ملزم ہو بارسوخ تو قانون کچھ نہیں
کس نے یہ درج کردیا میزان عدل پر
تاہم وزیراعظم صاحب کو اس بات کی داد دینا لازم ہے کہ گالی گلوچ کے اس شور شرابے سے متاثر نہیں ہوئے جو الطاف حسین اور عمران خان کے درمیان برپا تھا۔ ان کی توجہ سانحہ بلدیہ پر ہی مرکوز رہی۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن پر جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ منظر عام پرآنے کے بعد الطاف حسین نے عمران خان کی پارٹی خواتین پر انتہائی شرمناک اور غیر محتاط حملوں کی یلغار بلاوجہ نہیں کی تھی۔ یہ سانحہ بلدیہ کی رپورٹ سے توجہ ہٹانے کی حکمت عملی تھی۔ اس سے پہلے بھی وہ عمران خان پر اس طرح کے حملے کرچکے تھے۔ جب کراچی کی دیواریں ناقابل اشاعت جملوں سے سیاہ کردی گئی تھیں۔ پھر اگلے ہی دن الطاف حسین نے ان عبارتوں کو مٹانے کا حکم دے دیا۔ اس مرتبہ الطاف بھائی کی جانب سے مغلظات کی چکاچوند سے لگتا تھا معاملہ طویل کرنے کا پروگرام ہے لیکن عمران خان کی طرف سے جو کرارے کرارے جواب آئے الطاف بھائی کے طرزخطابت اور گاناگانے کا خاکہ اڑایا گیاالطاف بھائی کے ہوش ٹھکانے آگئے اور انہیں اسی میں عافیت نظر آئی کہ
صلح کرلو یگانہ غالب سے
وہ بھی استاد، تم بھی استاد
معذرت کرنا اچھا ہے لیکن باربار خاک پھانکنا۔ واہی تباہی بکنا اور پھر معذرت وطیرہ بنالینا ہوشمندی نہیں۔ ایسی بات کہی کیوں جائے کہ منہ کالا ہو۔جبکہ جناب ہزاروں لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کے دعویدار بھی ہیں اور پھر عمر کے اس حصہ میں ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو عقل آہی جاتی ہے۔ بہرحال دونوں ہی جانب سے رکیک جملوں کا جو تبادلہ ہوا اس نے شہر اخلاقیات کو جس طرح برباد کرکے رکھ دیا 1906ء میں زلزلہ سے سان فرانسسکو کی بربادی یاد آگئی۔ جب ایک مقامی اخبار ڈیلی ٹائمز نے سرخی لگائی تھی ’’سان فرانسسکو جو تھا San Francisco was‘‘ بات میاں صاحب کو داد دینے سے شروع ہوئی تھی۔ میاں صاحب کی اس واردات کی ستائش کرنا بھی لازمی ہے جو انہوں نے اس شورشرابے کا فائدہ اٹھاکر ٹیکسوں سے لیکر کھانے کے تیل تک 110 ضروریات زندگی پر پانچ فیصد تک اضافہ کیا ہے۔الطاف حسین کی بوکھلاہٹ ایک ایسے شخص کے مترادف ہے جسے احساس ہو کہ اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہاہے۔ برطانیہ میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا معاملہ آہستہ روی سے سہی لیکن چل رہا ہے حکومت پاکستان سے بدستور ان دو افراد کی حوالگی کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو مبینہ طور پر پاکستان خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں۔ منی لانڈرنگ کا کیس کسی بھی وقت بے قابو ہوسکتا ہے۔ رینجرز دیگر جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ ساتھ ان مجرموں سے بھی کوئی رعایت کرنے پر تیار نہیں جنہیں ایم کیو ایم کی سرپرستی حاصل ہے۔ سندھ حکومت کے سرپرست سابق صدر آصف علی زرداری کی شاطرانہ چالیں ہرمرتبہ ایم کیو ایم کو تھوک کر چاٹنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ ایم کیو ایم کا مسلم لیگ ن سے اتحاد کا معاملہ چل رہا تھا رینجرز کی جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ منظرعام پر لائی گئی اور ایم کیو ایم ایک بلیک میل ہوجانے والے فرد کی طرح گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔ وہ سندھ حکومت جس کے وزیراعلی ہاؤس کے دروازے پر کل تک اپنے ایک سیکٹر انچارج اور دیگر کارکنوں کے قتل کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا بلاول کے ایم کیو ایم کو بلیک میل کرنے والی دہشت گرد تنظیم کہنے پر ہرطرح کا تعلق اور اتحاد ختم کیا جارہا ہے۔ الطاف بھائی مسکراتے ہوئے اسی سندھ حکومت کے نمائدوں سے جھپیاں ڈال رہے تھے۔
سنی تحریک، اے این پی اور پیپلز امن کمیٹی سمیت ایم کیو ایم ان چار جماعتوں میں سے ایک ہے جنہیں سپریم کورٹ بھتہ خور ڈکلیئر کرچکی ہے۔ ایم کیو ایم کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے ڈیتھ اسکواڈ کا زیادہ چرچہ رہتا ہے حالانکہ اصل طاقت وہ بھتہ ونگ، قبضہ ونگ، اغواء اور ڈکیت ونگ فراہم کرتے ہیں جن کی لوٹ مار کے بغیر پارٹی کے مالی معاملات اور جناب الطاف کے بھاری بھرکم اخراجات کا بوجھ اٹھانا ممکن ہوا۔ ان ونگز کا کاروبار دہشت اور وحشت کے بغیر نہیں چل سکتا۔جس کے لئے اقتدار میں رہنا ایم کیو ایم کی مجبوری ہے۔ کہا جاتا ہے بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری کی آگ بھی اسی دہشت اور وحشت کے برقرار رکھنے کا نتیجہ تھا۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور سانحہ 12 مئی ہماری تاریخ کے شرمناک ابواب ہیں۔ ایسے جملے بول اور لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کرتے رہئے۔ ان باتوں سے حکمران بیدار ہوجائیں اس کی امید مت رکھئے۔ بحیثیت قوم ہم اتنے بے شرم ہوچکے ہیں کہ ایسی باتیں دل میں ہلکی سی خلش کا سبب بھی نہیں بنتی۔ ویسے بھی مرنے والے مزدور اور غریب لوگ تھے۔ وہ خاک نشین جن کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔ 300 کے قریب زندہ افراد زندہ جلادئے لیکن اس ہولناک واقعے پر نہ کسی کا احتساب ہوا اور نہ آئندہ ہونے کا امکان ہے۔ اگر کوئی کیس دہشت گردی کے خلاف قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں میں بھیجے جانے کے قابل ہے تو وہ یہ کیس ہے۔ لیکن خاطر جمع رکھئے اس کا امکان نہیں۔ ہمارے یہاں انصاف اقتدار کی مجبوریوں کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا تو دور کی بات ہے۔ اس سے اندازہ کیجئے کہ جس گارمنٹ فیکٹری میں آگ لگی تھی اس کے دروازوں پر تالے لگے ہوئے تھے۔ کھڑکیوں کو آہنی سلاخوں سے بند کیا گیا تھا۔ ہنگامی راستے یا سیفٹی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ لیکن اس واقعے کے بعد بھی ملک بھر کی فیکٹریوں میں محنت کش بچوں، عورتوں اور مردوں کی حفاظت کے لئے انتظامات کا فقدان ہے۔ ہر طرف گدھ ہی گدھ ہیں۔ چھوٹے اور بڑے گدھ۔
وحشی چہرے گندی چونچ اور موٹی گردن والے گدھ
اس بستی کا کیا کہیے کہ جس کے ہوں رکھوالے گدھ
قحط زدہ سیلاب گزیدہ لاکھوں ننگے بھوکے لوگ
اور ہمارے چاروں جانب عیاشی کے پالے گدھ
دنیا بھر کی دیکھی بھالی ٹھنڈی سوئی بزدل قوم
ساٹھ برس سے قوم پہ حاکم قوم کے دیکھے بھالے گدھ
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
0 comments:
Post a Comment