Monday, May 11, 2015

قتل کرتا ہے ہمیں اور وہ قاتل بھی نہیں


بقول فیض وہ بندگان بے کس جو بشیر بھی ہیں نظیر بھی ہیں۔ محترم مفتی خالد بخاری صاحب بلدیہ ٹاؤن میں رہتے ہیں، فرماتے ہیں ’’چالیس دن بعد سرکاری نلکوں میں ایک گھنٹے پانی آتا ہے۔ ڈبل ٹینکر 2400 روپے کا آتا ہے۔ وہ بھی کھارا پانی۔ مہینے میں دو ڈلوانے پڑتے ہیں۔ آج کل اس قیمت میں بھی دستیاب نہیں۔ پینے کے لیے آٹھ سو نو سو روپے مہینہ پانی الگ خریدنا پڑتا ہے۔
‘‘ مولانا سلمان مولابخش کی باتوں میں عجب تاثیر ہے۔ دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ دم گفتگو چہرے پر دل آویز تبسم دیدنی ہوتا ہے۔ تیسرٹاؤن میں ایک مسجد میں خطیب اور امام ہیں، فرماتے ہیں’’علاقے میں نہ بجلی ہے، نہ گیس۔ پرویز مشرف کے دور تک جو ترقیاتی کام ہوگئے، ہوگئے۔ اس کے بعد زرداری آئے اور اب نوازشریف کسی کو اس طرف دیکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ علاقے میں صاف پانی تو ایک طرف غیر صاف پانی بھی موجود نہیں۔ پورا علاقہ ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر ہے۔‘‘ کراچی کی مضافاتی بستیوں کے شہریوں کا وجود فریاد ہی فریاد ہے۔ ایک دردناک المیہ۔ اہل درد اہل قلم اور حکمران طبقے کے فکر و عمل کا میدان یہی علاقے یہی بستیاں ہونی چاہئے۔ انہی خاک نشینوں کا بیان ذرائع ابلاغ کی شہہ سرخی، بریکنگ نیوز اور ہیڈلائنز میں نظر آنا چاہئے کہ اصل اشوز یہی ہیں۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ کی ترجیحات کچھ اور ہیں، جمہوریت کے کارنامے، الجھن میں مبتلا کردینے والے ٹاک شوز سرکار کی کارکردگی، آئین کی شقیں، کھلاڑیوں اور فلمی اداکاروں کی مصروفیات، حکومت اور اپوزیشن کی بیان بازی اور انتخابی دھاندلیاں۔ جہاں تک حکمران طبقے اور سیاستدانوں کا تعلق ہے، ان کی جائیدادیں اور اولادیں، بیرون ملک ہیں۔ پاکستان وہ محض حکومت کرنے کے لیے قیام فرما ہیں۔ اہل پاکستان ان بے مروت آقاؤں کی شکار گاہ ہیں۔ تنگدستی، بیماری، بھوک اور علم سے محرومی سے دست و گریباں خلق خدا کی کسی کہانی میں یہ کردار شامل نہیں۔
قتل کرتا ہے ہمیں اور وہ قاتل بھی نہیں
بے کسی وہ ہے کہ ہم رحم کے قابل بھی نہیں
کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آگے
ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں
کراچی میں اس کردار کا نام الطاف حسین(بھائی) ہے۔ قائد تحریک متحدہ قومی موومنٹ۔ برطانوی شہری ہیں۔ دلیری اور بہادری میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ عرصہ ہوا کراچی سے لندن فرار ہوئے تھے۔ کراچی میں فساد برپا کروادینا، ٹارگٹ کلنگ کروادینا، کراچی کو بند کروادینا ان کے روزمرہ کے کام ہیں۔ کراچی کی کہانی میں یہی ان کا کردار ہے کہ فی الحقیقت کوئی کردار نہیں۔ امکانات کی پھیلتی کائنات میں کوئی کردار، کوئی جماعت اہل کراچی کے دکھ درد دور کرنا چاہے تو اپنی طاقت خفتہ سے اسے چلنے بھی نہیں دیتے۔ ہر ہفتہ وہ رابطہ کمیٹی توڑ کر نئی بناتے ہیں۔ و ہ پہلی والی سے بھی زیادہ خود سر نکلتی ہے۔ ان کی بدحواس تقریریں اور معافیاں محققوں اور حساب دانوں کو چیلنج کرتی ہیں کہ شمار کرکے بتاؤ۔ کراچی کے عوام کے ان کے نزدیک دو ہی مسائل ہیں۔ نیاصوبہ اور اسٹیبلشمنٹ۔ کراچی کے عوام کی دال روٹی اور جینے مرنے کے مسائل وہ نان اشوز ہیں جن پر ان کی کبھی نظر نہیں پڑتی اور نہ ہی وہ ان مسائل کو اس قدر قابل التفات سمجھتے ہیں کہ اپنی تقاریر میں جگہ دیں۔ صوبائی حکومت کے کوٹھے چڑھنا اور اترنا ان کا ایسا ہی معمول ہے جیسا کسی بوالہوس کا کسی بائی کی سیڑھیاں چڑھنا اترنا۔ انہوں نے اپنی جماعت کو ایسا پاگل خانہ بنادیا ہے جہاں کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ جب وہ اہل کراچی کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف مہاجر ہیں اور مہاجر بھی وہ جو متحدہ میں ہیں۔ جن پر پنجاب اور فوج ہر دم ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ فتنہ انگیز بحثیں چھیڑنا اور فوج اور پنجاب کے منہ آناان کے پسندیدہ کام ہیں۔ اتنے پسندیدہ کہ گاہے ان کی جبلت اور فطرت محسوس ہوتی ہے جس سے وہ مغلوب ہیں۔ ان حوالوں سے ان کی تقاریر میں جھوٹ بہتان اور ملامت کی اس قدر افراط ہوتی ہے کہ ان کی بجائے سننے والے شرمندہ ہوجائیں۔ اپنی تقاریر میں اکثر وہ ان دو کے خلاف خلق کو اکساتے اور بھڑکاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی پریس کانفرنس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ایم کیو ایم پر روز اول سے ہی را کا ایجنٹ ہونے کا شبہ اظہار کیا جاتا رہاہے۔ راؤ انوار کا ایم کیو ایم پر پابندی کا مطابہ میڈیا کے وسیع حلقوں کی طرف سے توپوں کی زد میں آگیا تھا اور اسے حدود سے تجاوز قرار دیا گیا تھا۔ ایک پریس کانفرنس میں رابطہ کمیٹی نے بھائی کی نظر میں سرخروئی اور اپنی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے ان الزامات کا جواب دینے کی بھی کوشش کی۔ ایک تیسری شخصیت کا نام لیے بغیر جنرل راحیل کی طرف اشارہ بھی کردیا۔ رابطہ کمیٹی کا ردعمل کافی اور مناسب تھا لیکن الطاف حسین (بھائی) نے نہ جانے کیوں فوج کے خلاف دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے اس وقت کو مناسب سمجھا۔ کوئے ملامت کی وہ کونسی بدزبانی اور بدکلامی ہے جو الطاف حسین بھائی نے فوج کے خلاف استعمال نہ کی۔ فرماتے ہیں ’’را سے کہتا ہوں وہ ایک بار ہماری مدد کرے۔ ایم کیو ایم کے کارکن ایک گھنٹہ کلفٹن میں فائرنگ کی مشق کریں۔ تب پتہ چلے گا کہ خون مظلوم کا بہتا ہے یا ظالموں کا۔ اگر تصادم ہوا تو ان کے اسٹار، بلے اور چھڑیاں باقی نہیں رہیں گی۔ وہ لوگ جو خود ہتھیار ڈال چکے ہیں پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والوں کی حب الوطنی پر شک کررہے ہیں۔ جنرل راحیل کو دعا دیتا ہوں کہ وہ راحیل بھی بن جائیں اور شریف بھی‘‘۔ آدمی حیران ہوتا ہے کہ الطاف حسین بھائی نے یہ تقریر کیوں کی۔ میر کی زبان میں یہ پوچھنے کو جی چاہتاہے
کیا میرؔ شراب تونے پی ہے
بے ہودہ یہ گفتگو جو کی ہے
لندن پولیس نے الطاف حسین بھائی کا جینا حرام کررکھا ہے۔ ابتداء میں چار لاکھ پاؤنڈ کی منی لانڈرنگ کا الزام تھا یہ رقم اب دس لاکھ پاؤنڈ تک پہنچ گئی ہے۔ آن جہانی ڈاکٹر عمران فاروق قتل ہونے کے بعد بھی چین نہیں لینے دے رہے ۔ کراچی میں رضوان قریشی، عامر خان، صولت مرزا، ساجد لمبا، سر پھٹا، کان کٹا اور دوسرے گھر کے بھیدیوں کی زبانیں بھی کھل گئی ہیں۔ اور پھر الطاف حسین بھائی کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صحت۔ تو کیا الطاف حسین بھائی ہوش و حواس سے بے گانہ ہوتے جارہے ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ الطاف حسین جانتے ہیں کہ ان کی اصل طاقت ایم کیو ایم کے ہمدرد ووٹرز اور کارکن ہیں۔ اپنی شخصیت کا بھید کھل جانے اور قیادت کی حقیقت واضح ہونے کے باوجود وہ ان کارکنان کو بددل نہیں ہونے دینا چاہتے۔ فریب مسلسل سے خود سے جڑا رکھنا چاہتے ہیں اس کے لیے وہ کبھی مہاجر صوبے جیسا فلاپ نعرہ لگاتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ اس نعرے سے کارکنوں میں کوئی ابال نہیں آرہا تو اس طرح کی تقریریں کرتے ہیں۔ یہ ایک اچھی مارکٹنگ ہے۔ الطاف حسین بھائی کی ضرورت ہے ٹیلی ویژن اسکرین پر ان کی تصویر چوبیس گھنٹے دکھائی دے۔ اچھا یا برا ہر طرف ان کا ذکر ہو۔ ان کے کارکنوں کو یقین ہوجائے کہ الطاف حسین بھائی ایک عظیم لیڈر ہیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں کسی نظریہ یا لوگوں کے مسائل حل کرنے کی ضرورت نہیں۔ عقل پر سنگ باری کرکے جنون کی فضا پیدا کی جائے۔ یہی سیاست ہے۔ یہ نفرت کی سیاست کا نتیجہ ہے کہ خطرہ ان کے لاشعور سے نکل کر شعور پر حاوی ہوتا جارہا ہے۔ وہ جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہیں۔ وہ اس خطرے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ لیکن بڑی تیزی سے انجام کی طرف جارہے ہیں۔ وہ اس طرف سے ہٹ ہورہے ہیں جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment