شکارپور سانحہ میں غیر ملکی دہشت گرد تنظیم داعش کے ملوث ہونے کے خدشے کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایک عسکریت پسند تنظیم کا نام بھی لیاجارہا ہے جس نے سانحہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ جو بقول اس کے ایران میں سنی مسلمانوں کے حقوق کے لئے لڑ رہی ہے۔ ایک قیاس یہ بھی ہے کہ ممکن ہے کہ جنداللہ اور طالبان باہم متحد ہوگئے ہوں اور ایسی کاروائیوں میں ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔ یہ تنظیمیں اسٹیج کی اداکار ہیں۔ کسی کی ایجاد اور اختراع۔ وہ عفریت جو افغانستان، عراق، شام اور عالم اسلام میں نہ جانے کہاں کہاں سرگرم ہے جس کا نام لیتے ہوئے ہمارے حکمرانوں کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں کہ حکومت بھی تو کرنا ہے۔ امریکہ کی مدد کے بغیر حکومت کیسے ممکن ہے۔ امریکہ جو کہیں اپنی ایجنسیوں کی مدد سے بروئے کار ہے اور کہیں مقامی لوگوں کو دہشت گردی کے لئے استعمال کررہاہے۔
عراق پر حملے کے وقت ٹائم میگزین نے اپنے سرورق پر سیاہ لباس اور ڈھاٹا باندھے ہوئے افراد کی تصویروں کے ساتھ خصوصی فیچر شایع کیا۔ یہ لوگ سی آئی اے کے ایجنٹ تھے جو کروڑوں ڈالر نقد لے کر حملے سے پہلے عراق میں داخل ہوگئے تھے تاکہ حملے سے پہلے عراق کے کلیدی مراکز کو ناکارہ کرسکیں اور مقامی افراد کو نقد رقم دے کر تخریبی کاروائیوں کے لئے اپنا ایجنٹ بناسکیں۔
پاکستان میں مختلف مسالک کی عبادت گاہوں میں تخریبی سرگرمیوں کا مقصد ان مسالک کے افراد کے درمیان خون خرابہ اور فسادات کرانا ہے۔ ثابت کیا جائے کہ اسلام بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔ نائن الیون کے بعد ’’مسلم دنیا میں امریکی حکمت عملی‘‘ کے عنوان سے تیار کی گئی رینڈ کارپوریشن کی ایک رپورٹ میں امریکی حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ ’’امریکی اہداف کے حصول کے لئے شیعہ سنی اور عرب غیر عرب اختلافات کو استعمال کیا جائے‘‘۔ اس رپورٹ کی سفارشات پر عراق میں پوری طرح عمل کیا گیا۔ شیعہ سنی فسادات کرانے کے لئے اہل تشیع اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا اور تاثر یہ دیا گیا کہ یہ سنیوں کا کام ہے۔ اسی طرح سنی مکتب فکر کے مقدس مقامات کو ہدف کیا گیا اور الزام شیعوں پر ڈال دیا گیا۔ چھوٹے موٹے واقعات کے بعد ایک بڑا دھماکہ کیا گیا۔ 22 فروری 2006ء کو سامرا کی مسجد عسکری میں دن کی روشنی میں چار افراد داخل ہوئے۔ ان میں ایک پولیس کی وردی اور تین سیاہ لباس میں ملبوس تھے۔ یہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے انتہائی تربیت یافتہ اہلکار تھے۔ انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ مسجد کے محافظوں کو قابو کیا اور عمارت میں جگہ جگہ بم نصب کرکے اسے اڑادیا۔ دنیا بھر کے معروف تجزیہ نگاروں نے اس واقعے کو امریکی فوج اور اس کے ایجنٹوں کی کاروائی قرار دیا۔ جس میں اہل تشیع کے دو آئمہ کرام کے مزارات کو نقصان پہنچا۔ امریکی اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ اس واقعے کے بعد شیعہ آبادی کو باآسانی سنیوں کے خلاف مشتعل کردیا گیا اور شیعہ سنی تصادم کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔
پاکستان میں بھی ایک طویل عرصے سے ایسے ہی منصوبے پر عمل کیا جارہاہے۔ کچھ سال پہلے امریکی اہلکار پاکستان میں سرگرم مشاہدہ کیے گئے لیکن ریمنڈ ڈیوس واقعہ کے بعد ان کی سرگرمیاں پس منظر میں چلی گئیں۔ تاہم اس دوران مقامی افراد پر مشتمل ایک نیٹ ورک تشکیل دے دیا گیا۔ مقامی افراد کے جذبات ابھار کر یا ان کی غربت کے ازالے کے ذریعے ایجنٹ تیار کرنے میں امریکی ایجنسیاں دنیا بھر میں معروف ہیں۔ پھر وہ عسکری تنظیمیں جو بہت ڈھیلا ڈھالا نیٹ ورک رکھتی ہیں ان میں اپنے ایجنٹ داخل کرکے دہشت گرد کاروائیوں کا وقوع بھی کچھ مشکل بات نہیں ایسی ہی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں آئے دن دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گرد اس لحاظ سے ناکام ہیں کہ وہ وطن عزیز کے گلی کوچوں میں شیعہ سنی فسادات کرانے میں ناکام ہیں۔ پاکستان کے مسلمان فرقہ پرست نہیں بلکہ محبت یگانگت اور رواداری پر یقین رکھتے ہیں۔ تاہم دہشت گردی کے ایسے واقعات کے بعد کراچی جیسے بڑے شہر میں بعض مخصوص مقامات پر سراسیمگی پھیل جاتی ہیں۔ گاڑیاں جلانے کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جس سے ایک طرف زندگی مفلوج ہوجاتی ہے، نقل و حمل انتہائی دشوار۔ صورتحال اس قدر پھنس جاتی ہے کہ ایک ذرا سی غلطی ایک چھوٹی سی چنگاری فساد کا سبب بن سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ ایک طرف شیعہ سنی فسادات کرانے والے عناصر ہیں جو استعمار کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ ہے جس کی تسکین مسلمانوں کے بہتے ہوئے خون سے ہوتی ہے۔ مسئلہ کے حل کے باب میں میرے اللہ کا فرمان ہے:
’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو اپنے لوگوں کے سوا کسی اور کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے‘‘۔
ہمیں دوستوں سے زیادہ دشمنوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment