Sunday, April 19, 2015

تین بے ربط مناظر


پہلا منظر:
مقام: گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، بابا ولایت علی شاہ، اورنگی ٹاؤن۔
11 اپریل، بروز ہفتہ، کمرہ امتحان نمبر 10، پرچہ اسلامیات، دسویں جماعت۔
طالبعلم کمرہ امتحان میں داخل ہوتے ہیں اور مقررہ نشستوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کمرہ امتحان میں موجود دو نگرانوں میں سے ایک امتحانی کاپی اور دوسرا پرچہ تقسیم کرتا ہے۔ طالبعلم ابھی پرچہ کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ ایک ممتحن طالبعلموں سے مخاطب ہوتا ہے: ’’گھبرانے کی ضرورت نہیں آرام سے نقل کرو کوئی کچھ نہیں کہے گا بس تم لوگوں کو ذرا سا تعاون کرنا پڑے گا (دوسرے ممتحن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) سر آرہے ہیں ہر طالبعلم انہیں پچاس پچاس روپے دے دے۔‘‘ اتنے میں موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ ممتحن فون آن کرکے ’’36طالبعلم ہیں 36 حل شدہ پرچے بھیج دو۔‘‘ فون بند کرکے ممتحن پھر طالبعلموں کی طرف ’’حل شدہ پرچے بھی موجود ہونگے۔ تم لوگ اپنے ہی اسکول کے طالبعلم ہو ورنہ دوسو روپے سے لیکر ہزار روپے کا ریٹ ہے۔ چلو شاباش جلدی کرو۔‘‘ ممتحن کی بات ختم ہوتے ہی پانچ چھ طالبعلم کھڑے ہوجاتے ہیں، ’’سر ہم نقل کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔ نہ ہم نقل کریں گے اور نہ رشوت دیں گے‘‘۔ ممتحن (غصہ سے) ’’نقل کرو یا نہ کرو پیسے تو تمہیں دینے ہونگے ورنہ ۔۔۔‘‘
دوسرا منظر:
ایوان وزیراعظم کے پر تکلف ڈرائنگ روم میں وزیراعظم اپنے چند قریبی رفقاء کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ درپیش ہے۔
سینئر ساتھی: ’’سر! پہلے وزیردفاع کے بارے میں طے کرلیتے ہیں‘‘
وزیراعظم: ’’وزیردفاع کے لیے شمشاد بہتر ہے‘‘
سینئر ساتھی: ’’سوچ لیجیے بہت اہم وزارت ہے‘‘
وزیراعظم: ’’شمشاد میں جو چیز فی الفور آدمی کو جکڑلیتی ہے وہ اس کی حب الوطنی ہے اور میں اسے غیر فعال دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہمارے جیسے ملک میں جہاں فوج کی سپرمیسی ہے سویلین وزیردفاع سے زیادہ غیر فعال عہدہ کوئی نہیں۔ ہمارے یہاں دزیردفاع کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مغل بادشاہوں کے محلات میں خدمات انجام دینے والے خواجہ سراؤں کی ہوتی ہے۔ خوبصورت شہزادیوں کے درمیان رہ کر بھی لاتعلق، محض عشق و ہوس کی آرزو‘‘
سینئر ساتھی: ’’اور جناب! شاہ صاحب کا کیا کیاجائے؟‘‘
وزیراعظم: ’’اسے وزیرخارجہ بنادیجیے۔ پینے پلانے والا آدمی ہے۔ جو آدمی کا شوق ہو وہی روزگار بن جائے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ یہ ایسی وزارت ہے جہاں پینا پلانا فرائض منصبی میں شامل ہے۔ سفارتخانے، سفارتی تقریبات اور بیرونی دورے شراب نوشی کے مفت کلب ہیں۔‘‘
سینئر ساتھی: ’’وزیرخزانہ کے لیے؟‘‘
وزیراعظم: ’’بھئی یہ تو سمدھانے کا معاملہ ہے اسے طے شدہ ہی سمجھیں۔‘‘
سینئر ساتھی: ’’اور جناب معیشت کے معاملات کون دیکھے گا؟‘‘
وزیراعظم: ’’اس کے لیے فیض الحسن سے بات کرلیجیے۔‘‘
سینئر ساتھی: ’’لیکن سر وہ تو اس معاملے میں بالکل کورے ہیں‘‘
وزیراعظم: ’’ارے بھئی ایک طوطے کو بھی معیشت دان بنایا جاسکتا ہے۔ بس اسے دو لفظ طلب اور رسد سکھانے کی ضرورت ہے‘‘
سینئر ساتھی: ’’ٹھیک ہے سر کل انشاء اللہ میٹنگ بلا لیتے ہیں آپ خود وزارتوں کا اعلان فرمائیے گا‘‘
