Saturday, May 2, 2015

بساط یمن اور عالمی کھلاڑی


یمن کی بساط پر چھوٹے بڑے قدم اٹھاتے شطرنج کے مہروں کی بجائے آئیے معاملے کو اصل کھلاڑیوں یعنی عالمی طاقتوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
جمعرات کی صبح 26 مارچ 2015 کو اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے سفیر عادل انجبیر نے یمن کے حوثیوں کے خلاف عسکری آپریشن کا اعلان کیا۔ فضائی کاروائیوں میں حصہ لینے والا اتحاد دس ممالک پر مشتمل ہے جس میں عمان کے سوا تمام خلیجی ممالک شامل ہیں۔
پاکستان بھی سعودی عرب اور اتحادی ممالک کے دوش بدوش ہے۔ مصر اور سوڈان بھی ان حملوں میں شریک ہیں لیکن اس بساط کے اصل فریق دو ہیں امریکہ اور برطانیہ۔ انتہائی چالاکی اور مکاری سے سیاسی چالیں چلنے میں برطانیہ اپنی مثال آپ ہے۔ امریکی بھی مہارت سے چالیں چلتے ہیں لیکن جب وہ ان چالوں کے باوجود اپنی شکست دیکھتے ہیں تو ان کا طرز عمل انگلستان کے شاہ ولیم کی طرح ہوجاتا ہے۔ شاہ ولیم شطرنج کا اچھا کھلاڑی تھا۔ ایک مرتبہ تمام تر سوچ بچار کے باوجود جب وہ بازی ہارنے لگا تو اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ لکڑی کی بھاری بساط  جیتنے والے کے سر پر دے ماری جس سے اس کی فوری موت واقع ہوگئی۔
یمن کئی دہائیوں سے برطانوی ایجنٹ حکمرانوں کے زیرتسلط رہا ہے۔ علی عبداللہ صالح 33 برس یمن کے صدر رہے۔ وہ ہمیشہ برطانیہ کے زیر اثر اور برطانیہ کے اشاروں پر کام کرتے رہے۔ وہ ایک جابر اور کرپٹ حکمران تھے۔ عرب بہار کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔ امریکہ نے جب حوثی قبائل کے ذریعے یمن میں اپنی بالادستی قائم کرنا شروع کی تو برطانیہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کا عسکری طور پر مقابلہ کرسکے۔ ساتھ ہی برطانیہ یہ بھی چاہتا تھا کہ طاقت کے کسی اہم مرکز پر امریکی قابض نہ ہوسکیں۔ برطانیہ نے دو خطوط پر کام شروع کیا۔ اول: برطانیہ نے منصور ہادی کو گائیڈ لائن دی کہ وہ حوثیوں کو موثر اقتدار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اپنے عہدے کا بھرپور استعمال کرے۔ منصور ہادی، علی عبداللہ صالح کے بعدصدر بنے تھے اور صالح سے بڑھ کر برطانوی ایجنٹ تھے۔ حوثیوں نے صدر ہادی پر زور ڈالا کہ وہ ان کے مرضی کے قوانین منطور کرے۔ صدر ہادی نے ان قوانین کے نفاذ پر حوثیوں کے ساتھ اتفاق کیا لیکن وہ ان معاہدوں اور قوانین کو عملی جامہ پہنانے میں ٹال مٹول کرتے رہے۔ یہ کھیل جاری رہا۔ ایک وقت وہ آگیا جب حوثیوں نے صدر ہادی کو ان کے گھر میں قید کردیا اور ان پر دباؤ میں انتہائی اضافہ کردیا اور تمام معاہدوں کو نافذ کرنے پر زور دیا۔ اس مرحلے پر صدر ہادی نے استعفی دے کر حوثیوں کو  نہ صرف حیران بلکہ مشکل صورتحال سے دوچار کردیا۔ ملک کے طول و عرض میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ حوثی جو صدارتی فیصلوں کے ذریعے بالادستی حاصل کرنا چاہتے تھے جس سے بغاوت یا انقلاب کی چھاپ لگے بغیر ان کو اقتدار مل جاتا اب ان پر بغاوت کی چھاپ لگ گئی۔ صدر ہادی صنعا سے عدن اور وہاں سے ریاض پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
دوم برطانیہ نے سابق صدر علی عبداللہ صالح کو حوثیوں سے تعلق استوار کرنے کی حکمت عملی دی حالانکہ وہ اپنے دوراقتدار میں حوثیوں سے بہت سختی سے پیش آئے تھے۔ بہرحال عبداللہ صالح نے حوثیوں کو اس مرحلے پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ان کے پاس گئے ان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور طاقت کے ذریعے حوثیوں کی اس قدر مدد کی کہ حوثیوں کے لیے ان سے جدا ہونا ممکن نہ رہا۔ انہوں نے حوثیوں سے بڑھ کر صدر ہادی کی اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ دوسری طرف بی بی سی کے عرب ایڈیشن الجزیرہ نے ایسے پروگرام نشر کرنا شروع کردیے جن میں اس نکتہ پر زور دیا گیا کہ کل تک حوثی کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف جنگ کی بات کرتے تھے لیکن اب کرپشن کے بے تاج بادشاہ علی عبداللہ کے اتحادی ہیں۔
بساط یمن پر برطانیہ کی چالیں اس کی مکاری اور مہارت کی دلیل ہیں۔ اگر سعودی یمن پر حملوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو منصور ہادی کی شکل میں برطانیہ کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کے مراکز میں موجود رہے گا۔ برطانیہ بظاہر امریکہ کا شریک ہے، امریکہ کے ہم قدم متحرک بھی نظر آتا ہے تاکہ معاملات مذاکرات تک پہنچیں تو اس کا بھی کردار ہو اور جو بھی حل سامنے آئے طاقت کے مرکز میں اس کا اثر رسوخ موجود رہے۔ اسی طرح اگر حوثی کامیاب ہوتے ہیں تو علی عبداللہ صالح ان کے ساتھ اقتدار میں حصہ دار ہوگا۔اس صورت بھی برطانیہ کا یمن میں اثر نفوذ باقی رہے گا۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ حوثیوں کو اتنی عوامی مقبولیت حاصل نہیں کہ وہ یمن میں اکیلے حکومت کرسکیں۔
امریکہ عرصے سے یمن میں برطانوی رسوخ کے خاتمے اور اپنی بالادستی کا خواہاں رہا ہے۔ سیاستدانوں اور فوج میں اسے وسیع پیمانے پر ایجنٹ دستیاب نہ ہوسکے امریکہ نے ایران کی مدد سے حوثیوں کو مسلح کرنا شروع کردیا۔ حوثی اس قدر طاقتور ہوگئے کہ انہوں نے صدر ہادی کا محاصرہ کرلیا لیکن صدر ہادی کے استعفی نے انہیں مشکل میں ڈال دیا۔ حوثیوں سے بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ انہوں نے اپنی قوت کو پورے یمن میں پھیلادیا۔ جس کے نتیجے میں نہ تو وہ مکمل طور پر اپنی بالادستی قائم کرسکے اور نہ ہی وہ شمال میں اپنے مرکز کی طرف واپس جاسکتے تھے۔ امریکہ حوثیوں کو اس صورتحال سے نکالنا چاہتا تھا لہذا جب سعودی حوثیوں سے پریشان ہوئے یا جب سعودیوں کو اس طرح کی اطلاعات فراہم کی گئیں کہ حوثیوں کا اگلا ہدف سعودی حکمران ہوں گے تو سعودیوں کے رجوع کرنے پر امریکہ نے نہ صرف حملے کی تائید کہ بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی۔ صورتحال مزید اس وقت واضح ہوئی کہ جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے عسکری کاروائی سے قبل امریکہ سے مشاورت کی تھی۔ سعودی عرب کے فضائی حملوں کا حوثیوں کو فائدہ یہ ہوا کہ کل تک دنیا حوثیوں کو ظالم کی نظر سے دیکھتی تھی فضائی حملوں کے بعد ان کے مظلوم ہونے کا تاثر ابھرا۔ دوسرے امکان یہ ہے کہ فضائی حملوں کے نتیجے میں سعودی کوئی فیصلہ کن برتری حاصل نہ کرسکیں گے۔ نتیجتاً ایک بحران پیدا ہوگا اور معاملہ مذکرات کی میز تک پہنچیں گے۔یہی وہ صورت ہے جو امریکہ کو مطلوب ہے۔ یہی وہ طریقہ کار ہے کہ جب امریکہ طاقت کے ذریعے مفاد حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو معاملات کو مذاکرات کی میز پر لے آتا ہے۔
مذاکرات کی میز سرمایہ داروں کا مخصوص طریقہ کارہے۔ یعنی درمیان کا راستہ نکالنا یا حکومت میں فریقین کی باہمی شرکت۔لیکن یہ مستقل حل نہیں ہوتا بلکہ ایک مہلت عمل ہے۔ سانس لینے کا وقفہ، جب تک برطانیہ یا امریکہ میں سے کوئی ایک مکمل غلبہ اور برتری حاصل نہ کرلے۔ سو مستقبل میں یمن کے حالات نشیب و فراز کا شکار رہیں گے۔ جنگ کی آگ بھڑکتی اور کم ہوتی رہے گی جب تک سیاسی اور عسکری توازن فیصلہ کن نہ ہوجائے۔ امریکہ اور برطانیہ میں سے کوئی ایک یمن پر عملی بالادستی قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوجائے۔ یمن ایک مستحکم اور خوشحال ملک تھا۔ اب یمن پھر کب ایک مستحکم خوشحال اور پرامن ملک ہوگا اللہ رب العزت ہی جانتے ہیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
Categories:

0 comments:

Post a Comment