن کی حمایت کرتا ہے جبکہ ایران بشار الاسد حکومت کا دیرینہ دوست ہے۔ عراق کی وجہ سے بھی ایران اور ترکی کے تعلقات بگاڑ کا شکار رہے ہیں۔ ان سب کے باوجود ترکی کے صدر طیب اردگان نے ایران جاکر صدر حسن روحانی سے ملاقات کی ہے۔ لیکن اس کے امکان کم ہیں کہ ترکی ایران  پر کوئی فیصلہ کن دباؤ ڈال سکے۔ پاکستان اور ایران کا معاملہ یہ ہے کہ ایران کا ہمیشہ پاکستان کی نسبت بھارت کی طرف جھکاؤ رہا ہے۔ ایران ذرائع ابلاغ میں شاذ ہی پاکستان کے حوالے سے کبھی کوئی کلمہ خیر کہا گیا ہو۔ لیکن ایران ایٹمی ممالک معاہدے اور ایران پر پابندیوں کے خاتمے کے بعد پاکستان ایران اور چین کے درمیان گیس پائپ لائن کے حوالے ایسا تعلق قائم ہوسکتا ہے جس کے بعد تینوں ممالک کی خوشحالی ایک دوسرے سے مربوط ہوجائے۔ اس حوالے سے ممکن ہے پاکستان ایران پر اثر انداز ہوسکے۔ ایرانی وزیرخارجہ پاکستان کے دورے پر ہیں۔ ایران نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ یمن میں مخالف گروپس کے درمیان مذاکرات میں پاکستان کی مدد کرے گا۔ وہ ان گروپس پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرے گا جو تہران کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ایسے بیانات محض سفارتی تکلفات ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگلے ہی جملے میں ایران نے اپنی عدم صلاحیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وہ حوثی قبائل کو ہتھیار ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا ‘‘۔
فریقین پر  اگر کوئی اثر انداز ہوسکتا ہے تو وہ امریکہ ہے۔ لیکن امریکہ اس جنگ کا تخلیق کار ہے جس کا مفاد اس جنگ کی طوالت میں ہے۔ اس جنگ کے بعد امریکہ نے خلیجی ممالک کو اسلحے کی ترسیل میں زبردست اضافہ کردیاہے۔ پاکستان کو بھی جدید اسلحہ کی فروخت کی پیشکش کی گئی ہے۔ ایران اور حوثیوں کو ماضی کی طرح اسرائیل یا کسی اور ذریعہ سے اسلحہ کی فراہمی شروع کی جاسکتی ہے۔ نہ جانے کب امریکی حکمت عملیوں کا جنہیں ہم سازش کہتے ہیں مسلم ممالک ادراک کرسکیں گے۔ بہرحال کالم چونکہ پاکستان کے حوالے سے ہے تو پاکستان سعودی عرب سے دوستی کے حوالے صحیح خطوط پر کام کرتے ہوئے ایک طرف سعودی عرب کی فوجی امداد کی درخواست پر پورا اترنے کی کوشش کررہا ہے تو دوسری طرف سفارتی سطح پر بھی مسلم ممالک سے رابطوں میں اضافہ کررہاہے۔ ایرانی وزیرخارجہ، مصری افواج کے کمانڈر انچیف اور وزیردفاع کا دورہ اسی پیشرفت کا حصہ ہے۔
کہا جارہاہے کہ اس جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ دینے کی ایک قیمت ہے جو پاکستان کو سماجی سطح پر بھی ادا کرنی ہوگی۔ پاکستان میں کچھ گروہ خود کو سعودی فقہی مسلک اور کچھ خود کو ایرانی فقہی مسلک کے قریب سمجھتے ہیں لیکن عالمی سطح پر ایران اور سعودی عرب شیعہ سنی بنیاد پر حکمت عملی طے نہیں کرتے۔ چند ماہ پہلے سعودی عرب نے لبنان میں ایران کی تنظیم حزب اللہ کو 1.5 ارب ڈالر شام میں اسلامی حکومت کو روکنے کے لیے دیے تھے۔ اخوان المسلمین کا تختہ الٹنے پر مصر کے جنرل السیسی کو پانچ ارب ڈالر دیے تھے۔ ایران نے افغانستان عراق اور شام میں امریکی ایماء پر ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا۔ یہاں تک کہ نجف اور کربلا میں ان شیعہ علماء کو قتل کیا جو امریکی مداخلت کے خلاف تھے۔ پاکستان میں کچھ لوگ سعودی عرب اور ایران کے حوالے سے خود کو تقسیم ظاہر کرتے ہیں۔ عالمی سطح کے برعکس سعودی عرب پاکستان میں ایک مکتب فکر کی مدد کرتا رہاہے جبکہ ایران بھی کچھ گروہوں کو روپیہ فراہم کرتا رہاہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کی ساخت ایسی ہے کہ مسلکی اختلافات ایک محدود دائرہ میں تو نطر آتے ہیں لیکن عوام میں دور دور تک ان اختلافات کے حوالے سے شدت پسندی نطر نہیں آتی۔ اے کاش یہ شدت پسندی ایران اور سعودی عرب تعلقات سے بھی ختم ہوجائے اور عالم اسلام کے دو عظیم ملک ایک دوسرے کے دوست بن سکیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ ہمیں سعودی عرب کو بھی مایوس نہیں کرنا ہے اور جنگ کے شعلوں کو بھی بجھانا ہے۔ بہتر ہے خطہ میں امن اور ایران سعودی عرب نفرت کے خاتمے کا آغاز یمن سے کیا جائے
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
Categories:

0 comments:

Post a Comment