Saturday, February 7, 2015

تیری آواز مکّے اور مدینے

  چند روز پہلے امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق نے کسان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے زراعت کو لاحق امراض کے حوالے سے چند کلیدی رکاوٹوں کی نشاندہی کی جو ذراعت کے شعبے کی ہی نہیں بلکہ تمام شعبوں کی ترقی کی راہ میں مزاحم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلیوں میں بیٹھے جاگیردار۔۔۔ لیکن ذرا ٹھہریے۔ جاگیرداروں اور اسمبلیوں کے تعلق کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے اس شجر کا ذکر ہوجائے جس کی اسمبلیاں شاخیں ہیں۔ لیکن اس سے بھی پہلے آرزو لکھنوی کے لڑکپن کا ایک واقعہ سن لیجیے۔ آرزو کو ان کے محلے کے ایک بزرگ میرن صاحب نے سرراہ روک کر پوچھا ’’منجو میاں! سنا ہے تم ماشاء اللہ شاعر ہوگئے ہو میں تو جب مانوں گا جب تم اس مصرع پر گرہ لگادو، اڑ گئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں‘‘ آرزو نے برجستہ کہا ’’دامن اس یوسف کا آیا پرزے ہوکر ہاتھ میں‘‘۔ تو صاحبو اسمبلیوں میں بیٹھے جاگیردار جس جمہوریت کے نمائندہ ہیں وہ اگر سونے کی چڑیا ہے تو اس سونے کی چڑیا کے صرف پر غریبوں کے ہاتھ لگتے ہیں۔ اصل سونے کی چڑیا ان جاگیردار وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ لگتی ہے۔ اس سسٹم میں جن کی دولت میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں جو جمہوریت رائج ہے اس میں عوام کو جو کچھ مہیا کیا جاتاہے وہ ساٹھ سیکنڈ کی آزادی ہے۔ ووٹ کی پرچی پر مہر لگانے کی آزادی۔ اس کے بعد عوام کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں رہتا کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ انہیں اس بات کی آزادی تو ہوتی ہے کہ وہ حکمرانوں کو برا بھلا کہہ سکیں جن کا ان پر کوئی اثر نہیں۔ وہ ہر طرح کے خوف کے بغیر جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ ریاست اور ریاستی امور پر اقتدار کا مطلب ہزاروں لوگوں کی موت یا زندگی خوشی یا غمی ہے۔ ہمارے ان برسراقتدار لوگوں نے عوام کے لئے موت یا زندگی میں سے موت، خوشی یا غمی میں سے غم کا انتخاب کیا ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ان لوگوں نے اقتدار کو اپنی ذاتی دولت میں اضافے کا ذریعہ بنایا ہے اور ملک کو اتنا لوٹا ہے کہ اس کی ہڈیاں بھی چبا ڈالی ہیں۔ جس کی کرپشن اور چوری کا ذکر آتا ہے وہ کروڑوں اور اربوں میں ہوتی ہے۔
بات امیر جماعت کے کسان کنونشن سے شروع ہوئی تھی۔ اس کنونشن میں انہوں نے فرمایا کہ اسمبلیوں میں بیٹھے جاگیردار زرعی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ نظام ترتیب ہی اس طرح دیا گیا ہے کہ اسمبلیوں میں جاگیردار، وڈیرے، ان کے گماشتے اور اشرافیہ سے وابستہ لوگ ہی پہنچ سکتے ہیں۔ 1973ء کے آئین میں نو آبادیاتی ایکٹ کی نقل کرتے ہوئے اسمبلیوں کی بے تحاشہ بڑی نشستیں مقرر کی گئیں جن میں صرف وڈیرے، فیوڈل سردار اور ارب پتی سرمایہ دار ہی پہنچ سکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ہی انتہائی مہنگے الیکشن لڑنے کی سکت رکھتے ہیں۔ گزشتہ آٹھ انتخابات میں فیصل آباد کے دیہی علاقوں پر مشتمل نشستوں کے انتخابات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر مرتبہ کامیاب ہونے والوں کا تعلق وہاں کے چھ امیر ترین خاندانوں میں سے ایک کے ساتھ ہے۔
یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں امریکہ اور دیگر جمہوری ممالک میں بھی جس کے پاس پیسے ہوں صرف وہی اسمبلیوں میں پہنچ سکتا ہے۔ ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلکنز دونوں امریکہ کے مراعات یافتہ طبقوں کے مہروں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔ مغربی جمہوریت عملی طور پر مراعات یافتہ طبقوں کی ایجنسی بن کر رہ گئی ہے جو امیروں کو بہت زیادہ امیر اور غریبوں کی غربت میں اضافہ کررہی ہے۔ امریکہ میں جب جب کسانوں مزدوروں اور دانشوروں نے اپنی پارٹیاں بنائیں انہیں سرمایہ دار طبقے نے پنپنے نہیں دیا۔ امریکہ ہو یا پاکستان ہویا کوئی اور جمہوری ملک ایوان اقتدار تک رسائی دولت کا کرشمہ ہے۔
آگے چل کر محترم سراج الحق نے مزید فرمایا کہ تمام مسائل کا واحد حل اسلام کے نفاذ میں پوشیدہ ہے۔ آج تک جتنے نظام آزمائے گئے انہوں نے ملک و ملت کو مسائل اور بحرانوں سے دوچار کیا ہے۔ دنیا نے اپنے مسائل کے حل کے لئے عہد جدید میں کمیونزم اور سرمایہ داریت پر انحصار کیا ہے۔ کمیونزم مختصر سی مدت میں دم توڑ گیا۔ اب پوری دنیا میں سرمایہ داریت کا راج ہے۔ پاکستان میں بھی جمہوری حکومتیں ہوں یا فوجی ملک سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کیا ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام کی پہلی بات تو یہی ہے کہ دین اور دنیا کے معاملات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ان کا دائرہ عمل الگ الگ ہے۔دوسری یہ کہ ہر شخص آزادیٔ عقیدہ،آزادیٔ رائے اور شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ منافع کمانے یا ملکیت بنانے میں بھی آزاد ہے۔حکومت مارکیٹ کی قوتوں کے معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کرے گی۔یہ سود خور بینکاروں اور سرمایہ داروں کا پھیلایا ہوا وہ جال ہے جس کا مقصد ہر جائز ناجائزطریقے سے منافع کمانا ہے۔خواہ یہ روزمرہ کی ضروری چیزوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچاکر حاصل کیا جائے یا کرپشن کرکے یا ٹیکس چراکے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیسا سرمایہ داروں کے پاس جمع ہوتا چلا جاتا ہے۔اتنا کہ قارون بھی دیکھے تو آہ سرد بھرے۔اس طرح اصل طاقت سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے نتیجہ امیر زیادہ امیر اور غریب،غریب سے غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔آج یہ نظام امریکہ میں بھی دم توڑ رہا ہے۔مشہور زمانہOccupy Wall Streetاسی نظام کی تدفین کا انتظام تھا جس میں امریکی عوام اس نظام کے خلاف سڑکوں پر اور پارکوں میں جوش و غضب سے نعرے لگارہے تھے،بینرز اور پلے کارڈز بلند کررہے تھے۔ان بینروں پر کیا لکھا تھا۔ان پر لکھا تھاCapitalism Is Organized Crimeسرمایہ داریت ایک منظم جرم ہے اور ہم ننانوے فیصد ہیں We Are 99%۔جن لوگوں پر یہ نظام کئی دہائیوں سے نافذ ہے آج وہ اس نظام سے چھٹکارا پانے کے لئے مجسم احتجاج ہیں۔
پاکستان کے عوام کی اکثریت اسلام کا نفاذ چاہتی ہے۔ پاکستان کے عوام پاکستان کو احکامات خداوندی کی تعمیل کا ذریعہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں رائج نظام اسلامی نہیں ہے۔ یہ قرآن اور سنت سے اخذ کردہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی بنیاد اساس اور تفصیلات میں اسلام سے متناقص ہے۔اسلامی نظام اور اسلامی ریاست کوئی خواب واحمہ یا خیالی تصور نہیں ہے یہ وہ نظام ہے جو تیرہ سو برس سے زیادہ عرصے تک تاریخ رقم کرتا رہا۔ محترم سراج الحق کی آواز مکے اور مدینے کہ اسلام ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

0 comments:

Post a Comment