اگلے دن وزیراعظم ہاؤس میں کابینہ کا اعلان۔ اعلان سے پہلے میٹنگ میں وزیراعظم کے قریبی رفقاء منفعت بخش وزارتوں کے لیے اس قدر تند و تیز ہوتے ہیں کہ وزیراعظم کے لیے سنبھالنا مشکل ہوجاتاہے۔ یہی نہیں معمولی اور غیر اہم وزارتوں کے لیے بھی وہ دند مچتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ بہرحال بمشکل وزارتوں کی تقسیم کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم وزارتوں کا اعلان کرتے ہیں۔ تمام وزراء خوشی خوشی رخصت ہوجاتے ہیں وزیراعظم کمرے میں تنہا بیٹھے ہیں۔ تھوڑی دیر نہیں گزرتی کہ وہی سینئر ساتھی جو اب بہت اہم شعبہ کے وزیرہیں۔ ہانپتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتے ہیں ’’سر! کمال ہوگیا تعلیم کی وزارت کو تو ہم بھول ہی گئے۔ اتنی اہم وزارت جس سے قوم کا مستقبل وابستہ ہے کسی کی ترجیح نہیں۔ نہ میرے ذہن میں آئی اور نہ آپ کے اور نہ کوئی اس کا طلبگار تھا۔‘‘
وزیراعظم: ’’ارے بھئی تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ میٹنگ ابھی ختم ہوئی ہے۔ وزراء ابھی کوریڈور میں ہونگے۔ جو وزیر پہلے نظر آئے اسے وزارت تعلیم کا اضافی چارج دیدیجیے۔‘‘
تیسرا منظر:
میں نے پوری قوت سے بریک لگایا۔ دروازہ کھول کر غصہ سے نیچے اترا ’’اوئے مرنا ہے تو کہیں اور جاکر مر میری گاڑی کے آگے کیوں آرہاہے۔‘‘  لیکن یہ کہنے کی حسرت دل ہی میں رہ گئی۔ نوجوان تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ مظلوم اور ہمدردی کا مستحق نظر آرہا رتھا۔ میں نے اسے ڈرایؤنگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بٹھایا اور اسٹارٹ کرکے گاڑی فٹ پاتھ کے ساتھ لگادی ’’تمھارے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ کیوں مرنا چاہتے ہو؟‘‘۔ میں نے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ اس نے ایک ہی سانس میں آدھی بوتل خالی کردی۔ بوتل واپس کرتے ہوئے اس کی نظر اخبار پر پڑی۔ اس نے بے دھیانی میں اخبار اٹھایا اور پڑھنا شروع کردیا’’کراچی، سات اپریل سے میٹرک کے امتحانات شروع۔ 413 امتحانی مراکز میں تین لاکھ پچیس ہزار سے زائد طلباء و طالبات شریک۔ بیشتر سینٹروں پر ممتحن اور نگران طلبہ سے رقم لے کر نقل کرانے میں ملوث۔ اورنگی ٹاون بابا ولایت علی شاہ گورنمنٹ اسکول میں فی طالبعلم پچاس روپے۔۔۔ اخبار پڑھ کر اس نے اخبار پڑھ کر ایک طرف پھینکتے ہوئے حواس جمع کرکے غصہ سے کہا ’’میں بیروزگار ہوں حالانکہ امتحانی کارکردگی کے حوالے سے میں ایک بہترین طالبعلم ہوں۔ میٹرک 80 پرسنٹ، انٹر78 پرسنٹ، بی اے 75 پرسنٹ۔ لیکن مجھے کہیں نوکری نہیں ملتی۔ میں سی وی بھیجتا ہوں۔ مجھے انٹرویو کے لیے فورا بلالیا جاتا ہے لیکن ہر کمپنی اور ہر فرم میری ڈگری اٹھاکر ایک طرف رکھ دیتی ہے اور اپنا تیار کردہ ٹیسٹ فارم میرے آگے کردیتی ہے جس کے حل کرنے میں ناکام رہتا ہوں کیونکہ میرے نمبر جعلی ہیں۔ وہ لفظ نقل کے مرہون منت تھے جو میں نے امتحان میں لکھے تھے۔ میں نے بھی ایسے ہی امتحانی سنٹروں میں نقل کی تھی جہاں ممتحن پچاس سو، دوسو روپے جیسی حقیر رقم کے عوض طالبعلموں کو نقل کراتے ہیں۔آج میں ڈگری ہاتھ میں لیے چیخ رہا ہوں۔ میں یہاں ہوں۔ میں یہاں ہوں۔ لیکن میں کسی کی اہلیت کی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔ ہرسال اس امتحانی نظام میں لاکھوں طالب علموں کو ٹھکانے لگادیا جاتاہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں حکومت کہاں ہے۔‘‘
میں اسے کیا بتاتا کہ تعلیم کسی وزیراعظم اور اس کی کابینہ کے وزیر کی ترجیح نہیں۔ ہمارا تعلیم کا بجٹ انتہائی کم ہے ایسے میں معیاری تعلیم کیسے ممکن ہے۔ تعلیم کے بعد حصول روزگار میں ناکامی نوجوانوں کو نگل رہی ہے۔ وہ آوارہ گردی کرتے ہیں۔ منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں یا پھر چوری چکاری ڈاکہ زنی لوٹ مار اور چھینا جھپٹی میں لگ جاتے ہیں۔ نوجوان نے اضطراب سے پوچھا: ’’سر! اس قتل عام کو روکنے کا کیا طریقہ ہے؟‘‘
اس قتل عام کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے جب تک ہم اپنا تعلیمی نظام صحیح خطوط پر استوار نہیں کرلیتے اور امتحانی نظام درست نہیں کرلیتے۔ تمام اسکول اور کالج بند کردینے چاہئیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment