
کالم میں اصل موضوع پر تو ہم آہی جائیں گے پہلے آموں کا کچھ بیان ہوجائے۔ لیکن اس سے بھی پہلے اکبر الہ آبادی:
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے
اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الہ آباد میرے نام بھیجئے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہوگی پہلے مگر دام بھیجئے
آم آیا ہی چاہتے ہیں۔ رفتہ رفتہ گرمی اور بڑھے گی۔ لوئیں چلیں گی اور مئی کے اواخر یا جون کے آغاز میں آم ہی آم ہونگے۔ فی الحال آموں کی یاد آوری کا سبب وہ کیریاں تھیں سر راہ جن پر ہماری نظر پڑی جو ایک ٹھیلے پر موجود تھیں اور پسند اور نہ پسند کا دھڑکا لیے چشم خریدار کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ کیا کیا یادیں انگڑائیاں لیتیں بیدار ہوگئیں۔ آم کی ڈالیوں پر ہلکورے لیتے ہوئے کیریوں کے گچھوں پر پتھر مارنا،پھر نشانہ لگنے اور کیریاں جھپٹنے کی سر خوشی۔ آم کی ڈالیوں کا ذکر ہو اور اقبال بانو یاد نہ آئیں ممکن نہیں۔
امبوا کی ڈاریوں پہ جھولنا جھلاجا
اب کے ساون تو سجن گھر آجا
ساون کی رم جھم ہو، آم کی ڈاریوں پر جھولے پڑے ہوں اور سجن پر دیس میں! یہ رنج یہ الم اقبال بانو کی نغمگی میں گھلتا ہے تو غم دل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ پردیس ہمیشہ سے ہی فرقت کا استعارہ رہا ہے۔
سَونا لاون پی گئے سُونا کرگئے دیس
سونا ملا نہ پی ملے رویا ہوگئے کیس
پیا سونا لینے گئے اور دیس سنسان کرگئے ہمیں تو سونا ملا نہ محبوب، بال روئی کے گالے ہوگئے۔آج کل ڈالروں کے حصول کے لیے پردیس سدھارا جاتا ہے۔ پاکستان جیسا نصیبا تو کم ہی لکھوا کر لاتے ہیں کہ ڈالر خود چل کر آئیں اور وہ بھی چھیالیس ارب ڈالر۔ غوث علی شاہ نجی محفلوں میں کہا کرتے تھے ’’یہ دونوں بھائی (شریف برادران) متضاد خوبیاں رکھتے ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ ہمارے لیے اوپر والے کا خاص تحفہ ہیں اور قدرت نے ان سے کوئی خاص کام لینا ہے۔‘‘ اب پتہ چلا کہ یہ خاص کام چین سے چھیالیس ارب ڈالرکی سرمایہ کاری تھی جو قدرت نوازشریف سے لینا چاہتی تھی۔ اور تو کوئی وصف ہمیں نظر نہیں آتا۔ لیکن یہ ایک وصف ہی اتنا گراں بار ہے کہ گاؤں بسنے سے پہلے ہی چور چور کا شور اٹھ چکا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ چھیالیس ارب ڈالر!!! اکیلے اکیلے؟ ناممکن۔ اپوزیشن جماعتوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت میں زور دیا ہے کہ حکومت اقتصادی کوریڈور کے روٹ کو پارلیمنٹ میں زیربحث لائے۔ اس کا صاف مطلب ہے ’’ہمیں شریک کرو۔ اکیلے نہیں کھانے دیں گے۔ عمران خان کا دھرنا ہو تو مدد کو ہم آئیں اور چھیالیس ارب ڈالر ڈکارنے کا معاملہ ہو تو تنہا تنہا۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔
لفظ میں لطف معانی کے سوا بھی کچھ ہے
اس کہانی میں کہانی کے سوا بھی کچھ ہے
پروکسی کے ذریعے یوٹیوب کھول کر شریف ٹاور لکھیں تو آپ کومشرقی لندن میں ایک بلند پلازہ دکھائی دے گا۔ یہ مبینہ طور پر ہمارے شریفین کی ملکیت ہے۔ پچھلے دنوں عمران خان چیخ رہے تھے کہ اسحاق ڈار نے چالیس لاکھ ڈالر دبئی بھیجے ہیں جس ملک میں خود وہاں کا حکمران طبقہ سرمایہ کاری نہ کررہاہو اور پھر جہاں پاک چین مجوزہ عظیم منصوبہ کی تکمیل کا راستہ دہشت گردی، کشت خون اور پروکسی جنگ کی تنگ و تاریک گھاٹیوں سے گزرتا ہو وہاں چین جیسے ملک کی چھیالیس ارب ڈالر کی اتنی بھاری سرمایہ کاری۔ مہاتیر محمد نے کہا تھا: ’’چین سے بڑی ماہر کاروباری اور کوئی قوم نہیں ہے۔‘‘امریکیوں کی طرح ہماری نئی ڈارلنگ چین بھی سمجھ چکا ہے کہ اس قوم کا موڈ نوٹوں سے بنتا ہے۔ چین کی 80 فیصد تیل کی درآمد ’’ملاکا‘‘ کی بحری گزرگاہ کے راستے ہوتی ہے۔ یہ تنگ اور پر خطر گزرگاہ ہے جس پر جگہ جگہ امریکی زیر تسلط علاقے ہیں۔ امریکہ جب چاہے اس گزرگاہ کو چین کے لیے مشکل بنا سکتا ہے۔ پھر یہ ایک طویل راستہ ہے جبکہ گوادر سے چین کے شہر کاشغر تک کی گزرگاہ چین کو انتہائی مختصر روٹ فراہم کرے گی۔ ’’ایک سڑک ایک پٹڑی۔۔۔ ون روڈ ون بیلٹ‘‘ ہوشمند چینی قیادت کا ایک عظیم خواب ہے۔ یہ مستقبل کا ایک ایسا عظیم اقتصادی نیٹ ورک ہے جو چین کو وسط ایشیاء، روس، یورپ اور مشرق وسطی کی منڈی سے جوڑ دے گا۔ 65 ممالک، ساڑھے چار ارب لوگوں کی مارکیٹ، ایشیاء تا یورپ، چینی مصنوعات باہر بھیجنے اور خام مال درآمد کرنے کا مختصر ترین راستہ۔ پاکستان اس عظیم منصوبہ میں مرکزی اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ چین اقتصادی کوریڈور کے بھی بہت چرچے ہیں جس میں ایران ترکی اور بھارت کی شمولیت کا بھی امکان ہے۔ چین کے لیے ان منصوبوں کی اہمیت واضح ہے۔ دنیا کی اس بڑی تجارت اور لین دین کا مرکز ثقل چین ہوگا۔ جس میں کم ازکم ڈھائی کھرب ڈالر سالانہ کی تجارت ممکن ہے۔
خبروں اور تبصروں سے لگتا ہے چھیالیس ارب ڈالر کی یادداشت کی پرچیوں پر دستخط کے ساتھ ہی ہم ترقی یافتہ ہوگئے ہیں۔ عمل اور پھر نتائج کے مرحلے تک نہ جانے ہمارے کپّے کتنے پھول چکے ہونگے۔ قرضوں اور بیرونی سرمایہ کاری سے قومیں ترقی یافتہ نہیں ہوجاتیں۔ پاکستان کو چھیاسٹھ برس میں امریکہ سے 70 ارب ڈالر کی امداد مل چکی ہے۔ ہر نئے پاکستانی حکمران کے لیے پہلے سے بڑا اور نیا کشکول بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا رہا ہے۔جسے لیکر وہ امریکہ کے دورے کرتا ہے۔مگر کسی کو نہیں پتہ یہ امداد کہاں اور کس کس مد میں خرچ ہوئی اور اس قدر امداد کے باوجود ہم پینسٹھ ارب ڈالر کے مقروض کیوں ہیں اور اگلی قسط کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے دروازے پر سجدہ ریز کیوں ہوتے ہیں۔
چھیالیس ارب ڈالر کی چینی امداد سے ایک بات ثابت ہے کہ ’’چھڈو جی‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’پھڑو جی‘‘ میں بھی ہماری مہارت مثالی ہے۔ لیکن چینی سرمایہ کاری سے انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور معاشی جمود توڑنے کی باتوں میں خوش گمانی کا عنصر زیادہ اور حقیقت سے فزوں تر ہے۔ کسی بھی عالمی قوت کے سامراجی عزائم دوسری قوت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتے۔ کسی بھی ملک کی سرمایہ کاری کا مقصد مقامی لوگوں کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ اپنی شرح منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔ مقامی لوگوں کی فلاح و بہبود ایک بائی پروڈکٹ ہے ورنہ سرمایہ کار تو آم ہی نہیں گٹھلیوں کے دام بھی نہیں چھوڑتے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment