Tuesday, August 30, 2016

شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کرلی


ہلکی سی ترمیم کے ساتھ غالب کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:
 وہ جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
ان کی صحت کتنی ہی خراب کیوں نہ ہوآواز خانہ خراب کی سی ہی رہتی ہے ۔بھاری اور چنگھاڑتی ہوئی۔ ابتداََاسے وہسکی کی زیادتی پر محمول کیا گیالیکن پھریہ ان کا معمول بن گئی۔ اس بلا نوش شرابی کی گھرکیاں تو چلتی ہی رہتی تھیں لیکن پیر کے روز یہ اس وقت ناقابل برد اشت ہو گئیں جب گالم گلوچ میں بدل گئیں۔الطاف حسین نے پا کستان کے خلاف یہ زبان کیوں استعمال کی اس کی کوئی معقول تو کیا نا معقول وجہ بھی ہماری سمجھ میں نہیں آرہی ہے سوائے اس کے کہ یہ ان کی سرشت میں داخل ہے۔پارٹی کا آغاز ہی انھوں نے مزار قائد پر پاکستان کا پرچم جلا کر کیا تھا۔نو برس پہلے دہلی میں کھڑے ہو کر انھوں نے کہا تھا پاکستان کی تخلیق تاریخ کی سب سے بڑی غلطی ہے۔کچھ ایساہی خیال الطاف  حسین کی پیدائش کے بارے میں اہل وطن کا ہے۔
 مغلظات بکنے کے بعد الطاف حسین اگلے ہی روز جس تندہی سے توبہ تائب ہوتے ہیں اس کی وجہ پریشانی یا پشیمانی نہیں یہ بھی ان کی عادت کا حصہ ہے۔اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔پیر کی بکواس کے بعد اگلے ہی روز ان کی طرف سے معافی آگئی۔اس معافی کے بعدانھیں کچھ جمع تفریق کی غلطی کا احساس ہوا۔جس کی تلافی انھوں نے امریکہ اور ساؤتھ افریقہ کے خطاب میں کردی۔
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کرلی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
جو اہل وطن الطاف حسین کی بد زبانی سے مسلسل خون کھولائے جارہے ہیں ان سے عرض ہے’’ذلیل کی گالی ہنس کے ٹالی۔‘‘
گالم گلوچ کا جو باب الطاف حسین نے کھول رکھا ہے یہ اس کا انیسواں یا بیسواں اظہار ہے اور انیسواں یا بیسواں نوٹس ہے جو وفاقی حکو مت نے لیاہے۔ابتداََعندیہ دیاگیا کہ الطاف حسین کے خلاف حکومت برطانیہ سے احتجاج کیا جائے گا۔تاہم اب یہ طے کیاگیا ہے کہ ایسا نہیں کیا جائے گا۔یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے ۔پہلے ہی احساس ہوجانا چاہیے تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ۔2013میں گارڈین نے لکھاتھا’’کراچی دنیا کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں امریکہ نے برطانیہ کو فری ہینڈدے رکھا ہے۔کراچی میں واقع امریکی قونصل خانہ شہر سے خفیہ اطلا عات حاصل کرنے کا کام نہیں کرتا۔یہ کام برطانیہ کرتا ہے۔بین الاقوامی سیاست بازی میں ایم کیو ایم کی برطانیہ کے لیے وہی اہمیت ہے جوپہاڑپر چڑھتے  وقت اس جگہ کی ہوتی ہے جو پاؤں رکھنے کے لیے کوہ پیما کو ملتی ہے۔‘‘امریکہ،برطانیہ اور ان کا اسٹر ٹیجک حلیف بھارت الطاف حسین کے وہ آشنا ہیں جن کی وفاداری تک وہ محدود ہیں۔اب اس میں پاکستان کی محبت کی گنجائش اور ضرورت نہیں۔ امریکا اور برطانیہ کوپاکستان کے سب سے بڑے اور انتہائی اہمیت کے حامل شہر کراچی میں اثر رسوخ درکار ہے۔    اسکاٹ لینڈ کے پاس ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس،منی لانڈرنگ اور بھارتی خفیہ ایجنسی را سے الطاف حسین کے روابط کے ٹھوس ثبو ت موجودہیں۔یہ وہ مجرم ہے جو پاکستان کی پارلیمنٹ میں وفاقی اور صوبائی وزرا اور کراچی میں تر بیت یافتہ عسکری ونگز اور جرائم پیشہ افراد کے گروہ رکھتا ہے اور برطانیہ کاشہری ہے اور برطانیہ کے مکمل کنٹرول میں ہے۔وہ کیسے اس اہم مہرے کو اپنے ہاتھوں ضائع کرسکتے ہیں۔
    ایم کیو ایم کو الطاف حسین کے بغیر دیوار کے سائے میں کھڑے رکھنے کی جو کوشش ڈاکٹر فاروق ستار کر رہے ہیں اس کی حقیقت ابھی سے آشکار ہورہی ہے۔یہ ایک اعلی منصوبہ بندی کا حامل ڈرامہ ہے جو پوری مہارت  سے اسٹیج کیا جا رہا ہے۔انھوں نے الطاف حسین کے بیان سے لا تعلقی کا اظہار کیا،لندن سے آزادی کا اعلان کیا لیکن فوج کے خلاف گالیوں اور ہذیان کے خلاف مذمت سے گریز کرتے رہے۔اپنی طویل تقریر میں وہ بار بار الطاف بھائی،بانی تحریک اورقائد تحریک کے الفاظ ادا کرتے رہے۔تاکہ ایم کیو ایم کے سپورٹرز اسے مائنس الطاف مہم نہ سمجھیں بلکہ ایم کیو ایم کو بچانے کے لیے مجبوری میں اُٹھایا گیا ایک قدم سمجھیں  ۔ایم کیو ایم حقیقی اور مصطفی کمال کی صورت میں ہماری اسٹبلشمنٹ مائنس الطاف کوششوں کا حشر دیکھ چکی ہیں۔
 مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم سب کی ضرورت ہے۔امریکہ اور برطانیہ کی بھی اور ہماری اسٹبلشمنٹ کی بھی۔یہ ہماری اسٹبلشمنٹ ہی تھی جس نے صدر ضیاء الحق کے دور میں ایم کیو ایم کو اہل کراچی پر مسلط کیا۔ضیاء الحق اسلامی ذہن رکھتے تھے اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذکے لیے بھی کوشاں تھے لیکن انھوں نے ایک ایسی جماعت کو پھلنے پھولنے کاموقع دیاجو اسلام کی تعلیمات کے صریح خلاف عصبیت اور تعصب کی علمبردار تھی۔اہل کراچی پاکستان کی انٹیلی جینشیاتھے۔ظلم کے خلاف ہر آواز یہیں سے اٹھتی تھی۔ایم کیو ایم کے بعد اب کراچی اس طرح کی انٹیلی جنشیا نہیں رہا۔اب اس کو غنڈہ گردی پرلگادیا گیا ہے۔کئی دہائیوں سے اس ظلم کے سبب جب کراچی جہنم بن چکا ہے اب اسٹبلشمنٹ مسیحا بن کر اہل کراچی کو ایم کیو ایم کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے میدان میں آگئی ہے۔ لیکن اس سے قطعاََیہ مراد نہیں ہے کہ اسٹبلشمنٹ ایم کیو کا خا تمہ چاہتی ہے۔انھیں علم ہے کہ الطاف حسین کی صحت خراب ہے۔وہ بہت زیادہ شراب پینے لگے ہیں۔وہ شدید ذہنی دباؤ میں حوش وحواس کھو بیٹھتے ہیں۔لہذا الطاف حسین کی زندگی میں ہی ان کا متبادل لایا جائے جو ان کے سپورٹرز کے لیے قابل قبول ہو۔مائنس الطاف فارمولا ماضی میں بھی ناکام رہا اور آج بھی ناکام ہے۔ایک ایسا سیٹ اپ تیا ر کیا جائے جو الطاف حسین سے محاذآرائی کیے بغیرایم کیو ایم کو سنبھال لے۔فاروق ستار کی قیادت میں نئی ایم کیو ایم ان ہی کوششوں کا ثمرہ ہے۔
   اس  وقت الطاف حسین کی دو حیثیتیں ہیں یاتو وہ قائد تحریک ہیں یا پاکستان کو توڑنے کی کوشش اور دعائیں کرنے والے غدار ہیں۔جس شخص نے پاکستان۔۔۔کے نعرے لگائے اور لگوائے ہوں،پاکستان کو ناسور،دنیا کے لیے عذاب اور دہشت گردی کی آماجگاہ کہا ہو وہ پاکستان میں کسی جماعت یا تحریک کا قائد کیسے ہو سکتا ہے۔اس کی جماعت کیوں کر پاکستان میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔کیوں کر ایک ایسے شخص کوکراچی کا میئر بنا دیاگیاجو الطاف حسین جیسے غدار وطن کواپنا قائد تسلیم کرتاہے لیکن جیسا کہ عرض کیاگیا ایم کیو ایم کازندہ رکھنا ضروری ہے ۔ایم کیو ایم سب کی ضرورت ہے اس لیے کراچی کے لوگوں کو بظاہر یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ انھیں ایم کیو ایم کے ظلم سے نجات دلائی جارہی ہے،ایم کیو ایم کے دفاتر مسمار کیے جا رہے ہیں،ان کے دہشت گردوں کو گرفتار کیا جارہا ہے لیکن دوسری طرف ایک بار پھر کراچی اور حیدرآباد کو ایم کیو ایم کے میئرز کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کو اس طرح عدالت میں پیش کیا جارہا ہے کہ ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوتی ہیں،کسی کا پاؤں زخمی ہے اور وہ لنگڑارہا ہے۔ اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والوں پر  ان دہشت گردوں سے مظلومیت اور ہمدردی کا تاثر پیدا ہو۔ایم کیو ایم کی اسٹریٹ پاور کمزور ہو لیکن اس کی ووٹ پاور بدستور موجود رہے۔ظلم کو ظلم کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کرکے اسکو باقی رکھنے کا اہتمام کیا جارہاہے ۔حالا نکہ وہ جا نتے ہیں ظلم ظلم سے نہیں انصاف سے ختم ہوتا ہے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
مزید پڑھیں

Friday, August 26, 2016

یہ تم کس آواز پر پابندی لگا رہے ہو

اللہ کی لامتناہی رحمت اور اکرام کابیان ہوتو جو شخصیت فکر میں مجسم ہوتی ہے ان کانا م ہے مولانا طارق جمیل۔ ، لفظوں کے زمرد ،مرجان اور موتی  اللہ کی محبت اور شفقت کا بیان بن جاتے ہیں اگر مولانا طارق جمیل برسر منبر ہوں۔ان کا امتیاز محبت اور امید ہے۔وعظ آغاز کرتے ہی وہ اللہ سبحانہ وتعالی سے عشق ومحبت کے بیج ایک سحر انگیزی اور دلکشی سے بوتے چلے جاتے ہیں تب انسان کی زندگی اللہ کی  بندگی اور عجز وفقر کے جذبات سے لبریز ہوکر انسانیت کا قابل فخر باب بن جاتی ہے۔ لاکھوں لوگ ہیں جو ایسے وجود پر یقین تو رکھتے ہیں جو خالق ہے مالک ہے لیکن ان کے دل،روح اور نفس مدہوش ہو چکے ہیں،مولانا طارق جمیل کے خطبات ان کے دل کی بند شریانوں میں ایمان کا نورمنور کر دیتے ہیں۔وہ غیر اہم فروعی مسائل کے بیان سے دینی جذبات کا استیصال نہیں کرتے ہیں۔فروعی مسائل میں الجھا نے کی بجا ئے وہ روح اسلام کے اصل سر چشموں سے لوگوں کا تعلق جوڑتے اور ان کی روحوں کو سیراب کرتے ہیں۔   
پریشان کن حالات میں وہ لوگوں کو احتجاج کرنے یا حکومت اور فورسز سے محاذ آرائی کر نے اور تحریکیں شروع کرنے کا درس نہیں دیتے بلکہ اللہ رب العزت سے تعلق جوڑنے،اپنی باطنی صلاحیتوں کو اجا گر کرنے اورزہد اور مجاہدے سے گزارتے ہیں۔دینی مدارس سے وابستہ کرکے وہ نئی نسل کو اسلامی علوم کی تحصیل پر آمادہ کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت جس کے مراکز سے مولانا طارق جمیل جڑے ہیں،مختلف  مدت کے پرو گراموں،مساجد میں دن رات سکونت اور گھر گھر ،گلی گلی ،محلے محلے گشت سے ایسی جماعتیں پیدا کرتی ہے جو ہر قسم کی دنیوی یا مادی منفعت سے بالاتر ہوکر ساری دنیا میں دین کی تبلیغ کا کام کرتی ہیں۔مزدور ہوں یادفتری ملازمین،تاجر ہوں یا صنعت کار،سیاسی جماعتیں ہوں یا کھیلوں سے وابستہ افراد،فلموں کے اداکار ہوں یا ٹی وی چینلز سے وابستہ لوگ مولانا طارق جمیل سب کے گرد احاطہ کیے ہوئے ہیں۔بھارتی اداکار عامرخاں ہوں یا وینا ملک وہ سب سے محبوبیت کا رشتہ رکھتے ہیں۔انھیں گناہ گار سے نہیں گناہ سے نفرت ہے۔
 مغرب نے مسلمانوں کے خلاف اتنے محاذ ، خندقیں اور اجتماعی قبریں نہیں کھودی ہونگی جتنی مسلم سر زمین پر فرقہ واریت کے فتنے نے لعنت اور مصائب کے گڑھے کھودے ہیں۔مولانااطاعت کی بات کرتے ہیں عبادت پر زور دیتے ہیں،فکر مند اور غمزدہ دل کے ساتھ معاشرتی برائیوں کا مرثیہ پڑھتے ہیں،جنت کی منظرکشی اس خوبی سے کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سماعت میں گونجنے لگتے ہیں:   اللھم لا عیش  الاعیش الآخرۃ          اے اللہ زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے
تاریخ پر گہری نظر اور ولولے سے لبریز حکایات بیان کرتے ہیں،اپنی حیرت انگیز یادداشت کے کرشمے دکھاتے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا تذکرہ ایسے لگاؤ،عقیدت  اور والہانہ پن سے کرتے ہیں کہ زندگی سراپا فراق اور سراپا الم ہوکر بے چین اور اشک بار ہوجاتی ہے لیکن جس موضوع کا وہ اشارے کنائے میں ذکر نہیں کرتے،مسلمانوں کے طویل ماضی سے جن حا لات سے وہ سر سری گزرنا بھی پسند نہیں کرتے وہ فرقہ واریت پر مبنی سوچ ،فکر اور واقعات ہیں۔
مولانا طارق جمیل دعوتی میدان کے شہسوار ہیں۔لوگ ایمانی حقائق کی معرفت کے لیے ان کے گرد ہزاروں کی تعداد میں ہالہ کر لیتے ہیں۔وہ ملکی نظام کو اکھیڑنے کی بات نہیں کرتے،سیاسی نظام کوتبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتے،ملکی قوانین کے اندر رہتے ہیں،دینی جذبات کا غلط استعمال کرکے امن وامان کے مسائل پیدا نہیں کرتے،پوری دنیا میں اسلام کا چہرہ جو کہ ایک ہی مثبت چہرہ ہے پیش کرتے ہیں۔دین کے فروغ اور اشاعت کے لیے ساری دنیا ان کا میدان عمل ہے  ۔وہ ہر جگہ جاتے ہیں،ہرجگہ بصد شوق اور اہتمام بلائے جاتے ہیں لیکن ایک نئے حکم کے تحت اب وہ جس جگہ بلائے نہیں جاسکتے،جس جگہ اسلام کا درس نہیں دے سکتے وہ تقوی ایمان اور جہاد کی علمبردار پاک فوج ہے۔جس کے کسی پروگرام ،کسی حصے میں بطور مہمان لیکچر نہیں دے سکتے اور تبلیغ نہیں کر سکتے۔فوج کے جاری کردہ ایک نوٹی فیکیشن کے مطابق ان پر پابندی عائد ہے۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد24دسمبر2014کووزیر اعظم نوازشریف نے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں قوم کے سامنے نیشنل ایکشن پلان پیش کیا۔اس پلان کا بنیادی مقصد ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا تھا۔اس منصوبے کی متعدد شقوں میں سے ایک شق کا ہدف دینی مدارس،مساجد نفرت پر مبنی تقاریر اور نفرت انگیز موادشائع کرنے والے تھے جن  کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا عزم کیا گیا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان کے اہداف اور بنیادی ڈھانچہ ایک امریکی ادارے بنام’’پاکستان امریکہ جوائنٹ ور کنگ گروپ آن کاؤ نٹر ٹیرر ازم اینڈ لاء انفورسمنٹ‘‘نے تشکیل دیا تھا۔اس ادارے کاپاکستان پر وسیع اور گہرا اثر ہے۔اس ادارے کو چلانے میں امریکی دفتر خارجہ،امریکی دفتر عد ل  اور امریکی ایف بی آئی سب حصہ لیتے ہیں۔    نیشنل ایکشن پلان اور دیگر اسالیب کے ذریعے امریکہ پاکستان کے مسلمانوں کی اسلام سے گہری وابستگی کا خاتمہ چاہتا ہے لہذا اس پلان کے بعد انتہائی شدت کے ساتھ جہاد کو دہشت گردی اور اسلامی افکار اور جذبات کو نفرت انگیز تقاریر،نفرت انگیز مواد،انتہا پسندی اور اسلام ازم کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی ،مولانا تقی عثمانی اور مولانا یو سف لد ھیانوی جیسے اکابرین کی متعدد کتا بوں پر پا بندی لگا دی گئی۔ اسلامی مدارس کو مالی امداد سے محروم کیا گیا۔لاؤ ڈاسپیکر ایکٹ کے تحت ہزاروں علماء کرام کو ہراساں اور گرفتار کیا گیا۔یہی نہیں بلکہ جدید تعلیمی اداروں کراچی یونیورسٹی،پنجاب یونیورسٹی،این،ای،ڈی یونیورسٹی،نسٹ اور لمس جیسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنیوالے طلبا اور پروفیسرز اور لیکچرارز کو بھی اسلام کی اشاعت،تبلیغ اور ایسے ہی دوسرے الزامات لگاکر اٹھا لیا گیا۔اس پر ہی بس نہیں کیا گیا تبلیغی جماعت کے پنجا ب یو نیورسٹی کی حدود میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
نیشنل ایکشن پلان کو دو برس ہو نے کو آرہے ہیں۔آج اس کی ناکامی کے چرچے چارسوہیں۔نہ ملک سے بد امنی کا خاتمہ ہوسکا اور نہ ہی دشت گردی کی بڑی وارداتوں کی روک تھام کی جاسکی۔اس پلان کے بعد جس قدر کوششیں اسلامی قوتوں کو کچلنے پر صرف کی گئیں اگر اس کی چوتھائی بھی دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کی جاتیں تو ملک میں بے چینی کی یہ صورتحال نہ ہوتی۔ دہشت گردی کی ہر نئی واردات کے بعدنت نئے قوانین کے ذریعے عوام کے گرد شکنجہ سخت سے سخت کیا جا رہا ہے ۔ اسلا م کے حوالے سے نو بت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اسلام کی ہر آوازکو دبایا جارہا ہے حتی کہ مولانا طارق جمیل جیسی محترم ہستی جوحکمرا نوں کا احتساب نہیں کرتے،اسٹبلشمنٹ کے فیصلوں میں دخل دینا تو کجاان پر تبصرے سے بھی گریز کرتے ہیں،حکومت،طاقت اور دولت کے مراکز کی بد عنوانیوں اور کرپشن کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش نہیں کرتے،صرف اور صرف اسلام کی بات کرتے ہیں آج اسلام کی اس شمع کی روشنی بھی بر داشت کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔اس قسم کے فیصلوں سے حکمرانوں کو کیا حا صل ہوگاسوائے یہ ثابت کرنے کے کہ چمگادڑیں روشنی برداشت نہیں کرسکتیں اور وہ بھی اسلام کی روشنی،بزبان مولانا طارق جمیل !!!! یہ تم کس آواز پر پابندی لگا رہے ہو۔  

٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
مزید پڑھیں

Tuesday, October 20, 2015

اللہ امریکہ کی حفاظت کرے


4 اکتوبر 2015، امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے میں منعقدہ کنونشن میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی جوناتھن کارپینٹر نے کہا: ’’پاکستان کی حکومت، اسکے تمام سول فوجی اور انٹیلی جنس ادارے اس وقت اپنی سرحدوں میں انتہاپسندی کے خلاف بھرپور جنگ لڑرہے ہیں۔ وہاں (شمالی وزیرستان) میں مسلسل جاری جنگ کراچی اور دیگر مقامات پر ہونے والی کوششیں جن کا مقصد عسکریت پسندی کا خاتمہ ہے پاکستان کی بقاء کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ہم اپنی حد تک مدد فراہم کرتے رہیں گے۔ جہاں بھی ہم کرسکتے ہیں اور اس کی سرحدوں میں موجود تمام عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے ہم پاکستان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔‘‘ اسکے علاوہ جوناتھن کارپنٹر نے یہ بھی کہا کہ ’’وہ موضوعات جو دونوں ممالک کے لیے اہم ہیں ان پر توجہ مرکوز کی گئی۔ جن میں ناقابل یقین حد تک اہم امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ہے اور پاکستان کے ساتھ معاملات میں تعاون نے امریکہ کو محفوظ بنادیا ہے۔‘‘
جوناتھن کارپنٹربرائے افغانستان اور پاکستان معاون نمائندہ خصوصی ہے۔ گزشتہ مہینے 14 ستمبر 2015 انہوں نے کہا تھا۔ قومی ایکشن پلان کی حکمت عملی پر عملدرآمد اور پیش رفت سے امریکہ کو ناصرف دلچسپی ہے بلکہ امریکہ اسکے لیے پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران کولیشن سپورٹ فنڈ کی ادائیگیاں جاری ہیں۔‘‘
سوال یہ ہے کہ شمالی وزیرستان تا کراچی آپریشن پاکستان اپنی بقاء کے لیے لڑرہا ہے یہ پاکستان کی اپنی جنگ ہے تو امریکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی صورت میں اس جنگ کے اخراجات کی ادائیگی کیوں کررہاہے؟ یہ رقم کبھی روک لی جاتی ہے۔ اب اس میں تخفیف کے اشارے دیے جارہے ہیں۔ امریکہ کے ٹیکس دہندگان پاکستان میں قیام امن اور اس کی حفاظت کے لیے ٹکس ادا نہیں کرتے پھر کیوں حکومت امریکہ اپنے عوام کے خون پسینے کی کمائی پاکستان کے دفاع پر خرچ کررہی ہے۔یہ رقوم امریکی کانگریس کی اجازت سے جاری ہوتی ہیں۔ امریکن سیکرٹری خارجہ کو سرٹیفکٹ جاری کرنا پڑتا ہے کہ وہ عسکریت پسند جو امریکہ کے دشمن ہیں امریکہ کے خلاف لڑرہے ہیں پاکستان ان کے خلاف بھرپور جنگ کررہاہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس آپریشن نے امریکہ کو کس طرح محفوظ بنادیا ہے؟ اس آپریشن کا امریکہ کی سلامتی سے کیا لینا دینا ہے؟
شمالی وزیرستان تا کراچی آپریشن ضرب عضب کا آغاز جون 2014 سے کیا گیا۔ 8 جون 2014 کو کراچی میں جناح انٹرنیشنل آیئرپورٹ پر دس دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ کل اکتیس افراد بشمول دس دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی اور اسے اپنے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کے قتل کا بدلہ قرار دیا جو ایک امریکی ڈرون حملے میں نومبر 2013 کو شمالی وزیرستان میں مارا گیا۔ 15 جون 2014کو افواج پاکستان نے شمالی وزیرستان میں عسکری کاروائی شروع کی۔ چند دن بعد امریکہ نے نہ صرف کولیشن سپورٹ فنڈ کی رکی ہوئی رقم جاری کردی بلکہ تاحال اس مد میں پاکستان کو ادائیگی کررہاہے۔
آپریشن ضرب عضب کی ابتداء سے ہی اس آپریشن کو امریکہ کی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ خطے میں امریکہ کی باقاعدہ آمد افغانستان پر حملے سے ہوئی۔ اس جنگ پر دس کھرب ڈالر کی لاگت آئی۔ یہ تاریخ کی طویل ترین جنگ بن گئی۔ جنگ کا آغاز طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ان کے روپوش القاعدہ مہمانوں کے تعاقب سے ہوا۔ اس جنگ میں امریکہ کو پاکستان، ایران، بھارت اور کچھ وسطی ایشیاء کے ممالک کی مدد اور حمایت حاصل تھی۔ ان ممالک میں پاکستان کا کردار سب سے زیادہ اہم تھا اور ہے۔ افغانستان پر قابض امریکی افواج کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت اور جہاد پشتون قبائل نے کیا۔ حتی کہ یہ امریکہ اور پشتون مزاحمت کاروں کے مابین جنگ کی صورت اختیار کرگئی جو پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں لڑی گئی۔ پشتون قبائل پاک افغان سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف بستے ہیں اس طرح کہ اگر ایک خاندان میں دس افراد ہیں تو کچھ ڈیورنڈ لائن کے اس طرف اور کچھ اس طرف۔ یوں جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کے قبائلی علاقوں سے افغانستان کے پشتون قبائل کو امداد اور دراندازی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یوں یہ صرف افغان جنگ نہیں بلکہ یہ افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کی مشترکہ جنگ تھی جو وہ افغانستان پر امریکی قبضہ کے خلاف لڑرہے تھے۔
امریکہ نے حکمت عملی یہ اختیار کی کہ اس جنگ کو ایک جنگ نہیں بلکہ دو الگ الگ جنگیں قرار دیا۔ ایک جنگ پشتون قبائل کے خلاف امریکہ نے افغانستان میں خود لڑی۔ لیکن پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پشتون قبائل کے خلاف جنگ امریکہ نے بذات خود نہیں لڑی بلکہ پرویز مشرف اور بعد میں آنے والی پاکستان حکومتوں پر زور دیا کہ دوسری جنگ امریکہ کی حمایت میں پاکستان ان پشتون قبائل کے خلاف لڑے جو پاکستان کی حدود میں واقع ہیں۔
اب سوال یہ تھا کہ پاکستان کس جواز کے تحت ان قبائل کے خلاف جنگ لڑے کیونکہ یہ قبائل پاکستان کے محب وطن تھے اور ریاست پاکستان کو ان سے کبھی نقصان نہیں پہنچا۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کی عوام اس جنگ میں امریکہ کے زبردست مخالف تھے۔ امریکی منصوبے کا انحصار اس بات پر تھا کہ پاکستانی فوج ڈیورنڈ لائن کے اس طرف پشتون قبائل کے خلاف برسر پیکار ہو۔ پاکستانی افواج کے لیے ایسا کرنا اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک کہ اس قدم کو پاکستان کے عوام کی تائید حاصل نہ ہو اور ان کے دل میں افغان مجاہدین یعنی طالبان سے بدگمانی اور نفرت پیدا نہ ہو۔
اس مقصد کے حصول کے لیے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں قبائل کے کمزور نیٹ ورکس میں داخل ہوئیں۔ انہوں نے ان قبائل میں موجود ناسمجھ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حربوں سے ناواقف لوگوں کو بھڑکایا اور ان کا رخ قابض امریکی افواج کے بجائے پاکستان کے مسلمانوں کی طرف موڑ دیا۔ دوئم تحریک طالبان پاکستان جیسی امریکن پلانٹڈ تنظیموں کو آگے لایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا جیسے یہ افغان طالبان ہی کا کوئی حصہ ہے جو پاکستان کے عوام کو برباد کرنے اور ان سے انتقام لینے پر تلا ہوا ہے۔ سوئم امریکن انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پرئیویٹ ملٹری بلیک واٹر، زی، ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک اور نہ جانے کون کون سی ایجنسیاں اور ان کے کارندے پاکستان بھر میں دھماکے خودکش حملے اور فرقہ ورانہ فساد کرانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ ان وحشیانہ حملوں کا الزام تحریک طالبان پاکستان قبول کرتی رہی۔ اس طرح کے حملے امریکی ایجنسیوں کا معروف اور مخصوص طریقہ کار ہے جو وہ ساری دنیا میں اختیار کرتی ہیں۔ ان حملوں کی افادیت اور امریکی مقاصد سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیابی پر روشنی ڈالتے ہوئے یکم دسمبر 2009ء کو امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہا تھا: ’’ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد ان کی جنگ نہیں ہے۔ لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے تو یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ پاکستان کے لوگ ہیں جو انتہا پسندی کے ہاتھوں سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔‘‘
 برسوں سے امریکی پاکستان میں فساد کی آگ کو ہلکے ہلکے سلگائے رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ اس فساد اور دہشت گردی کو دور کرنے کی آڑ میں امریکہ اور پشتون قبائل کے درمیان افغان جنگ کی کوکھ سے پاک فوج اور پشتون قبائل کے درمیان ایک نئی جنگ کے آثار اور جواز مہیا کیے گئے۔ جس کا مقصد افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں تعینات کرنا اور اس کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقوں سے افغانستان کے پشتون قبائل کو ملنے والی امداد اور مجاہدین کی آمدورفت کو کنٹرول کرنا تھا۔ یوں ایک افغان جنگ کو دو الگ الگ جنگوں میں تبدی ل کرنے میں امریکہ کامیاب ہوا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں نعر ہ گونجا تھا ’’اللہ امریکہ کی حفاظت کرے‘‘۔ افغان محاذ جنگ پر یہ اسی نعرے کی سمت پیش رفت تھی۔
(جاری ہے)
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
مزید پڑھیں

Friday, July 24, 2015

وہی دنیا وہی اس کے سوالات


وزیراعظم نوازشریف کے باب میں نپولین کے قول کو قدر ے تصرف کے ساتھ اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ: ’’دیگر صفات کے علاوہ حکمرانوں کو خوش نصیب بھی ہونا چاہئے‘‘۔ اسلام آباد میں دھرنوں کے ڈرامے کے آغاز میں نوازشریف حکومت کس قدر سراسیمگی اور بد حواسی کا شکار تھی لیکن یہ قسمت کی دیوی کی کرم نوازی ہے کہ وہ آج بھی ان کا پہلو گرما رہی ہے۔ دھرنے ٹرپل ون بریگیڈ کا ہراول دستہ بنے اور نہ جمہوریت کی دیوی کی عزت پامال کرسکے اور اب جوڈیشل کمیشن نے بھی ان کی حکومت کو جائز قرار دے دیا ہے اور فیصلہ دیا ہے کہ مئی 2013ء کے انتخابات میں بدنظمی اور بد انتظامی تو ہوئی ہے لیکن منظم دھانددلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ عدالتی کمیشن نے عمران خان کے تمام الزامات مسترد کردیے۔
وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب میں عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو عوامی مینڈیٹ کی توثیق قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف سے پوچھا جاسکتا ہے: ’’کون سے نئے دور میں؟‘‘ کیا اس فیصلے کے بعد حکمران طبقے کا لوٹ مار کرنے قومی دولت سمیٹنے بیرون ملک کاروبار کرنے اور جائیدادیں بنانے کا طرز حکومت تبدیل ہوجائے گا۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 129 ممالک میں سے پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جہاں بھوک حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے اور تقریباً پانچ کروڑ افراد کو دو وقت روٹی میسر نہیں کیا اس فیصلے کے بعد ان افراد کو روٹی ملنا شروع ہوجائے گی۔ کون ہے جو ان سوالوں کا جواب اثبات میں دے سکتا ہے؟ یہ المیہ صرف نواز حکومت تک محدود نہیں ہے گزشتہ ادوار حکومت میں بھی صورتحال یہی تھی اور اگر یہ نظام رہا تو آئندہ بھی یہی ہوگی۔ المیہ در المیہ یہ ہے کہ پاکستان تک محدود نہیں عالمی سطح پر بھی جمہوری طرز حکومت اچھی حکمرانی دینے میں ناکام رہا ہے۔ جس کے بعد دنیا بھر میں یہ بحث شدت اختیار کرتی جارہی ہے کہ اس پیچیدہ اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں حکمرانی کے چیلنج پر کیسے پورا اترا جائے۔ اچھی حکمرانی یا گڈگورننس عمومی بات نہیں ہے بلکہ مربوط عوامل کا نتیجہ ہے۔ جس کے لیے ایک درست حکمت عملی اور نئے نظام کی ضرورت ہے۔ سوشل ازم، سرمایہ داریت اور اس سے وابستہ جمہوریت انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس نظام کے تحت فلاحی ریاست کا تصور دم توڑ رہاہے۔ دنیا بھر میں ریاستیں اپنے عوام سے سہولتیں واپس لے رہی ہیں۔ دعوے کچھ بھی کیے جائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں اکثر ممالک میں فلاحی ریاست اور جمہوری آزادیاں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسا عمل سمجھی جارہی ہیں۔ حکومتیں بتدریج جمہوریت کے اصولوں سے انحراف میں ہی ریاست کی بقاء محسوس کررہی ہیں۔ انسان کی آئندہ سرنوشت میں جمہوری انداز حکومت اور نظام انسانیت پر ایک تباہ کن ضرب لگانے کے سوا کوئی اور کردار ادا کرتانہیں آتا۔
کئی صدیوں سے مغرب سیاسی نظام کا سرچشمہ ہے۔ سولہویں صدی کو ہم مغرب اور ایک لحاظ سے تاریخ انسانی کے نئے دور کا آغاز سمجھیں تو آج چار صدیاں گزرنے کے بعد اس نظام کی خستگی اور داخلی کمزوری کے آثار واضح ہیں۔ سیاسی نظام قابل حکومتیں فراہم نہیں کررہا۔ نااہل حکمران بجٹ خسارہ اور نفس پرستی قانون سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہر جگہ جمہوریت غیر حقیقت پسندانہ عوامی توقعات میں اضافہ کررہی ہے۔ جس سے پیدا شدہ متناقص مطالبات ریاست اور حکومت کو افراتفری کا شکار کررہے ہیں۔ حکومتیں دیرپا منصوبہ بندی کے بغیر بے قاعدگی اور محض الیکشن میں کامیابی کی بنیاد پر چلائی جارہی ہیں۔ بیشتر جمہوری ممالک میں سیاسی رہنما عوامی مطالبات کو نظام پر گنجائش سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جائز ناجائز طریقے سے اپنے مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کو حکومت سے ناراض کرتے چلے جاتے ہیں جس سے حکومتیں جمود اور تعطل کا شکار ہوجاتی ہیں جیسا کہ اسلام آباد میں دھرنے کے دنوں میں نظر آیا۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد تمام حلقوں کی جانب سے انتخابی اصلاحات کی ضروت پر زور دیا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے تاکہ آئندہ صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جاسکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے بعد غربت کے اندھیرے ختم ہوجائیں گے؟ پاکستان کے عوام کی اکثریت کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ جواب ہے نہیں۔ جس کی مثال بھارت ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے گزشتہ 67 برس سے وہاں ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ صاف اور شفاف انتخابات ہورہے ہیں۔ لیکن نتیجہ! بھارت دنیا کی سب سے بڑی غربت ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جمہوریت کا فیضان ہے کہ بھارت کے زرمبادلہ کے زخائر ساڑھے تین سو ارب ڈالر کو چھورہے ہیں۔ پہلی مرتبہ بھارت کی شرح نمو چین کومات کررہی ہے۔ لیکن یہ شرمناک حقیقت ہے کہ یہ ترقی بھارت کے لوگوں کی عظیم اکثریت کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں کرسکی۔ بھارت کی آبادی ایک بڑا حصہ اس ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہوسکاہے۔ دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر لیٹرین بھارت کے ریلوے ٹریک ہیں۔ ہندوستان کے تقریباً چالیس کروڑ شہریوں کو ٹائلٹ کی سہولت دستیاب نہیں۔ ایک تہائی کو حاجات ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے تخلیہ میسر نہیں۔ وہ کھلے عام رفع حاجت پر مجبور ہیں۔ ایک ارب بیس کروڑ کی ہندستا ن کی آبادی میں تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ غربت کی سطح سے بھی نیچے غرق ہیں۔ ہرسال دنیا میں آٹھ لاکھ لوگ خودکشیاں کرتے ہیں جن میں سے 17 فیصد یعنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد غربت اور قرضوں کی دلدل سے نکلنے میں ناکامی پر بھارت میں خودکشیاں کرتے ہیں۔ عصمت فروشی وہاں وبائی صورت اختیار کرچکی ہے۔
دنیا بھر کے جمہوری تجربوں نے ثابت کردیا ہے کہ اس نظام میں عوام کے مسائل کا حل کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کرپشن اور قومی دولت لوٹتے حکمرانوں کا حقیقی احتساب ممکن نہیں۔ پاکستان کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ حکمران جب چاہتے ہیں قومی خزانہ لوٹنے کے بعد قانون میں ترامیم کرکے اپنے آپ کو قانونی تحفظ دے دیتے ہیں۔ NROجس کی ایک مثال ہے۔ جمہوریت میں قانون سازی کا اختیار چونکہ انسانوں کے ہاتھ میں ہے اس لیے وہ اکثریت کی بنیاد جو قانون چاہیں منظور کرسکتے ہیں۔ جمہوری نطام میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کے خوف کی وجہ سے حکمرانوں کی توجہ عوام کے مسائل کے حل کے بجائے اراکین اسمبلی کی اکثریت کو خوش رکھنے پر مرکوز رہتی ہے۔ یہ جمہوریت ہی ہے جس میں بڑے صوبے کے عوام اور ان کے مسائل اہم جبکہ چھوٹے صوبے کے لوگ بے وقعت ہیں۔ جمہوریت کے بنیادی اصول کرپشن کو کس طرح فروغ دیتے ہیں پاکستان اس کا ایک مظہر ہے۔
دوسال قبل برٹش کونسل کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت پاکستان میں شریعت کا نفاذ چاہتی ہے حکومتی سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کا شکار پاکستانی عوام کے ساتھ پچھلے آٹھ برسوں میں جمہویت نے جو کچھ کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مسلمان یہ سمجھتے ہیں ان کی ضرورتوں کو کوئی اور نظام اور تہذیب پوری نہیں کرسکتی سوائے اسلام کے۔ جہاں تک عدالتی کمیشن کے فیصلے کا تعلق ہے تو یہ فیصلہ مسلم لیگ ن کی سرخوشی کا باعث ہے یا عمران خان کی ساکھ کے زیاں کا جو نوازشریف کے سرمایہ دارانہ نظام کو عمران خان کے سرمایہ دارانہ نظام سے تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ عوام کے خوشی و غم اور روز و شب کا اس فیصلے سے کوئی نہیں۔ ان کے لیے سب کچھ ویسا ہی ہے۔۔۔
وہی بپھرا ہوا بکھرا ہوا دن
وہی سہمی ہوئی سمٹی ہوئی رات
وطن بدلا مگر بدلے نہ حالات
وہی دنیا وہی اس کے سوالات
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
babaalif@hotmail.com
مزید پڑھیں

Thursday, July 23, 2015

جس کا نہ ہو کوئی ہدف


الطاف حسین اب ایک بیزار کردینے والا تماشہ ہے جسے دیکھتے دیکھتے آنکھیں تھک گئی ہیں۔ ان کی سیاست تشدد کے پاگل پن میں مبتلا ہوکر بالآخر اس بے معنویت کے رحم وکرم پر ہے جس سے بھوک ہڑتال جیسے ڈرامے جنم لیتے ہیں۔ جنہیں یہ شک ہے کہ ’’اس نے بنایا ہی نہیں روزِ مکافات‘‘ وہ الطاف حسین کو دیکھ لیں۔ دنیا میں ہی حسابِ جزا اور سزا پر یقین آجائے گا۔
اب کوئی اس میں کیا دلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کری
الطاف حسین خود اپنے ہاتھوں رسوا ہیں۔ جذبات و احساسات، عقل اور اثر پذیری، ان تینوں محرکات کے تحت ان کے زیادہ تر افعال تشدد کے تابع رہے ہیں۔ جن لوگوں میں خود کوئی صلاحیت یا قابلیت نہیں ہوتی۔ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے وہ ایسی بات کرتے ہیں جو ثابت شدہ حقائق اور مسلمہ روش کے منافی ہو۔ دنیا کی سب سے بڑی صداقت محبت ہے۔ ہر اصلاح کرنے والے ریفارمر اور لیڈر نے لوگوں کو محبت کا درس دیا ہے۔ لیکن الطاف حسین نے اپنی ابتدائی تقاریر ہی نفرت کی بنیاد پر استوار کیں۔ ان کی وہ مشہور تقاریر جن میں انہوں نے اپنی برادری کو ٹیلی ویژن سیٹ بیچنے اور اسلحہ خریدنے کا مشورہ دیا محض توجہ حاصل کرنے کے لیے نہیں تھیں جیسا کہ سمجھا گیا بلکہ وہ ان کے طرز فکر اور خیالات کی ترجمان تھیں۔ جنہوں نے مختلف قومیتوں سے نفرت اور لسانی اور قومی عصبیت کا وہ شیطانی چکر سندھ کے شہروں خصوصاً کراچی پر مسلط کیا کہ شہر نفرت اور دہشت گردی کی آگ میں جل اٹھا۔ مزید ستم یہ رہا کہ ان کی ذات میں مذہب کی غیر موجودگی کا عنصر بھی بہت قوی ہے۔ یوں وہ حق و باطل اور خیر وشر میں تفریق کے قابل نہ رہے اور اپنی جبلتوں کے اسیر ہوتے چلے گئے۔ وہ جبلت جس کا خمیر نفرت اور تشدد ہے۔ ان کی جماعت تشدد، ظلم، دہشت گردی، قتل اور خونریزی کی مرتکب ہوکر ہر ضابطہ اور قانون سے محروم ہوتی چلی گئی اور بالآخر خدا کی گرفت میں آگئی۔ جس سے بچنے کے لیے وہ بھوک ہڑتال جیسے حربے آزما رہے ہیں۔
کون تصور کرسکتا تھا کہ عمران فاروق قتل کیس یوں انہیں شکار کرے گا۔ لندن پولیس کبھی الطاف حسین کی سرگرمیوں پر توجہ نہ دیتی اگر عمران فاروق کا قتل نہ ہوا ہوتا۔ الطاف حسین کے گھر پرچھاپہ، بھاری رقم کی برآمدگی، منی لانڈرنگ، قتل میں ملوث دو افراد کی کولمبو سے کراچی آمد اور پھر خفیہ اطلاع پر کراچی میں گرفتاری۔ واقعات کا وہ سلسلہ ہے جو عمران فاروق کے قتل کے بعد رونما ہوا۔ سب کچھ سراسر غیر متوقع۔ یقین آجاتاہے ’’کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلارہاہے‘‘۔ واقعات کا یہ سلسلہ صرف لندن تک محدود نہ رہا۔ کراچی میں بھی ان کی جماعت اس کی زد میں آگئی۔ وہ نائن زیرو جہاں روشنی کی کرن بھی بلااجازت داخل نہ ہوسکتی تھی، جہاں ہر دیوار ہر کمرے کے پیچھے بلاؤں کے ڈیرے، طفیلیوں اور سانپوں کے مسکن تھے، بھیڑیوں کی قطاروں کے سوا کوئی زندہ گواہی نہ تھی۔ وہ بھی اُس آپریشن کا ہدف بن گیا اور پے درپے چھاپوں کی زد پر آگیا جس کی تائید اور حمایت خود الطاف حسین نے کی تھی۔ وہ رابطہ کمیٹی جس کے ارکان پر جوتے پڑنے کی آواز الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر ٹیلیفون پر سماعت کرتے تھے اور اس کے باوجود وہ رابطہ کمیٹی الطاف حسین سے بدظن نہ ہوتی تھی اور ان کے سامنے ہاتھ باندھے گھگیاتی رہتی تھی، کس کے حاشیہ خیال میں تھا کہ الطاف حسین سے اس درجہ بیزار ہوجائے گی جیسا کہ وہ بیوی جس سے اس کے شوہر نے پوچھا کہ ’’تم مجھ سے کتنی محبت کرتی ہو؟‘‘ بیوی بولی ’’بہت‘‘ شوہر نے کہا ’’پھر بھی کتنی؟‘‘ بیوی بولی ’’اگر آپ پلنگ پر لیٹے ہوں تو میں کرسی پر بیٹھی ہوں اور اگر آپ کرسی پر بیٹھے ہوں تو میں زمین پر بیٹھوں گی‘‘ شوہر نے کہا ’’اگر میں زمین پر بیٹھ جاؤں؟‘‘ بیوی بولی ’’تو میں زمین کھود کر اس میں بیٹھ جاؤں گی‘‘ شوہر نے پوچھا ’’ اگر میں زمین کھود کر بیٹھ جاؤں تو ؟‘‘ یہاں تک پہنچتے پہنچتے اطاعت شعار بیوی بیزار ہوگئی، بولی ’’میں اوپر سے مٹی ڈال دوں گی‘‘۔ رابطہ کمیٹی بھی الطاف حسین کی حرکتوں سے ایک عرصے سے اندر اور باہر کچھ ایسے ہی بیزاری کی کیفیت میں تھی کہ الطاف حسین کے مرن برت کے اعلان پر وہ سرگرمی نہ دکھا سکی جس کی الطاف حسین توقع کررہے تھے۔ حساس اداروں سے رابطوں کی بھی اطلاعات تھیں۔ لہذا اس سے پہلے کہ رابطہ کمیٹی مٹی ڈالتی۔ الطاف حسین نے خلفشارمیں مبتلا ہوکر رابطہ کمیٹی توڑنے اور نائن زیرو بند کرنے کا اعلان کردیا۔ لیکن پھر چند گھنٹوں بعد اس طرح تائب ہوگئے جیسے جوش صاحب توبہ سے۔
توبہ کی، پھر توبہ کی، ہر بار توبہ توڑدی
میری ا س توبہ پہ توبہ ، توبہ توبہ کر اٹھی
امید تو نہیں کہ معاملہ بھوک ہڑتال تک پہنچے گا لیکن الطاف حسین بھوک ہڑتال کا اعلان کرکے اپنے اور اپنی جماعت کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں۔ اگر نوبت بھوک ہڑتال تک پہنچ گئی تو ان کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے کیونکہ کھانے پینے کا مکمل ناغہ کرکے کوئی انسان دس دن سے زیادہ اور صرف جوس وغیرہ پر انحصار کرکے پینتیس دن سے زیادہ ہوش و حواس میں نہیں رہ سکتا۔ اس کے بعد جسم کا اندرونی نظام خطرناک حد تک بگڑنے لگتا ہے۔ دماغ خاص طور پر متاثر ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے جسم میں بہت زیادہ چربی ہو جیسا کہ الطاف حسین یہ صورتحال ان کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ الطاف حسین کے باب میں دماغ کا تو مسئلہ نہیں البتہ چربی کا زیاں مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ یہ جو الطاف حسین کسی کو کچھ نہیں گردانتے یہ ان کے جثے کا اور جثے میں چربی کا کمال ہے۔ جہاں تک پارٹی کا تعلق ہے تو بھوک ہڑتال کے فیصلے کے بعد ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ اور رابطہ کمیٹی بہت زیادہ دباؤ میں ہے۔ جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری میں زیادہ تر ملزمان کا تعلق متحدہ سے ہونے اور بعد میں متحدہ کے ان سے لاتعلقی اختیار کرنے پر ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ افراتفری کا شکار ہے۔ عام کارکنان تو درکنار قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین بھی جماعت سے لاتعلق ہوکر ادھر ادھر ہوگئے ہیں۔ سکیورٹی اور دفاعی اداروں کے خلاف یہ الطاف حسین کی تقاریر کا حسن اعجاز ہے کہ آج ایم کیو ایم پاکستان کی سب سے زیادہ تنہا جماعت ہے۔
ایم کیو ایم کے قیام کے ابتدائی دنوں میں الطاف حسین کارکنان کو نظریاتی درس دیا کرتے تھے۔ جن میں یہ واضح کیا جاتا تھا کہ اگر انہیں زندہ رہنا ہے تو کسی نہ کسی چیز پر عقیدہ ضرور رکھنا ہوگا۔ ایم کیو ایم سے وابستگی اور کراچی میں رہنے کی صورت میں یہ عقیدہ الطاف حسین ہے۔ ورلڈ مہاجر کانفرنس کا مقصد بھی دنیا بھر سے اردو بولنے والوں کو نہیں بلکہ عقیدہ الطاف حسین کی تائید کرنے والوں کو جمع کرنا ہے۔ اب چونکہ الطاف حسین اور ان کی مددگار بھارتی خفیہ ایجنسی را یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اردو بولنے والوں پر بے پناہ تشدد کیا جارہاہے تو ورلڈ مہاجر کانفرنس کے شرکاء کو بھی اس خیال کی تائید کرنا ہوگی۔ تائید نہ کرنے والوں کو جون ایلیا کا حشر یادرکھنا چاہئے۔
نائن زیرو سے قمر منصور کی گرفتاری پر الطاف حسین بہت ناراض ہیں۔ گرفتاری کے بعد قمر منصور کو رینجرز کے گھیرے میں ہم نے بھی دیکھا ہے۔ پہلے ایم کیو ایم کے کارکنان گرفتار ہوتے تھے تو تصویروں اور ناموں سے بدمعاش دکھتے تھے۔ اب تو ایسے مسکین اور حرماں نصیب نظرآتے ہیں جیسے کسی بے ضرر کلر ک کو دفتر سے اٹھالائے ہوں۔ الطاف حسین آپریشن کا رخ تبدیل کرنے اور سکیورٹی اداروں کو دباؤ میں لانے کے لیے ہر حربہ آزمارہے ہیں جن میں تازہ تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان ہے۔ لیکن ہر حربہ وہ تیر نیم کش ثابت ہورہاہے جو ہدف سے محروم ہو ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
مزید پڑھیں

Tuesday, July 14, 2015

اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی


 بیسویں رمضان کا آفتاب غروب ہوا تو بہت سے لوگوں نے خود کو تنہا گوشوں اور تجلی کے گھیروں میں معتکف کرلیا۔ اعتکاف کیا ہے۔ ذات باری تعالی کی قدر و منزلت سے آگاہ ہونے اور حمد کا تبسم روح پر آویزاں کرنے کی مراد، شب و روز کے سفر میں تزکیہ نفس اور خدا کی حضوری، مسلمانوں کے دین اور تہذیب کا مظہر۔ خیال یار جنہیں آخرشب بے خواب رکھتا ہے انہیں علم ہے تنہائی میں آنسوؤں کے تار کیسے بندھتے ہیں، چشم نم اور سوز دل کیسے اشکبارہوتے ہیں، گناہوں کا احساس کیسے ندامت میں ڈھلتا ہے۔ اور وہ جو ہم سے قریب اور بہت قریب ہے کیسے قلب و روح کے منظر بدلتا ہے اور بندہ بصد نیاز اس کے کرم کو صدا دیتاہے ’’اے وہ بہترین ذات جس کو پکارا جائے اور جو قبولیت سے ہمکنار کرے بدترین گناہوں کی معافی کی امید کے ساتھ میں حاضر ہوں۔ اپنی رحمت عطا فرمائیے‘‘۔ اعتکاف روز و شب کی وہ برگزیدہ ساعتیں ہیں جب بندہ سب کچھ چھوڑکر خود کو وحی کی رم جھم اور مالک عرش بریں کے سپرد کردیتا ہے اور امید رکھتا ہے:
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت الہی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے۔
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں‘‘
بندہ عبادت کے قافلہ نور میں شامل ہوتا ہے تو ایک ایسی ذات کا احساس دل میں بیدار ہوتا ہے جس کی قدرت بے کنار اور رحمت بے حساب ہے۔ تب مردہ قلوب زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس مردہ کھیتی کی طرح جو سرسبز ہوجائے۔ انسان اس قائم و دائم کے آگے سربہ سجود ہوتا ہے تو وہ رب کریم دل بینا عطا کرتا ہے۔ باب ہدایت وا ہوجاتے ہیں۔ قرآن کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ صاحب تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی فرمایا کرتے تھے ’’قرآن بہار ہے اور رمضان موسم بہار‘‘۔ اس موسم بہار میں اللہ کی رحمت ساری دنیا کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ اس ذات گرامی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے جو سب میں عالی مقام ہیں جن کی درسگاہ کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ اہل حرب و سیاست کے لیے بھی اور علم کے پیاسوں کے لیے بھی۔ یہاں سے اہل علم کا ایک ایسا نورانی سلسلہ آغاز ہوتا ہے کہ خلفاء راشدین سے لے کر آئندہ تین صدیوں تک کی عبقری شخصیات کے اسم مبارکہ کا شمار بھی ممکن نہیں۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاشرے میں ہر سو علم کے آفتاب روشن کیے جو لکھنے پڑھنے کے تصور سے بھی ناآشنا تھا۔ ہر طرف جہل کے اندھیرے سماج کی وسعتوں کا احاطہ کیے ہوئے تھے۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وہ روشن جماعت جو تاابد کفر و گمراہی کے مقابل کھڑی ہے اس میں نوجوان بھی تھے اور عمر رسیدہ اور ضعیف بھی لیکن کوئی ایسا نہ تھا جو لکھنے پڑھنے سے واقف نہ ہو۔ دوسری طرف عہد حاضر میں تمام تر تحقیقات جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کے باوجود لوگوں کی  کتنی تعداد ہے جو خواندہ ہے۔ صحابہ کرام کی عظیم تعداد محض خواندہ نہیں تھی بلکہ وہ ایمان اور عرفان سے آراستہ بلند پایہ علمی شخصیات تھیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ پہلے مدینے میں بکریاں چرایا کرتے تھے لیکن بعد میں ان کی بدولت کوفہ علم کا مرکز بن گیا۔ مدینے کے کاشتکار اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے قرآن کریم کی سات یا دس قرآتوں کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے۔
عالی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و حدیث کی تعلیم کا آغاز ایک ایسے چبوترے سے کیا تھا جس کے اوپر چھت بھی نہیں تھی۔ کھانے کا انتظام بس اس قدر کہ لوگ کھجور کے خوشے ایک جگہ آویزاں کردیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام بقدر ضرورت چند کھجوریں تناول فرماکر بقیہ دوسرے کے لیے رہنے دیا کرتے تھے۔ ایک اجڈ معاشرے میں قائم اس درسگاہ سے نابغہ روزگار علماء کرام کی ایسی جماعت تیار ہوئی جو تاابد اطراف عالم میں روشنی پھیلاتی رہے گی۔ رضی اللہ عنہم و رضو عنہ۔ جب تک نسیم سحر چلتی اور شاخیں جھومتی رہیں گی اللہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام ہو۔ آپ دنیا سے کوچ فرماگئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے نظام کی بنیاد پر ہزاروں درسگاہیں قائم ہوئیں جہاں ہزاروں لاکھوں اہل علم تیار ہوئے سینکڑوں ریاستیں وجود میں آئیں بہت سے تہذیبیں آغاز ہوئیں۔ ایک مصنف لکھتے ہیں:
’’محمدی درسگاہ وہ واحد درسگاہ تھی جس نے انسانی کمالات اور صلاحیتوں کو اعلی ترین مقام تک پہنچایا۔ جس نے بھی اس درسگاہ کا رخ کیا اسے اپنی قلبی روحانی، عقلی اور دیگر تمام صلاحیتوں کوممکن ترین حد تک ترقی دینے میں کامیابی ہوئی‘‘۔
 جرمن شاعر گوئٹے نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’عالم اسلام میں بڑے بڑے شاعر پیداہوئے لیکن عالم اسلام نے ان میں سے صرف پانچ کو اہمیت دی۔ رومی، حافظ، فردوسی، انوری اور نظامی۔ اور دیگر شعراء کو نظرانداز کردیا۔ حالانکہ ان میں ایسے ایسے ادباء گزرے ہیں کہ میں ان کی باقاعدہ شاگردی کرنے کا خواہشمند ہوں۔‘‘ یہ تمام شعراء خواہ ایرانی ہوں یا عربی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درسگاہ کے شاگرد ہیں کیونکہ انہوں نے آپ کی درسگاہ کے علم ومعانی سے ہی اکتساب نور کیا ہے۔‘‘
دنیا بھر میں دینی مدارس کے قیام کا سلسلہ جس طرح دراز سے دراز ترہے وہ دنیا کی مذہبی اور معاشرتی ضرورت ہے۔ یہ مدارس اعلی عمارتوں میں ہوں یا سادہ سی مساجد میں ان میں قرآن وحدیث کے علوم حاصل کرنے والوں کی درسگاہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے ساتھ ایک نسبت ہے۔ دین ہم تک اس طرح پہنچا ہے کہ منتخب لوگوں نے زانوئے تلمذ طے کرکے ان اساتذہ سے سیکھا جن کی سند رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہے۔ پاکستان میں دینی مدارس کی طلب بے حساب ہے۔ تمام تر کاوٹوں کے باوجود۔ کوئی ایسا معاشرہ جس کی 97 فیصد آبادی مسلمان ہو وہ اپنے دینی تشخص کے بارے میں بے پرواہ نہیں ہوسکتا۔ دینی مدارس پر آج جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان کی حقیقت بس اتنی ہے جیسے پتھر پر پڑی مٹی جسے بارش کی چند چھینٹیں بہا لے جائیں۔ لوگ دینی رجحانات کے حامل ہوں یا آزاد خیال اور لبرل، بڑی تعداد اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے بہرہ مند دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان دینی مدارس کا قیام مسلمانوں کی اس سخاوت کا مظہر ہے جو رسالت مآب کی رحمت کا ایک پہلو ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان سال بھر لیکن ماہ رمضان میں بطور خاص اس سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کے بعد اہل پاکستان خصوصا اہل کراچی سب سے زیادہ سخاوت کرتے ہیں۔ اس سخاوت کا بڑا حصہ یقینا دینی مدارس کو جاتا ہے۔ اس برس اپنی اس سخاوت میں جامعۃ السعید کو بھی شامل رکھیے۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے پی سی ایچ ایس میں تعمیر ہونے والی اس درسگاہ کے شفاف آئینے جیسے حساب کتاب کے ہم خود معترف ہیں۔ اگر آپ رابطہ کرنا چاہیں تو حضرت مفتی سعید احمد صاحب سے 0321-2303445 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ یہ رمضان المبارک کے آخری روز و شب ہیں جو اعتکاف میں اور اپنے دل میں ذکر الہی کے چراغ روشن کیے ہوئے ہیں مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف رمضان میں ہی ہم شوق و اشتیاق کے جذبات سے سرشار نہ ہوں بلکہ پورے سال پوری زندگی یہ جذبات ترو تازہ اور شگفتہ رہیں۔ درودوسلام ہوں سیدکونین صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ خوبیوں کی ابتداء اور انتہا دونوں کو آپ نے گھیر لیا ہے۔ جس طرح چاہتے ہیں سخاوت پر آپ حکمرانی کرتے ہیں۔ آپ کے نور وحی اور مکتب فکر سے فراست اور فیصلے اخذ کرنے والے ہی نجات دہندہ ہیں۔ وہی ہیں جن کے دروازے پر دنیا دست بستہ کھڑی رہتی ہے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
مزید پڑھیں

Wednesday, July 8, 2015

Naked Empire


ہمارا سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ ہم نے دو قومی نظریہ زندہ رکھا ہوا ہے۔ ا س ملک میں دو قومیں بستی ہیں۔ حکمران اشرافیہ اور غربت کی چکی میں پستے ہوئے عوام۔ میگنا کارٹامیں برطانیہ کے امراء نے بادشاہ سے یہ بات منوائی تھی کہ وہ اپنے اقتدار میں طبقہ امراء کو بھی شامل کرے گا۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں بھی خواہ وہ جمہوریت ہو یا آمریت کم نگاہ، بے بصر اور اخلاقی دیوالیے کا شکار طبقہ امراء کی شرکت لازم ہے۔
 جمہوریت کے باب میں ہماری وارفتگی کا حال یہ ہے کہ۔۔۔ تم تھی ہی نہیں ۔۔۔ ہم تھے ہی نہیں۔۔۔ تم ہو ہی نہیں۔۔۔ ہم ہیں ہی نہیں۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت دراصل حکمران طبقے کے لوٹ مار کرنے، قومی دولت سمیٹنے، باہر بھیجنے، بیرون ملک کاروبار کرنے اور جائیدادیں بنانے کا نام ہے۔ عوام کا کام یہ ہے کہ اس ملک کے حاکموں کے لیے برباد ہوتی رہے، بے کل ہوتی رہے۔
اس نے پھولوں پہ مرے نام کا آرام کیا
میں نے کانٹوں پہ کہیں رات گزاری اس کی
لاہور میں وزیراعظم نوازشریف اور خادم اعلی کی سکیورٹی پر براہ راست اور بلاواسطہ دس ہزار سے زیادہ سرکاری ملازم ڈیوٹی دیتے ہیں جنہیں قومی خزانے سے تنخواہ دی جاتی ہے۔ ان کے ٹی اے، ڈی اے، بجلی کے بل، ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے اخراجات، ٹی بریک، برنچ، کھابے، عرب بادشاہوں کے محلوں سے بھی زیادہ قیمتی کرسیاں، صوفے، باتھ رومز میں لگے غیر ملکی سامان، سونے کے شاور، خوشبوئیں، شیمپو، اسکرب اور دوسرے سامان تعیشات پر نظر ڈالیے اور دوسری طرف یہ حقیقت ملاحظہ فرمائیے کہ اس ملک کی نصف آبادی کو خوراک کا تحفظ حاصل نہیں۔ انہیں اس بات کا پتہ نہیں ہوتا کہ آج کھانا کھایا ہے تو کل کچھ کھانے کو موجود ہوگا یا نہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں کے بیس فیصد غریب ترین لوگوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کا اپنی زندگی میں خوشحالی دیکھنے کا چانس محض 1.9 فیصد ہے،یعنی کوئی چانس نہیں۔ یہ دو طبقات دراصل دو ایسی قومیں ہیں جن کا ایک دوسرے کے مرنے جینے، خوشی غم سے کوئی تعلق نہیں۔ تعلق ہے تو بس اتنا کہ حکمرانوں کی دولت میں بے بہا اضافہ عوام کی غربت اور ذلت کے جاری رہے بغیر ممکن نہیں۔
اہل کراچی پر پچھلے دنوں کیسی قیامت گزری۔ گھروں اور اسپتالوں میں ملاکر تین ساڑھے تین ہزار افراد گرمی، لو اور حبس کی نظر ہوگئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اتنی بڑی قیامت گزرجانے پر لوگوں کو کچھ سہولت دی جاتی لیکن ان شریف حکمرانوں اور عوام کی ہمدرد قیادت کے پاس عوام کو دینے کے لیے معاشی اور سماجی بربادی کے اقتصادی پروگراموں کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر بجلی کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے نیپرا نے کراچی کے گھریلو صارفین کے بجلی کے نرخوں میں دو روپے سے لیکر ساڑھے چار روپے فی یونٹ تک اضافہ کردیا۔ اس کا سبب یہ ہے حکومت نے اہل کراچی کو دی گئی سبسڈی یا زرتلافی واپس لے لی ہے۔ وزارت پانی و بجلی کا کہنا ہے کراچی کے بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ کراچی کے بجلی کے نرخوں کو پورے ملک کے برابر کردیا گیا ہے۔
31 قبل مسیح میں Octavian نے ااینتھونی کو شکست دے کر رومن امپائر پر قبضہ کیا۔ اس کے پینتالیس سالہ دور اقتدار میں روم ایک ایسی سلطنت بن گیا جسے مورخین Naked Empire یعنی برہنہ سلطنت کا نام دیا۔ اس دوران ریاستی ادارے جو عوام کی خوشحالی کے لیے قائم کیے گئے تھے عوام کے دشمن بن گئے۔ اس ملک میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ نیپرا ا س کی مثال ہے۔ 1997ء میں نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ بجلی کے عام صارفین کے مفادات کا تحفظ کیا جائے لیکن نیپرا عام صارفین کے بجائے نجی اداروں  کے مفادات کا محافظ بن گیا۔ نوبل انعام یافتہ اقتصادی ماہر جارج سٹنگلر ا س ظلم کو ’’ادارہ جاتی حاکمیت - Regulatory Capture‘‘ قراردیتے ہیں۔ جس میں ادارے اپنے قیام کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں رہتے بلکہ طاقتور افراد اور مراعات یافتہ طبقے کے محافظ بن جاتے ہیں۔ نیپرا کے اولین فرائض میں یہ شامل تھا کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت کا تعین کچھ اس طرح کیا جائے گا کہ پیداواری نجی کمپنیوں کا منافع 18فیصد سے تجاوز نہ کرے۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج میں گزشتہ سال 24 کمپنیاں رجسٹرڈ تھیں۔ ان کمپنیوں کا حاصل ہونے والا منافع 42 فیصد سے زیادہ ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق 50 فیصد۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ نیپرا نے ایک مرتبہ بھی بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کا آڈٹ نہیں کیا۔ نیپرا کی اس بدعنوانی، ظلم اور نجی کمپنیوں کو نوازنے کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ادائیگیوں کے باجود گردش قرضے کا انبار ہر مرتبہ بڑھ جاتا ہے اور دوسری طرف عام صارفین کی جیبوں پر اس طرح ڈاکہ ڈالا جارہا ہے کہ بجلی کے بل دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ بجائے اس کے کہ نیپرا بجلی کی کمپنیوں کے منافع کو 18 فیصد کی سطح پر لاتا اہل کراچی کے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا۔ یہ ظلم اور نا انصافی کی انتہا ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ عام صارفین کے مفادات کا تحفظ کرے لیکن حکومت بیس کروڑ عوام کے مفادات کے بجائے بجلی کمپنیوں کی محافظ بن گئی ہے۔
جہاں تک حکومت کے سبسڈی یا اہل کراچی کو دی گئی سہولت واپس لینے کا تعلق ہے تو نوازشریف حکومت پر ہی موقوف نہیں ہے۔ پاکستان میں فوجی آمریت ہو یا جمہوری، ضیاء الحق ہو یا پرویزمشرف، زرداری ہو یا نوازشریف یا پھر مستقبل میں عمران خان سب ایک ہی نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ سودی نظام کے تحت۔ اس نظام کے علمبردار عالمی ادارے ورلڈ بنک، آئی ایم ایف ضرورت مند ممالک کو بھاری شرح سود پر قرض دیتے ہیں جب وہ ممالک عدم ادائیگی کی بناء پر قرضوں کی دلدل میں دھنسنے لگتے ہیں تو انہیں نجکاری یا پرائیویٹائزیشن پرمجبور کیا جاتا ہے، قومی ادارے ملکی یا غیر ملکی سرمایہ داروں کو اونے پونے فروخت کیے جاتے ہیں۔ حکومتی وسائل اورآمدنی محدود ہونے لگتی ہے۔ پھر قرضوں کی ادائیگی کے لیے حکومت پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ عوام کو دی گئی سہولتیں واپس لے کر اس رقم سے ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کے قرض ادا کریں۔ بے محابہ سود کی بناء پر قرضوں کی ادائیگی کے باوجود قرض پھر بھی نہیں اترتے۔ یوں دنیا بھر میں یہ نظام عوام سے سہولیات چھین رہا ہے۔ ایسا صرف پاکستان جیسے غریب اور کمزور ممالک میں نہیں بلکہ پورے یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام عام لوگوں سے سہولتیں چھین رہا ہے۔ یونان جس کی ایک مثال ہے۔ یونان کو پہلے عالمی سودی اداروں نے اس حد تک مقروض کردیا کہ یونان کا ریاستی قرضہ GDP کے 177 فیصد سے تجاوز کرچکا ہے۔ یعنی  اگر اہل یونان 177سال سے زائد عرصے تک نہ کچھ کھائیں، نہ خرچ کریں اور اپنی پوری سالانہ آمدنی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی سرمایہ دار اداروں کے سپرد کردیں تب بھی ان کا قرض ادا نہ ہوسکے گا۔ تنخواہوں، پینشن علاج اور دیگر شعبوں میں بقدر سانس لینے کے لیے مزید قرضوں کے لیے ان عالمی اداروں کی طرف سے آسٹیریٹی کی شرط لگادی گئی۔ آسٹیریٹی کا مطلب عوامی سہولیات پر ہونے والے ریاستی اخراجات میں کٹوتی ہے۔ اس کا مقصد لوگوں سے سہولتیں واپس لے کر ریاستی قرضوں کی ادائیگی کے لیے پیسہ جمع کرنا ہے۔ اہل یونان نے حالیہ ریفرنڈم میں اس خیال کو مسترد کردیا ہے۔اٹلی، پرتگال، اسپین، برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں کم و بیش یہی صورتحال ہے۔
اس نظام کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں سرمایہ داروں کی دولت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ غریب بد سے بدتر صورتحال سے دوچار ہیں۔ دنیا بھر میں امیر اور غریب کی خلیج تیزی سے وسیع ہورہی ہے۔ میکسیکو کے کارلوس سلم ہوں یا بل گیٹس، ان دو خاندانوں کا یہ حال ہے کہ اگر وہ روزانہ دس لاکھ ڈالر خرچ کریں پھر بھی 218 برس میں بھی ان کی دولت ختم نہیں ہوگی۔ ہمارے حکمران انہی عالمی سودخور اداروں کے ایجنٹ ہیں اور انہی اداروں کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں خواہ وہ آئی ایم ایف ہو، ورلڈ بنک یا کوئی اور سرمایہ دارانہ ادارہ۔ حقیقت یہ ہے کہ کمیونزم ہو یا سرمایہ دارانہ نظام دونوں انسانیت کا مداوا کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ نظام دنیا بھر میں دم توڑ رہا ہے انسانیت کے دکھوں کا مداوا صرف اسلام کے پاس ہے۔ دنیاکو بالآخر اسلام کی طرف رجوع کرنا ہی پڑے گا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
مزید پڑھیں